چین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات

چین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات

چین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات

نیوز ٹائم

چین اور اسرائیل کے تعلقات میں کچھ عرصے سے ایک نئی طرح کی پیشرفت واضح طور پر محسوس ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے امریکا سے دیرینہ تعلقات کے باوجود چند برسوں میں چین سے بھی راوبط کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے  اور وہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے اپنے معاملات کو بہتر کرنے کی غرض سے 2002ء میں واضح طور پر اقدامات اٹھانے کی حکمت عملی اختیار کر چکا ہے۔  اس نے University of Haifa ، Burlan of University اور Tel-Hai Academic College میں ایشین اسٹیڈیز کے پروگرام شروع کر دیے  اور Hebrew یونیورسٹی اور Tel Aviv University میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ قائم کر دیے ہیں جن میں متعدد طلبا نے داخلہ لے کر یہ ثابت کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ چین کی حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

چین دنیا بھر میں اپنی مخالفت اور کھٹ پٹ کو دیکھتے ہوئے نئی منڈیاں تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔  اسرائیل کے حوالے سے چین بلکہ دنیا بھر میں یہ خیال بہت مستحکم ہے کہ وہ اپنی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ضرور چھوٹا ملک ہے، لیکن سائنس کے میدان میں اس کے ماہرین نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور مختلف شعبوں میں وہ اعلی ترین ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔  چین اس کی ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔  اس کے باوجود کہ دونوں ممالک امریکا کے ضمن میں مختلف حکمت عملیاں رکھتے ہیں، دونوں ممالک نے متعدد شعبوں میں مل کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین اس حوالے سے تین نکاتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔  وہ تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافتی تعلقات کو بڑھا رہا ہے اور ان تینوں نکات کے ذیل میں متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے۔  اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں چین کے اثرات سیاسی طور پر بھی اسرائیل میں بڑھ رہے ہیں۔ ویسے تو چین وہاں بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے،  لیکن Haifa میں کارمل ٹنل کا منصوبہ اور تل ابیب میں لائٹ ٹرین کا منصوبہ چین ہی کی وجہ سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ China Ashdod اور Haifa کی بندرگاہوں کی توسیع کا کام بھی کر رہا ہے۔ رہائشی عمارتوں کی تعمیر میں چین بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

گزشتہ برس اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت 10 ایسے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے جن کی مالیت 25 ارب ڈالرز ہے۔ چین، اسرائیلی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کو کتنی اہمیت دے رہا ہے، اس کا اندازہ اس کی انٹرنیٹ کی بہت بڑی کمپنیز میں سے ایک Baidu کے سی ای اور Wanbly کی اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو سے ملاقات کے بعد دیے جانے والے بیان سے کیا جا سکتا ہے۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں سرمایہ کاری دراصل ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ہے۔ اسی طرح چین کی انٹرنیٹ اور تجارت سے متعلق معروف کمپنی Ali Baba مختلف مقامات پر 7 ریسرچ لیبارٹریز قائم کر رہی ہے جن میں سے ایک اسرائیل میں قائم کی جائے گی۔ چین درحقیقت اسرائیل کی اعلی ٹیکنالوجی، خوراک، زراعت، پانی اور بایو ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کی غرض سے Israel Technion Institute of Technology اور چین کی Shantou یونیورسٹی نے چین کے صوبے Guandong میں کیمپس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے چین نے 147 ملین ڈالرز کی گرانٹ اور زمین فراہم کی ہے  اور ایک غیر سرکاری چینی تنظیم نے 130 ملین ڈالرز کی گرانٹ دی ہے۔ اسی طرح حیفہ یونیورسٹی اور ایسٹ چائنا نارمل یونیورسٹی، شنگھائی میں مشترکہ لیباریٹری قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے  جہاں بایو میڈیسن، نیوربایولوجی وغیرہ کے شعبوں میں تحقیق کی جائے گی۔  تل ابیب یونیورسٹیTshinghua یونیورسٹی سے مل کر ریسرچ سینٹر بنا رہی ہے تاکہ بایو ٹیکنالوجی، شمسی توانائی، ماحولیاتی ٹیکنالوجی اور پانی پر تحقیق کی جا سکے۔

یاد رہے کہ صرف 2016ء میں چین نے اسرائیل میں ٹیکنالوجی میں 16.5 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی جو 2015ء کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔ اسرائیل کی سیاحت کی صنعت میں بھی چینی بڑے پیمانے پر آ کر حصہ لے رہے ہیں۔ پہلے یہ تعداد چند ہزار افراد تک محدود تھی، مگر اب یہ ایک لاکھ نفوس سالانہ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے امریکا اور کینیڈا کے بعد چین کو ایسے تیسرے ملک کا درجہ دے دیا ہے  جس کے شہریوں کو 10 سال کا Multiple ویزا جاری کیا جاتا ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے دونوں ممالک کے ثقافتی تعلقات بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔  گزشتہ نومبر میں چین نے تل ابیب میں اپنا کلچرل سینٹر کھولا۔ یہ دنیا میں چین کا 35واں اور مشرق وسطیٰ میں دوسرا کلچرل سینٹر ہے۔  اس سے قبل صرف مصرکے دارالحکومت قاہرہ میں ایسا مرکز موجود تھا۔ علاوہ ازیں چین نے گزشتہ دسمبر میں فلسطین، اسرائیل امن سمپوزیم کی میزبانی کی تھی جس میں چین کے صدر نے امن کے لیے اپنا 4 نکاتی فارمولا پیش کیا تھا۔ اس صورت حال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کیوں اپنے تعلقات بڑھا رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چین، اسرائیل کی ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسرائیل کی خواہش ہے  کہ چین عرب دنیا سے اس کے معاملے میں عرب دنیا کی حمایت کرنے کے بجائے اپنا جھکائو اسرائیل کی طرف کر لے۔  اس نے یہی طریقہ اختیار کر کے بھارت کو بھی اپنی طرف راغب کر لیا۔ تاہم یہ علیحدہ بات ہے کہ اب عرب فوجی بھارت ہی میں تربیت لینے آ رہے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply