نواز شریف کا استقبال، پارٹی قیادت کو کارکنوں کی گرفتاری کا خدشہ

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف جمعے کے روز لاہور ایئر پورٹ پر آئیں گے

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف جمعے کے روز لاہور ایئر پورٹ پر آئیں گے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

مسلم لیگ ن کی قیادت کو خدشہ ہے کہ صوبائی نگراں حکومت قبل از وقت پارٹی کارکنوں کی گرفتاریاں کر کے نواز شریف اور مریم نواز کے مجوزہ شاندار استقبال کے پلان کو سبوتاژ کر  سکتی ہے۔نوا لیگ لاہور کے ذرائع کے مطابق اس خدشے کا اظہار یوتھ ونگ کے عہدیداروں کی جانب سے کیا جا رہا ہے،  جنہوں نے سابق وزیر اعظم کے استقبال میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ جبکہ ممکنہ کریک ڈائون سے متعلق خدشات پارٹی صدر شہباز شریف کی زیر قیادت ماڈل ٹائون میں ہونے والے اجلاس میں بھی زیر بحث رہے۔ بعض لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صوبائی نگراں حکومت نے کرائم برانچ کو متحرک مسلم لیگی عہدیداروں اور ورکروں کی فہرست تیار کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

پارٹی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ہی نواز شریف اور ان کی بیٹی کی فلائٹ اسلام آباد کے بجائے لاہور میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم ذرائع کے بقول اس سے قبل پاکستان میں موجود پارٹی قیادت نے لندن میں نواز شریف سے تفصیلی مشاورت کی۔ اور انہیں قائل کیا کہ کامیاب شو کے لیے لوہور میں لینڈنگ سب سے بہتر آپشن ہے۔  قبل ازیں باپ، بیٹی کی اسلام آباد ایئر پورٹ پر آمد کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم ان ہی صفحات پر یہ رپورٹ گزشتہ روز شائع ہو چکی ہے کہ بعض سینئر پارٹی کے رہنما سابق وزیر اعظم کے طیارے کی لاہور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے حق میں تھے۔ ان رہنمائوں کا موقف تھا کہ مسلم لیگ ن کے گڑھ میں کارکنوں کو جمع کرنا اسلام آباد کی نسبتاً زیادہ آسان ہو گا۔

ذرائع کے مطابق گرفتاریوں کے خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے اجلاس میں متبادل پلان سے متعلق مختلف آپشن پیش کئے گئے۔ تاہم حتمی  پلان بی کے لیے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں ایک لیگی عہدیدرا نے انکشاف کیا کہ اگرچہ اس سلسلے میں مشاورتن کا عمل جاری ہے، لیکن ایمرجنسی میں ایک متبادل پلان ترتیب دی جا چکا ہے۔ جس کے تحت قبل از وقت گرفتاریوں کی صورت میں پارٹی کے تاحیات قائد کی آمد اسلام آباد ایئر پورٹ پر بھی ہو سکتی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت نواز شریف نے براہ راست فلائٹ کے بجائے راستہ ابوظہبی، لاہور پہنچنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پلان بی پر اس وقت ہی مجبوراً عمل کیا جائے گا جب لاہور ایئر پورٹ پر کارکنوں کا پہنچنا تقریباً ناممکن بنا دیا جائے۔ فی الحال پارٹی صدر شہباز شریف نے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کے پارٹی عہدیداروں اور امیدواروں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اپنے علاقوں سے آنے والے چھوٹی بڑی ریلیوں کو لیڈ کریں گے۔ یوتھ ونگ کے کارکنوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ جمعرات ہی کو لاہور پہنچ جائیں، تاکہ اپنے متعلقہ شہروں میں ممکنہ کریک ڈائون اور رش سے بچ جائیں۔  پارٹی ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں استقبال کے لیے کارکنوں کا ٹارگٹ 10 سے 15 ہزار رکھا گیا تھا۔ تاہم لاہور ایئر پورٹ پر نواز شریف کے خیر مقدم کے لیے کم از کم 50  سے 60 ہزار کارکنوں کو جمع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

ذرائع کے بقول لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں کارکن نواز شریف کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پہنچ گئے تو یہ مخالف قوتوں پر نفسیاتی دبائو بڑھانے اور الیکشن جیتنے کے لیے گیم چینجر ہو سکتا ہے۔نواز شریف کے استقبال کی تیاریوں سے معلق اجلاس میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ نواز شریف اور مریم نواز جب ہزاروں کارکنوں کے درمیان قومی و بین الاقوامی ٹی وی چینلوں کے سامنے گرفتاری دیں گے تو یہ انتخابی مہم کا سب سے بڑا چکھا ہو گا۔ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت نے عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈرز کے ذریعے کارکنوں کو سخت ہدایت کی ہے کہ گرفتاریوں کی صورت میں تصادم سے ہر صورت اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ تصادم کا فائدہ مخالفین کو مل سکتا ہے۔ لندن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے لیے نیب حکام اور لیگی کارکنوں کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل براہ راست ٹی وی پر دیکھا اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔

No comments.

Leave a Reply