موازنہ ۔۔۔ پاکستانی جمہوریت اور آمریت کا

موازنہ ۔۔۔ پاکستانی جمہوریت اور آمریت کا

موازنہ ۔۔۔ پاکستانی جمہوریت اور آمریت کا

نیوز ٹائم

مجموعی طور پر اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت پر اگر کسی ملک میں واقعی پریکٹس ہو رہی ہو  تو وہ عوام کے لیے ایک شجر سایہ دار کی مانند ہے اور اس کی شاخیں زمین کی طرف جھکی ہوئی ہیں اور ثمرِ ذائقہ دار سے بھری ہوئی ہیں، مگر معاشی طور پر کمزور ممالک جہاں کی لیڈرشپ علم، ادب، فلسفہ، سائنس اور سیاسی اصولوں سے عاری ہے وہاں ہر وقت پت جھڑ کا موسم رہتا ہے اور عام لوگوں کے لیے ہر لمحہ سن اسٹروک کا ہے۔

جن لوگوں کے پاس مواقعے ہیں وہ ملک چھوڑ کر فرسٹ ورلڈ جا رہے ہیں۔ خصوصا ٹیلنٹڈ، ذہین، اعلی تعلیم یافتہ اور ہنرمند تیزی سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ امریکا، کینیڈا اور دیگر جگہوں کا سفر جاری ہے۔  ایسا کیونکہ روپیہ زوال ہے۔ دور کیوں جائیے بنگلہ دیش پر ایک نظر جس کو یہاں کا صاحب اقتدار طبقہ خصوصاً لیڈر حضرات مغربی پاکستان پر بوجھ تصور کرتے تھے، اسے گنوا کے بہت خوش تھے، مگر پاکستان کے لیڈر حضرات نے گزشتہ 20 برسوں میں کیا کیا ہے اس کا موازنہ بہت ضروری ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بھنور میں دھکیلنے والے کون ہیں؟

کون بڑے زور شور سے قرض لینے کے بعد سابق وزیر اعظم سے داد و تحسین لیتا تھا اور اب وہ ملک سے فرار ہے۔ ایک زمانے میں ملک میں یہ نعرے لگتے تھے کہ قرض اتارو ملک سنوارو اور ماں، بہنوں نے جو زیورات اور دھن دیا وہ کیا ہوا؟ پاکستان میں ایک پارٹی نے نہیں تمام پارٹیوں نے قرض کو اپنی کمائی سمجھ لیا تھا  اور پورے ملک میں لیڈران نے لگژری کاروں کا انبار لگا دیا۔ ہر شے امپورٹ کرنے کا کلچر بنا لیا گیا جبکہ ایکسپورٹ دم مرگ ہے۔

ایسی صورت میں ملک کا کیا بنے گا۔ خدانخواستہ اگر ہم بلیک لسٹ کے بھنور میں پھنس گئے تو پھر (LC) لیٹر آف کریڈٹ کا کیا ہو گا۔ ڈالر کتنی بلندیوں پر اڑ رہا ہو گا اب تو ملک کے کونے کونے میں اعلی ترین سپر مارکیٹوں کا بازار گرم ہے۔ ہر وہ سپر اسٹور زیادہ زور شور سے کاروبار کر رہا ہے جہاں صابن سے لے کر سرکہ بھی غیر ملکی دستیاب ہے۔ پھر مہنگی اشیا کا کیا کہنا؟  یہ ظاہری نام و نمود صرف 15 فیصد عوام کے لیے ٹارگٹ مارکیٹ تصور کر کے کام ہو رہا ہے  اگر لگژری کاروں اور پٹرول کے ان پر خرچ کو روکا جائے تو ملک کا 20 فیصد تک قرض کم ہو سکتا ہے  اور موجودہ حالات میں اگر امپورٹ پر پابندیاں لگائی جائیں تو معاملات 35 تا 40 فیصد کم ہو سکتے ہیں  مگر ملک کو ادھار پر چلانے والے دراصل امیر ممالک کے مفاد میں پالیسی بناتے ہیں  جبکہ ملک کے 80-85 فیصد عوام ترستے رہیں۔  سوچیے ملک کے عوام کے مفاد میں پالیسی وضع کیونکر کی جائے۔ کیونکہ کھربوں کے اثاثے لاکھوں میں ڈکلیئر ہو رہے ہیں۔ یہ ہیں لیڈران اور یہ سب Sadaq and Ameen ہیں۔

گزشتہ 15 برسوں میں معاشی صورت حال مزید دگرگوں ہو چکی ہے۔ لیڈران جیتنے والی پارٹی کی طرف دوڑ رہے ہیں لیکن عوام کے سامنے لیڈروں کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، ہر جگہ لیڈروں کا گھیرائو ہو رہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو روپیہ عوامی دور میں ڈالر کے مقابل اور گرائوٹ کا شکار ہو گا۔ ایک افواہ جو پھیلی ہے کہ ڈالر 130 یا اس سے بھی مہنگا ہونے کو ہے۔ ڈالر کے خریدار یہ دولت کے پجاری ڈالر کی خرید میں مصروف ہیں اور کوئی قانون ان پر لاگو نہیں۔ کیونکہ دولت مند ملک اپنا دفاع جانتے ہیں یہ صرف سیاسی پناہ نہیں دیتے بلکہ غریب ملکوں کے کرپٹ لوگوں کو بھی پناہ دیتے ہیں تاکہ معاشی آسودگی ان ممالک میں فروغ پاتی رہے، ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ آسودہ حال ہمارے حکمراں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ ہمارے ملک میں یہ غیر ملکی نمائندے ہیں۔  ان کی دولت کا انبار وہیں لگتا ہے اور ان کی مصنوعات کے خریدار ہمارے ہی ملک میں رہتے ہیں۔

