طالبان اور امریکہ میں براہ راست مذاکرات کے لیے کوششوں میں پیشرفت

طالبان اور امریکہ میں براہ راست مذاکرات کے لیے کوششوں میں پیشرفت

طالبان اور امریکہ میں براہ راست مذاکرات کے لیے کوششوں میں پیشرفت

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغان طالبان، کابل سرکار اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کے حوالے سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے امریکہ کی اس پیشکش پر غور شروع کر دیا ہے  کہ طالبان امریکی افواج کی موجودگی اور افغان آئین میں تبدیلی پر بات چیت کے لیے اپنے وفد کا انتخاب کریں۔ جبکہ افغان مصالحتی کمیشن کے جنرل سیکرٹری Akram Khpalwak نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان، امریکا اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے طالبان کے ساتھ افغان فوج کے افسران اور قبائلی عمائدین کے ذریعے رابطے ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ نے گزشتہ دونوں قبائلی عمائدین کے ذریعے افغان طالبان کو پیغام بھیجا ہے کہ واشنگٹن افغانستان میں محدود تعداد میں امریکی افواج کی موجودگی اور افغان آئین میں تبدیلی کے معاملات پر براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہے۔ اس حوالے سے مذاکرات کے لیے طالبان اپنا بااختیار وفد تشکیل دیں۔ ذرائع کے بقول امریکی وزارت خارجہ کا یہ پیغام طالبان کو قندھار کے پولیس چیف General Raziq اور Kandahar کے Poplazai اور Ahmadzai tribal کے سرداروں کے ذریعے پہنچایا گیا تھا۔ افغان طالبان کی جانب سے مشاورت کے بعد اس پیغام کا جلد جواب دینے کا کہا گیا ہے۔

ادھر General Raziq نے افغان میڈیا سے بات چیت میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے طالبان کے بعض رہنمائوں سے بات چیت کی ہے  اور امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر رضامند ہیں۔ جبکہ افغان مصالحتی کمیشن کے جنرل سیکرٹری Akram Khpalwak نے افغان پارلیمان کے اراکین کو بتایا ہے کہ امریکہ، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے ہونے والے رابطوں میں پیشرفت ہوئی ہے  اور امکان ہے کہ اگست کے مہینے میں مذاکرات شروع ہو جائیں گے، جس میں صرف افغان حکومت کے نمائندے، امریکی حکام اور طالبان رہنما شریک ہوں گے۔ Akram Khpalwak نے بتایا کہ افغان طالبان سے رواں ماہ سعودی عرب میں ہونے والی علما کانفرنس میں شرکت کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ افغانستان میں دیگر تنظیمیں بھی تقسیم ہو رہی ہیں جو مستقبل میں طالبان کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اس لئے انہیں مذاکرات کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ طالبان قیادت امریکی پیشکش پر غور کر رہی ہے اور طالبان شوریٰ میں موجود ان سخت گیر رہنمائوں کو منانے کے لیے کوشاں ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اس وقت طالبان کے ساتھ دھوکہ کرنا چاہتا ہے،  کیونکہ وہ شکست کے قریب پہنچ چکا ہے۔ افغان طالبان کو مزید 8 سے 10 ماہ اپنی جدوجہد تیز کرنی چاہیے، کہ اس کے بعد امریکہ خود گھٹنے ٹیک دے گا۔ افغان طالبان کی شوریٰ اراکین کے خیال میں امریکہ مذاکرات کا ڈرامہ کر کے طالبان کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ کہونکہ افغان جنگ امریکہ کے لیے آہستہ آہستہ معاشی اور فوجی طور پر ڈرائونا خواب بنتی جا رہی ہے۔ لہذا طالبان قیادت کو گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ مذاکرات کی میز پر نہیں ہارنی چاہئے۔

دوسری جانب ذرائع کے بقول افغان طالبان کے اعتدال پسند رہنمائوں کا موقف ہے کہ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ امریکہ پہلی بار براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے۔ اگر اس پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا گیا تو امریکہ کو طالبان کے خلاف پوری دنیا میں پروپیگنڈے  کا جواز مل جائے گا اور سفارتی سطح پر گزشتہ دو برسوں میں طالبان نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ ضائع ہو جائیں گی۔ اس لئے طالبان قیادت کو چاہئے کہ اس پیشکش کو قبول کر کے مذاکرات میں امریکہ کو اپنے مطالبات پیش کرے۔ اگر امریکہ انخلا کا اعلان کرتا ہے تو یہ طالبان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی امکان یہ ہے کہ افغان طالبان کی جانب  سے مشاورت کے بعد جلد مثبت جواب دیا جائے گا اور تینوں فریق بات چیت کے لیے کسی تیسرے ملک کا انتخاب کریں گے۔ قومی امکان ہے کہ اگست کے پہلے ہفتے میں ترکی یا سعودی عرب میں مذاکرات ہوں گے۔ ذرائع کے بقول اگست کے تیسرے ہفتے میں حج ہے، اس لئے طالبان رہنمائوں کو سعودی عرب کے ویزے جاری کئے جا سکتے ہیں۔ ذرائع کے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان، کابل سرکار اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے سعودی عرب اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ سعودی شاہی خاندان کے ارکان اور سعودی علماء کرام مسلسل طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغان طالبان اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کر روکا جا سکے، جو مستقبل میں سعودی عرب کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ جبکہ القاعدہ بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔اس لئے سعودی عرب کی کوشش ہے کہ افغانستان کا مسئلہ جلد حل کیا جائے۔

No comments.

Leave a Reply