اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا غیر یقینی مستقبل

اسرائیلی پولیس وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو

اسرائیلی پولیس وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو

نیوز ٹائم

اسرائیلی پولیس وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف تحقیقات میں ان کے نزدیک پہنچ چکی ہے اور اب انھیں کوئی چیز بچا نہیں سکے گی۔ پولیس نے نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے مختلف اسکینڈلوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کی ہے۔ حال ہی میں ان سے جرمنی سے 2 ارب ڈالرز مالیت کی آبدوزوں کے سودے میں خرد برد کی تحقیقات کی ہے۔  ان سے ٹیلی کام کے کرپشن کے ایک کیس میں بھی پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ اس میں وہ مرکزی ملزم ہیں۔ پولیس کی ان سے پوچھ تاچھ کے ایک ہفتے کے بعد ان کی اہلیہ Sara اور دفتر کے ڈائریکٹر Ezra Saidoff پر فراڈ اور عوامی اعتماد کی خلاف ورزی کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔

اس تناظر میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحادی غزہ پر ایک نئی جنگ مسلط کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اسرائیلی سیاستدان ماضی میں ملک میں سیاسی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے سیکیورٹی بحران کو بروئے کار لا چکے ہیں  اور نتیجتاً انھوں نے غزہ پر مصنوعی جنگ مسلط کر دی تھی۔ اس طرز عمل سے شائد نیتن یاہو کو مزید کچھ وقت مل جائے لیکن اس کے سوا انھیں اور کچھ فائدہ نہیں مل سکے گا۔

اسرائیلی عہدے داروں کے حالیہ بیانات میں سے سب سے خطرناک اور سنگین بیان بپلک سیکیورٹی کے وزیر Gilad Erdan کا تھا۔  انھوں نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر ایک بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔  انھوں نے اس ممکنہ جنگ کا جارحیت کے نام پر دفاع کیا ہے اور اس سے اسرائیلی حکام کی مراد دہشت گردی کے انفرااسٹرکچر کو تہس نہس کرنا ہے۔  اگر اس حقیقت کا جائزہ لیا جائے کہ غزہ کی مزاحمتی حکمت عملی تو زیادہ تر غیر متشدد عوامی انتفاضہ پر مشتمل ہے  تو اس صورت حال میں یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ غزہ پر ممکنہ جنگ مسلط کرنے کا مقصد اسرائیل میں دائیں بازو کے مخلوط اتحاد کا دھڑن تختہ ہونے سے بچانا ہے۔ یہ اتحاد اب تک نیتن یاہو ایسے سیاستدان کی مہارتوں کی بدولت ہی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔

غزہ کے پتنگیں اڑانے والے:

اس مرتبہ اسرائیلیوں کی جنگ کے لیے کوششیں بالکل عجیب اور مضحکہ خیز ہے کیونکہ وہ غزہ سے پتنگیں اڑانے والوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ غزہ سے بعض فلسطینی اپنی جلتی ہوئی پتنگوں کو اسرائیل کی جانب اڑا رہے ہیں اور پھر انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ اسرائیل کو یقینی طور پر ان فلسطینیوں کے تحفظات سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی  جو گذشتہ کئی ہفتوں سے اسرائیلی باڑھ کے نزدیک سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ان کے مطالبات پر آواز دھرنے کے بجائے اسرائیلی وزیر تعلیم Naftali Bennett نے فوج سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جلتی پتنگیں اڑانے والوں کو قتل کر دیا جائے۔ انھوں نے حماس پر یہ الزام عائد کر دیا ہے کہ وہ ان پتنگوں کو  کنٹرول کر رہی ہے۔ اسرائیل کی نام نہاد وزیر انصاف Ayelet Shaked بھی ان سے کسی طرح پیچھے نہیں رہیں اور انھوں نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہنے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا کہ ایک جلتی پتنگ اور قسام راکٹ میں کوئی فرق نہیں ہے۔

