نواز شریف اور مریم کی جمعہ کے روز واپسی کا اعلان، کیپٹن صفدر کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا

نواز شریف اور مریم کی جمعہ کے روز  واپسی کا اعلان

نواز شریف اور مریم کی جمعہ کے روز واپسی کا اعلان

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

احتساب عدالت سے ملنے والی سزائوں کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے جلاوطنی اور سیاسی پناہ کے آپشن اختیار کرنے کی بجائے جمعہ کے روز وطن واپسی کا اعلان کیا ہے۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے مشکل حالات میں وطن واپسی اور قید کی سزا بھگتنے کا ایک بڑا فیصلہ کیا ہے  جو خود ان کی جماعت کیلئے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کہ ان کی جماعت اپنے لیڈر سے یکجہتی کے اظہار کیلئے کیا کرتی ہے۔ کتنی تنظیمی اور سیاسی قوت کو بروئے کار لاتی ہے  تو دوسری جانب نواز شریف، مریم نواز کی موجودہ صورتحال میں وطن واپسی کا اعلان خود حکومت کیلئے بھی بڑا امتحان ہو گا کہ وہ ان کی آمد پر صورتحال کو پرامن رکھنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے کیونکہ بظاہر آنے والے انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے اب کوئی مشکل اور چیلنج نظر نہیں آ رہا  البتہ کوئی بڑا واقعہ نہ چاہنے کے باوجود انتخابی عمل کے بروقت انعقاد پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

لہذا اب دیکھنا یہ پڑے گا کہ احتساب عدالت سے ہونے والی سزائوں کے عمل کے لیے نواز شریف، ان کی بیٹی نے وطن واپسی کا فیصلہ کیونکر کیا،  ان کی وطن واپسی اور جیلوں میں جانے کے عمل کے اثرات ملکی سیاست اور انتخابات پر کیا ہوں گے اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ صورتحال سے کس طرح نمٹ پائے گی۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ احتساب عدالت سے سزائوں کے عمل کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کے پاس آپشنز کیا تھے۔ سزائوں کا عمل ان پر کس حد تک اثر انداز ہوا تو مذکورہ عدالتی سزا کے حوالے سے خود نواز شریف پہلے سے بھی عوامی سطح پر اپنا سیاسی کیس پیش کرتے نظر آئے تھے اور متوقع بھی تھا جو عدالتی فیصلہ آیا مگر نواز شریف، ان کی بیٹی نے ان کے خلاف قانونی محاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی اور عوامی محاذ کو بھی بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا اگر عدالتی فیصلوں پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ 28 جولائی کو ہی نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے فیصلے کو کرپشن سے جوڑنے کے بجائے اقاما کے ساتھ جوڑ کر کوئی مضبوط فیصلہ نہیں کیا گیا  جس پر ان کے بڑے سیاسی دشمن بھی ان کے خلاف فیصلہ کو ایک کمزور فیصلہ قرار دیتے نظر آئے  اور اب ایک مرتبہ پھر ان کے خلاف احتساب عدالت سے آنے والے فیصلے نے کنفیوژن کو ختم کرنے اور انہیں کرپٹ ثابت کرنے کے بجائے ایک اور کنفیوژن یہ کہہ کر طاری کر دی کہ ان کے خلاف کرپشن کے چارجز نہیں البتہ ان کے اثاثے ان کے ذرائع آمدن سے زائد ہیں  جس پر خود نیب کو بھی پریشانی کا سامنا ہوا اور ان کو وضاحت کرنا پڑی کہ ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بھی کرپشن کی زد میں ہی آتے ہیں۔

بحر حال قانونی کارروائی سے بالاتر رہ کر اگر سیاسی محاذ پر فیصلہ کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو توقع یہ تھی کہ احتساب عدالت کے فیصلہ کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کو ملزم سے مجرم بنانے کا عمل ان کا سیاسی کیس متاثر کرے گا اور وہ دفاعی محاذ پر چلے جائیں گے۔ لیکن فیصلہ پر باپ، بیٹی کا ردعمل اور پسپائی کے بجائے جارحانہ طرز عمل یہ ظاہر کر رہا ہے  کہ وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں اور ان کی جانب سے قید کا آپشن قبول کرنے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اسی جدوجہد کے حوالے سے یکسو اور سنجیدہ ہیں اور یہ امر اور عمل خود ان کی جماعت اور عوامی سطح پر اسے کس حد تک پذیرائی ملے گی  تو یہ دیکھنا ہو گا کہ ان کی جماعت آج کی مشکل صورتحال اور کٹھن حالات میں انتخابات میں اتری ہے اور انہیں عوامی اور سیاسی سطح پر بھی مسائل کا سامنا ہے۔  دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ اپنے قائد نواز شریف سے کس حد تک یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی تاریخ اچھی نہیں رہی  اور خود نواز شریف بھی ماضی میں یہ گلہ کرتے دکھائی دیئے کہ جب میں نے مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف قدم اٹھایا  تو میں نے مڑ کر دیکھا تو نواز شریف قدم بڑھا ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگانے والے پیچھے نہیں تھے ۔