زیادہ عرصے کی بات نہیں جب پرویز مشرف نے ملکی باگ ڈور سنبھالی تو سرمائے میں استحکام نظر آیا۔ گو کہ وہ عوامی نمائندہ ہر گز نہ تھے ڈالر 70-60 روپے پر تھا لہذا آمریت کے خلاف تحریک چلائی گئی  اور این آر او کا جال امریکا اور برطانیہ میں تیار کیا گیا اور ان کے من پسند لوگ ہمارے حکمران بنے، ان میں بینظیر بھٹو جن کا عوام کی نبض پر کسی حد تک ہاتھ تھا۔ اچانک خاک نشین کر دیا گیا اور یہ معلوم نہ ہوا کہ یہ اتفاقیہ عمل تھا یا غیر ملکی سازش؟ یا عالمی دوغلا پن۔ اس راز سربستہ کا پردہ اب تک چاک نہ ہوا۔ خیر کون تھا عمل کے پیچھے، وقت کی قبر میں دفن ہو گیا۔

پرویز مشرف کی حکومت عوامی نہ تھی مگر مشرف نے جہاں ایک طرف معیشت کا چکر گھومتا ہوا رکھا  تو دوسری طرف Dr. Abdul Qadeer Khan کو کسی غیر ملک کے حوالے ہونے نہ دیا۔ جو بھی اعتراضات کروانے تھے محض اپنے ملک میں ہی، مگر ان کی جگ ہنسائی نہ کی گئی  اور نہ غیر ملکی قید و بند میں دیا گیا ورنہ ان کو تو عافیہ صدیقی سے بدتر زندگی گزارنی پڑتی۔

اب معاشی در پر ذرا دستک دیں تو دیکھیے کہ پاکستان کو گرے لسٹ کے لوازمات سے گزرنا تو دورکی بات بالکل اس کے قریب نہ تھا جبکہ اب تو بلیک لسٹ ہونے کے خدشات سر پہ منڈلا رہے ہیں، آخر یہ سب جمہوریت کے نام پر روا رکھا جا رہا ہے۔ آخر ملک کو یہ آمریت نما جمہوریت جس میں قومی اسمبلی کے اجلاس سال میں بہ مشکل دو، تین بار کسی مسئلے پر ہوتے ہوں۔ ان میں اکثر وزیر اعظم کی آمد نہ ہوتی ہو یہ کیسی جمہوریت جہاں فیصلہ خاندان کے لوگ اور احباب کرتے ہوں یا پھر کسی بیرونی طاقت کے اشارے پر ہوتے ہوں۔ ابھی تو کچھ ایسی انہونی نہیں ہوئی کہ فاٹا کا ڈنڈا بھی نہیں گھوما کہ پٹرول جمپ کر کے کہاں گیا اور ڈیزل کو پر لگ گئے۔ یعنی مہنگائی کی آندھی چل پڑی۔ اس پر سے حکمراں مزید قرض کے خواہاں ہیں۔ اس عمل کے لیے اب گیس کی باری آنے کو ہے لہذا کارکردگی کی بنیاد پر تو جمہوری حکومتیں بالکل ناقص ثابت ہو رہی ہیں۔ لہذا اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ملک میں خصوصا کمزور معاشی حیثیت والے ممالک آمریت کے لیے بہترین ہیں۔  جناب جب جمہوریت کے نام پر جمہوری فریب رسانی ہے تو یہی ہوتا جبکہ آمر ذرا پست ہمت ہوتا ہے اور اپنی پرفارمنس اچھی دکھانا چاہتا ہے  لیکن جمہوریت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں شرکت سے بھی استثنیٰ حاصل کر لیتے ہیں۔

جب تک پاکستان میں آزاد ترقی پسند اور غریب پرور حکومت نہیں آتی ملک کے حالات بد سے بدتر کی طرف جاتے رہیں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عوام بیدار ہو رہے ہیں اور ایسے نظام سے اپنی وابستگی توڑ رہے ہیں۔ اس انتخابات کے بعد خدشہ ہے کہ 2023ء کے انتخابات میں لوگ لیڈروں کا گھیرا کریں گے لہذا آنے والی حکومت عوام کو مشکلات سے دور کر دے خاص طور سے بجلی، پانی، رہائش اور روزگار کی سہولت۔  اس کے لیے زمینداری نظام میں اصلاحات، ڈیموں کا جال بچھانا ہو گا، اگر حکومت شجر سایہ دار اور ثمرات سے پر نہ ہوئی تو لیڈروں کو منظر عام سے بھاگنا ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply