سپریم کورٹ آف پاکستان کا بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم، سندھ طاس معاہدے پر بھی نظر

سپریم کورٹ آف پاکستان کا بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم

سپریم کورٹ آف پاکستان کا بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سپریم کورٹ آف پاکستان نے Bhasha and Mohmand Dam کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے  وفاقی حکومت سے تین ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق مختصر فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو فوری طور پر Bhasha and Mohmand Dam تعمیر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکومت 3 ہفتوں میں ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے سے متعلق رپورٹ دے  اور ڈیموں کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام ایک اکائونٹ بھی کھولا جائے۔ سپریم کورٹ نے قوم سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے اس اکاوئٹ پیسہ جمع کرانے کی بھی اپیل کی۔ اس سے قبل دوران سماعت سابق چیئرمین واپڈا Shams-ul- Mulk نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ دنیا بھر میں 46 ہزار سے زائد ڈیمز بنے، بھارت نے ساڑھے 4 ہزار ڈیمز اور چین نے 22 ڈیمز بنائے جبکہ ورلڈ بینک اور کینیڈا مدد نہ کرتے تو پاکستان میں ایک ڈیم بھی نہ ہوتا۔  انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیموں کی شدید قلت ہے، ڈیموں کی تعمیر پر فوری کام شروع ہونا چاہئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، پانی کے بغیر ملک کی بقا مشکل ہو جائے گی، جنگی بنیادوں پر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بحران شدید ہو جائے گا  لہذا فوری طور پر Bhasha and Mohmand Dam کی تعمیر شروع کی جائے جبکہ kalabagh dam پر بہت لوگوں کے اختلاف ہیں، سب کا اتفاق ہو تو kalabagh dam بھی بن سکتا ہے۔

پانی و بجلی کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ 2001 ء سے پانی کی دستیابی میں بتدریج کمی آ رہی ہے، رواں سال پانی کی دستیابی گزشتہ سالوں کی نسبت انتہائی کم ہے، Tarbella کے بعد ہمیں ہر 10 سال بعد ایک نیا ڈیم بنانا چاہئے تھا،  ہمارے پاس 13.7 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ہے، Bhasha and Mohmand Dam سے ہمارے اسٹوریج میں اضافہ ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کو ڈیمز کی ضرورت ہے، پاکستان کی ضرورت کے تحت جتنے ڈیمز بنائے جائیں کم ہیں،  زیر زمین پانی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے اور ہم نے کھربوں روپے کا پانی مفت میں دے دیا جبکہ ڈیمز تو بننے ہیں، یہ ملکی بقا کے لئے بہت ضروری ہیں، ہمیں ملک متحد کرنا ہے تقسیم نہیں، اس لئے فی الحال kalabagh dam کی بات نہیں کر رہے، ممکن ہے کہ مستقبل میں سندھ kalabagh dam بنانے کا مطالبہ کرے،  فی الحال ان ذخائر پر فوکس کر رہے ہیں جن پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔

پاکستان کو پانی کی بوند بوند کو ترسانے کے لئے بھارتی منصوبے اپنے عروج پر ہیں جو کام 70 سال میں بھارت کی قیادتیں نہ کر سکیں وہ مودی کرنے پر تلا ہوا ہے  وہ پاکستانی دریائوں پر ڈیم بنا رہا ہے دریائوں کا رخ تبدیل کر رہا ہے  مگر پاکستان میں اس حوالے سے کوئی سوچ نہیں سپریم کورٹ نے ڈیم بنانے کے حوالے سے کل جو فیصلہ دیا وہ قابل ستائش ہے کسی نے 64 سال بعد ابتدا تو کی۔ میں کمرہ عدالت میں موجود تھا عدالتی فیصلہ آنے کے بعد کچھ وکلا نے کہا  kalabagh dam اس فیصلے کے بعد مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گا  مگر سوچنا یہ چاہئے کہ کچھ تو ہوا جتنے پیسے اورنج لائن ٹرین پر لگا دیئے گئے۔  ان سے ایک ڈیم بن جاتا تو ساری قوم مستفید ہوتی۔ یقیناً اس کا سہرا عدالت عالیہ اور اس کے سربراہ کو جاتا ہے ورنہ ہر ایک اس معاملے کو دوسرے پر ڈالتا رہا ہے۔