 مسٹر Gilad Erdan کو اس سے کچھ سروکار نہیں کہ پتنگیں اڑانے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمر کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔  وہ دہشت گرد ہیں، انھیں خطرہ پیدا کرنے سے روکا جانا چاہیے۔  اس طرح کی متشدد منطق اور صورت حال کا مطلب برآری کے لیے استعمال اسرائیل میں بحث و مباحثے کا ایک معروف طریقہ ہے۔ اس مباحثے کے وقت کے حوالے سے بھی کوئی سوال اٹھا سکتا ہے کہ ایسے وقت میں متشدد فوجی کشیدگی کو کیوں ہوا دی جا رہی ہے  جب نیتن یاہو بدعنوانی کے اسکینڈلوں میں گھرتے چلے جا رہے ہیں؟  اسرائیلی وزیر اعظم کا مخلوط اتحاد فی الحال تو برقرار ہے لیکن ان کا مستقبل غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہوتا جا رہا ہے  اور یہ مختلف النوع سیاستدان انھیں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کی رخصتی کی صورت میں  ان کی جگہ نئی مخلوط حکومت میں اپنی جماعتوں کو آگے لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔  ہم ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل سے قطع نظر فلسطینیوں سے متعلق اسرائیلی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔ نیز نیتن یاہو کی دو عشرے کی حکمرانی نے اسرائیل میں دائیں بازو کی سیاست کو مستحکم کیا ہے  اور پورے ملک کے سیاسی نظریات ہی کو دائیں بازو کی جانب لڑھکا دیا ہے۔

نیتن یاہو کا سیاسی تخت:

درج ذیل اسرائیلی سیاستدان نیتن یاہو کے سیاسی تخت کے وارث ہو سکتے ہیں:

Naftali Bennett: نیتن یاہو کی کابینہ میں وزیر تعلیم ہیں اور Bayit Yehudi  (Jewish Home) پارٹی کے لیڈر ہیں۔  یہ دائیں بازو کے کٹر قوم پرست سیاستدان ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے شدید مخالف ہیں اور ایک عرصے سے غربِ اردن میں قائم تمام غیر قانونی یہودی بستیوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی وکالت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مسٹر Naftali Bennett نے مارچ میں اسرائیل کے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس ارادے کا اظہار کر دیا تھا  کہ اگر نیتن یاہو وزارت کے منصب اور سیاسی منظر سے الگ ہو جاتے ہیں تو وہ اس عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے۔ انھوں نے امریکن، اسرائیل پبلک افئیر کمیٹی کی کانفرنس میں اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا  کہ مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آباد کاروں کے غیر قانونی بلاکوں یا بستیوں کو خالی نہیں کیا جائے گا۔

انھوں نے واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ سرزمین کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے پر مغرب کی تنقید وقتی ہی ہو گی۔ ان علاقوں کو ضم کرنے کے 2 ماہ کے بعد بالکل خاموشی چھا جائے گی۔ یہ علاقے 20 سال اور 40 سال کے بعد بھی ہمارے ہیں اور پھر ہمیشہ ہمارے ہی رہیں گے۔

Moshe Kahlon: یہ صاحب نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں وزیر خزانہ ہیں۔ انھیں دائیں بازو کے انتہا پسند مخلوط اتحاد میں ایک اہم رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ وہ نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ کے رکن تھے لیکن انھیں وزیر اعظم سے بعض داخلی امور پر اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔  Moshe Kahlon بھی نام نہاد امن عمل کی بحالی کے لیے وکالت کرتے رہتے ہیں لیکن وہ بھی نیتن یاہو کی طرح فلسطینی قیادت کو مذاکرات کی ناکامی کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں  اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی غیر قانونی بستیوں سے متعلق اسرائیل کی پالیسیوں کو اس کا مورد الزام نہیں ٹھہراتے ہیں۔  اگر وہ وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو وہ اپنی جماعت کو دائیں بازو کے قریب تر لانے کے لیے نیتن یاہو کی سیاسی حکمت عملی پر ہی عمل پیرا رہیں گے اور مستقبل میں ملک کے قوم پرستوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ مخلوط اتحاد بنائیں گے۔

Gideon Sa’ar: یہ بھی لیکوڈ پارٹی کے سابق رکن ہیں۔ انھوں نے جماعت میں اپنی مقبولیت کے باوجود 2015ء  میں نیتن یاہو سے شدید اختلافات کے بعد سیاست کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ تاہم وہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کا حتمی مقصد مستقبل میں ملک کی قیادت کرنا ہے۔

دو ریاستی نعرہ:

نیتن یاہو کے کرپشن اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد سعار دوبارہ سیاست میں واپس آ چکے ہیں۔ وہ مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے سیاسی پروگراموں کی وضاحت کر رہے ہیں۔ انھوں نے دو ریاستی حل کو دو ریاستی نعرہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے،  صرف اس بنا پر نہیں کہ وہ ایک جمہوری ریاست میں مل جل کر رہنے میں یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے بہ قول اسٹیٹس کو ہی اسرائیل کے لیے مناسب ہے۔

Ayelet Shaked ۔ اسرائیل کی دائیں بازو کی کٹر قوم پرست، انتہا پسند سیاستدان ہیں اور اس وقت نیتن یاہو کی کابینہ میں وزیر انصاف ہیں۔ یہ نسل پرستانہ موقف کی حامل ہیں اور اکثر اپنے اشتعال انگیز نقطہ نظر کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ Bennett’s کی Jewish Home Party سے تعلق رکھتی ہیں۔ Ayelet Shaked کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ انھیں فلسطینی ریاست کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں  کیونکہ اس کی تو وہ کئی مرتبہ وضاحت کر چکی ہیں بلکہ ان کا ملک میں غیر یہود کمیونٹیوں اور جمہوریت کے بارے میں مجموعی نقطہ نظر ایک بڑا مسئلہ ہے۔

انھوں نے اسرائیلی روزنامے Haaretz سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں ریاستِ اسرائیل کا ایک یہودی ریاست کے طور پر کردار برقرار رکھا جانا چاہیے، بعض اوقات ایسا برابری کی قیمت پر کیا جاتا ہے۔ اسرائیل ایک صہیونی ریاست ہے۔ یہ اس میں آباد تمام قوموں کی ریاست نہیں ہے۔ اس لیے یہود کی اکثریت کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے خواہ اس کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قیمت ہی کیوں نہ چکانا پڑے۔

Avi Gabbay: وزارت کے ممکنہ امیدواروں میں آوی گابی آخری نمبر پر ہیں۔  انھوں نے 4 سال قبل Kulanu Party کو لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے خیرباد کہا تھا۔ Avi Gabbay بھی نیتن یاہو اور دائیں بازو کے دوسرے سیاستدانوں کے غیر قانونی یہودی بستیوں کے بارے میں انتہا پسندانہ نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ یہودی بستیاں ہی اسرائیل کے دائیں بازو کے لیے سب سے طاقتور سیاسی حلقہ ہیں۔ انھوں نے لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے فوری بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو منہدم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسرائیل کی سیاست ضرور پیچیدہ ہو سکتی ہے اور اس کا مظہر اس کی مخلوط پیچیدہ حکومتیں ہیں  لیکن جب اسرائیل کے فوجی قبضے کا سوال آتا ہے تو کم و بیش تمام سرکردہ سیاستدان یکساں موقف کے حامل اور اکثر ہم آواز ہوتے ہیں۔ نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل سے قطع نظر اسرائیل کی فلسطین کے بارے میں پالیسیاں ناقابل تبدیل رہیں گی۔ اس صورت میں فلسطینیوں پر یہ فوری ذمے داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ اسرائیلی قبضے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غیر قانونی یہودی بستیوں ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی ایک متحدہ حکمت عملی وضع کریں۔

No comments.

Leave a Reply