آج کی صورتحال کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ن کی جانب سے سویلین بالادستی کی جدوجہد میں نواز شریف سے یکجہتی کا اظہار اس حد تک تو نظر آ رہا ہے  کہ نواز شریف کے ووٹ بینک سے محفوظ ہو جائے اور انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جائے  لیکن آنے والے حالات میں کسی بڑی جدوجہد کا امکان نظر نہیں آ رہا اور اس کی بڑی وجہ خود مسلم لیگ ن کی تنظیمی کمزوری ہے  جسے خود جان بوجھ کر ماضی، صرف نظر برتا جاتا رہا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی پاکستان آمد اور ان کی جیل یاترا کے موقع پر کوئی بڑا شو ممکن بنا لیا جائے اس کیلئے انتخابی امیدواروں کو بھی بروئے کار لانا پڑے گا۔  جس کیلئے کاوشیں شروع ہو چکی ہیں البتہ خود مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت شہباز شریف اور دیگر کو پہلے یکسوئی اختیار کرنا پڑے گی۔  کیونکہ حالات و واقعات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ابھی خود جماعت کے اندر کنفیوژن ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں  کہ بروقت انتخابات کے انعقاد کے نکتہ پر خود مسلم لیگ ن کے ذمہ داران اپنے لیڈر اور قائد کو ہونے والی سزا کے اور بھی کسی رد عمل کے اظہار سے روکتے نظر آئے۔  یہی وجہ تھی کہ کوئی بڑا ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا۔

لہذا ایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب اب خود نواز شریف کی آمد پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی امتحان ہے۔ نگران حکومت میں تو اتنی سکت نہیں کہ وہ ان کی آمد استقبال اور گرفتاریوں کے عمل کا بندوبست کر سکے۔ البتہ اس کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو ہی اس چیلنج اور امتحان سے نمٹنا پڑے گا اور یقیناً وہ یہ نہیں چاہے گی کہ مجرم نواز شریف ان کی بیٹی کا وطن واپسی پر اتنا بڑا استقبال ہو۔ لہذا کوشش یہی ہو گی کہ استقبال بڑا نہ ہو لوگ لاہور نہ پہنچ سکیں۔ لاہور کے اندر خوف و ہراس کی صورتحال طاری ہو جائے کہ عوام باہر نہ نکلیں۔ جمہوری و سیاسی عمل کے ذریعے بننے والی قوتوں کا زور اور طاقت کا خاتمہ تو اس صورت میں ممکن ہے ورنہ پیپلز پارٹی جیسی جماعت کو جرنیل بھی ختم نہ کر سکے جو کہ ان کی لیڈر شپ نے انہیں تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا کیا کہ ایک بڑی اور قومی جماعت اور سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہو گئی اور ان کا انحصار بھی آنے والے انتخابات پر ہے۔ مسلم لیگ ن کو سیاسی محاذ پر شکست تو دی جا سکتی ہے مگر قیادتوں کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے توڑ کر سیاسی میدان سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔  سوچنے کا مقام یہی ہے کہ عدالتی نااہل اور مجرم نواز شریف آج بھی قومی سیاست کا محور کیوں ہے۔ حکومت سے نکالنے والے اسے سیاست سے نہیں نکال سکتے۔

کیپٹن صفدر کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا

کیپٹن صفدر کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا

کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو احتساب عدالت میں پیش کر دیا گیا، عدالت نے انہیں اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے احکامات دے دیئے جس کے بعد کیپٹن صفدر کو جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس سے قبل نیب کی ٹیم نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش کر دیا، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو عدالت عقبی گیٹ سے لایا گیا۔ ایک بکتر بند گاڑی کو احتساب عدالت کے احاطے میں مین گیٹ سے لایا گیا، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو عدالت میں پیش کرنے کے بعد واپس لے جایا گیا۔کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر سیکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی، اسلام آباد پولیس، ایلیٹ فورس اور رینجرز اہلکار تعینات کیے گئے۔ علاوہ ازیں نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو پناہ دینے والوں کی نشاندہی کر لی ہے، مجرم شخص کو پناہ دینے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ نیب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ میں کیپٹن (ر) صفدر کے سینیٹر چوہدری تنویر، شکیل اعوان، ملک ابرار واضح نظر آ رہے ہیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکی موجودگی میں میڈیا کو عدالت میں نہیں جانے دیا گیا۔ واضح رہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں 1 سال قید بامشق کی سزا سنائی گئی ہے۔

No comments.

Leave a Reply