واپڈا کے چیئرمین نے کہا میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں مگر وہ ہاتھ باندھنے کی وضاحت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وزارت خزانہ معاملہ منصوبہ بندی اور وزارت پانی پر ڈال رہی تھی میری بغل میں بیٹھے پلاننگ ڈویژن کے سیکرٹری اور دیگر اعلی افسران عدالت کا موڈ دیکھ کر خاموش رہے  ورنہ آپس میں بات کر رہے تھے عدالت کو بتایا جائے کہ یہ ڈیم متنازعہ ہے  کیونکہ اس کے معاملات کی منظوری یکمشت نہیں اقساط میں لی گئی  اور سندھ کے وزیر اعلی کی بجائے ان کے عزیز رشتے دار نے بطور وزیر خزانہ دستخط کیے ہیں  وغیرہ وغیرہ جس سے انداز ہوتا ہے کہ بیورو کریٹس قومی معاملات اور قومی منصوبوں کو موخر کرنے، ان میں کیڑے نکالنے کو اپنا فرض جانتے ہیں تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ بھی بیورو کریٹس اور افسر ہیں  جبکہ ان لوگوں کی ہی نسلیں ڈیم نہ بننے کی وجہ سے آنے والے عذاب میں مبتلا ہوں گی  مگر انہیں مستقبل کی نہیں حال کی افسری ہی عروج نظر آتا ہے۔

پانی کے حوالے سے سب سے بڑی مجرمانہ کوتاہی اور غفلت Satluj ، Ravi اور Beas کا سارا پانی بند کرنا ہے  جو Indus Water Treaty کے مطابق بھارت نہیں کر سکتا اس معاہدے کی شق کے مطابق لوگوں کے لئے پینے کا پانی آبی حیات اور جنگلی حیات کا پانی ہر صورت میں جاری رکھنے کا معاہدہ ہے  مگر پاکستان کے اس محکمے نے جس کے ذمے اس کی نگرانی ہے۔ اپنے سربراہ کو کھلی چھوٹ دے رکھی کہ وہ بھارت سے بھی معاملات کرتا رہے۔ مبینہ طور پر پاکستان کا انڈس واٹر کمشنر ریٹائرمنٹ کے بعد کنیڈا کا شہری بن چکا ہے اور اس کی وہاں جائیداد کسی سعودی شہزادے سے کم نہیں۔  اس کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی یقینا یہ دولت اس نے جائز طریقے سے نہیں بنائی  اور اگر وہ پاکستان کا محب وطن ہوتا تو اپنی زندگی کا باقی حصہ پاکستان میں گزارتا  مگر جس کے دل میں چور ہو وہ کیوں پاکستان میں ٹھہرنا پسند کرے گا اس معاملے میں بعض دیگر افسران بھی شامل ہوں گے۔  بھارت نے پاکستان کے Indus Water Treaty کو سبوتاژ کرتے ہوئے اپنی من پسند کاروائیاں ان لوگوں کو بھاری رقوم دے کر پایا تکمیل تک پہنچائیں۔ ان افراد کے خلاف کارروائی احتسابی اداروں کا کام ہے مگر ان ماہرین نے ساری واردات اتنی ٹیکنیکل طریقے پر ڈالی جس کو پکڑنا آسان نہیں۔

Indus Water Treaty کا معاملہ الگ اور منفرد ہے جس کے بارے میں چیف ایڈیٹر خبریں Zia Shahid کی سپریم کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے  آج اس درخواست کی سماعت رکھی گئی جو نہ ہو سکی Indus Water Treaty کا معاملہ پاکستان میں بننے والے ڈیموں سے قطعی مختلف ہے۔ یہ الگ بات کے ان ڈیموں کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھی کچھ غدار وطن شامل ہیں۔ قوم کے پانی کو بیچا گیا اور جائیدادیں اپنی بیٹیوں، بیٹوں کے نام بنا کر غیر ملکی شہریت حاصل کر لی گئی۔ گزشتہ 7,5 برس میں امریکہ اور برطانیہ میں جو سیاسی سفیر تعینات کئے گئے  ان کے ذمہ سفارتخانے سے غیر قانونی طور پر بھاری رقوم حاصل کرنے کے ثبوت موجود ہیں مگر برطانیہ میں تعینات رہنے والے برطانوی شہری پاکستانی سفارتکار کے معاملے کو ایک نظر سے جبکہ امریکہ میں تعینات Husain Haqqani کے معاملے کو دوسری نظر سے دیکھا جاتا ہے  حالانکہ دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہے سوئٹزرلینڈ میں قومی احتساب بیورو کی دستاویزات منتقل کرنے کی تصاویر آج بھی نیٹ پر موجود ہیں جس کی نگرانی برطانیہ اور پاکستان کے سفیر کر رہے تھے  مگر انھوں نے اپنی موجودگی کو وہاں حادثاتی قرار دے دیا کہ وہ بارش میں چھتری تھامے ڈبے رکھوا رہے تھے۔

اگر پاکستان نے اب بھی Satluj، Ravi اور Beas کے پانی کو مکمل طور پر بند کرنے کے حوالے سے کوئی قدم نہ اٹھایا  تو یہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا کیونکہ اس معاہدے کی شق کے مطابق آپس میں ثالث کے ذریعے فیصلہ کرنا ضروری ہے اور اگر ثالث یہ کہہ دے کہ فریقین میری ثالثی کو نہیں مان رہے تو یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت میں چلا جائے گا  پاکستان نے جو ثالث مقرر کیا ہے وہ Neelum ، Jhelum دریا پر بھارت کی جانب سے نئے ڈیم بنانے، بجلی کا پلانٹ لگانے اور پانی کو کم کرنے کے بارے میں ہے۔ اس میں ستلج، Satluj، Ravi اور Beas کا پانی مکمل طور پر بند کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔  یہ وہ سنگین معاملہ ہے جس کا بروقت نوٹس نہ لیا گیا تو بھارت اور اس کے ادارے پاکستان کے افسران کی مزید خدمت اور انھیں چمک مہیا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس کے بعد ہمارے پاس کوئی چانس نہیں رہے گا۔  اگر مستقبل میں اس معاملے کو پاکستان عدالت میں یا ثالثی میں لے گیا تو بھارت اس پر بجا طور پر اعتراض اٹھائے گا  کہ پاکستان نے پہلی ثالثی میں اس معاملے کو نہیں چھیڑا اور نہ زیر غور لایا یہ ان کی بعد کی بددیانتی پر مبنی سوچ ہے۔

1960میں پاکستان اور بھارت کے مابین Indus Water Treaty کئی آرٹیکل پر مشتمل ہے جس میں واضح طور پر درج ہے کہ بھارت ماحولیات کو برقرار رکھنے کے لئے ان دریائوں میں پانی کو مکمل طور پر بند نہیں کرے گا۔ یہ بات بھی کسی حیرت سے کم نہیں ہے کہ بھارت سے حق لینے کے لئے سرکاری ادارے اور افسران سب سے پہلے پی سی ون تیار کرتے ہیں  پھر اس کی منظوری لی جاتی ہے جس میں مہینوں لگاتے ہیں پھر اس میں ہر ادارہ کیڑے نکالتا ہے  اور یوں بھارت کو وقت مل جاتا ہے۔  بعض معاملات میں تو پاکستان اپنے حق سے اسی کوتاہی اور تاخیر کے باعث محروم ہو جاتا ہے۔ صوبائی کمشنر برائے سندھ واٹر نے دوٹوک الفاظ میں ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت کے مفادات کی نگرانی واٹر کمیشن میں تعینات افراد کرتے رہے ہیں  ہمیں اس جانب فوری متوجہ ہو کر ایسے مقدمات کی فوری سماعت کی جانی چاہئے۔

No comments.

Leave a Reply