امریکہ کی ہٹ دھرمی اور سفارتی جگ ہنسائی

امریکی قرارداد کی حمایت میں صرف ایک ہی ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور وہ سلامتی کونسل میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا تھا

امریکی قرارداد کی حمایت میں صرف ایک ہی ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور وہ سلامتی کونسل میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا تھا

نیوز ٹائم

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی جو تاریخی سفارتی جگ ہنسائی ہوئی ہے وہ بھی اس کی ہٹ دھرمی کو ختم کرنے میں بے ثمر ہی رہی۔  دو اڑھائی ہفتے پہلے میں اس عمارت کے سامنے تصویریں اتروا رہا تھا اور اپنے بیٹے سے اس عمارت کے اندر کے ماحول کے بارے میں استفسار کر رہا تھا  کیونکہ وہ پچھلے ہی سال اگست میں 14ویں عالمی انسانی حقوق کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اس عمارت میں گیا تھا  اس لئے وہ میرے مقابلے میں اندر کے ماحول سے محدود سطح پر ہی سہی زیادہ واقف تھا میرا انداز یہاں ہونے والی ناانصافیوں اور بالخصوص کشمیر کے بارے میں پاکستان کی قراردادوں کو ویٹو کرنے اور انصاف کی دھجیاں اڑانے کے حوالے سے انداز تاریخی سچائیوں سے جڑا ہوا تھا۔  مگر میرے بیٹے Mustafa Khalid کو Johns Hopkins University سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد  تاریخی سچائیوں کو جذباتی انداز سے پیش کر کے اپنا نقصان کرانے کی بجائے دلیل و منطق میں جذبات کی بجائے حقیقت پسندانہ طرز عمل کو اس انداز سے پیش کرنے کی تعلیم اور تربیت مل چکی تھی  کہ آپ کے موقف کے کٹر مخالف غیر جانبدار ہو جائیں  اور آپ کے موقف پر غیر جانبداری ظاہر کرنے والے آپ کے مسئلہ کو پیش کرنے کے حوالے سے آپ کے حامی ہو جائیں۔

بات میں وزن بھی تھا اور میں ماضی میں اس وقت اس کا تجربہ کر چکا تھا  جب اسی اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل Boutros Boutros-Ghali سے لاہور کے گورنر ہائوس میں مرحوم گورنر Chaudhry Altaf Hussain نے میری اس سے ملاقات کا اہتمام کرایا تھا۔ میرے ساتھ دو بہت ہی سینئر اور محب وطن پاکستانی صحافی Majeed Nazami صاحب اور Zaid A. Sulehri تھے ان کی حب الوطنی سے بھرپور گفتگو کا جب Boutros Boutros-Ghali پر اثر نہ ہوا تو میں نے جونیئر ہونے کی حیثیت کو ایک طرف رکھ کر پہلے تو اپنے فل برائٹ سکالر کے طور پر تعارف کرایا اور پھر جو 100 ڈالر اقوام متحدہ کو 1998ء میں عطیہ بھیجا تھا اس رقم کا ذکر کئے بغیر بتایا کہ میں آپ کے ادارہ کو عطیہ دینے والوں میں شامل ہوں اور ساتھ ہی وہ چیک جو عطیہ وصول کرنے کی مہر کے ساتھ بطور رسید ہی سمجھ لیں واپس مجھے بھیجا گیا تھا۔  Boutros Boutros-Ghali کو پیش کر دیا اس نے چیک اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا میرا شکریہ ادا کیا اور اب اپنے دائیں کان پر دایاں ہاتھ رکھ کر یہ ابلاغ کرایا  کہ وہ بات کو بڑے غور سے سن رہا ہے چند منٹ پہلے کی گفتگو کو جذباتی انداز کی گفتگو سمجھ کر نظر انداز کرنے والا اس بات پر لاجواب تھا  کہ کشمیر کے متعلق منظور کی گئی قراردادیں عملدرآمد کی توثیق چاہتی ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نہرو کے اقوام متحدہ میں کشمیر میں استصواب کے وعدے ابھی تک اس عالمی ادارے کی توجہ حاصل نہیں کر سکے اور کشمیر کا مسئلہ نامکمل ایجنڈے میں سرفہرست ہے، جسے اقوام متحدہ اپنے ریکارڈ سے حذف نہیں کر سکی، نہ کر سکتی ہے۔  اس وقت روس، بھارت کی شکست کو ویٹو کر کے بے اثر کر دیتا تھا اور اب امریکہ نے دنیا کی واحد سپر پاور بننے کے بعد اپنی پالیسی بدل لی ہے۔

تازہ ترین صورتحال اس اعتبار سے بہت دلچسپ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی سفیر غزہ میں انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے درندوں کو انسانیت سکھانے کیلئے اور وہاں کی شورش اور بدامنی کے تدارک کیلئے کویت کے مقابلے میں اپنی قرارداد لے آئی۔ کویت نے غزہ کے نہتے شہریوں کی زندگی، مال، جان اور آبرو کی حفاظت کیلئے اقدامات کرنے کی قرارداد پیش کی تھی امریکہ کی پرکشش اور جوان سفیر Nikki Haleyنے کویت کی قرارداد کو مسترد کر کے امریکہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کیلئے بھرپور سفارتی تیاری کی تھی  وہ ایک ایک سفیر کے پاس جا کر اپنے لئے ووٹ مانگ رہی تھیں اپنے ازلی غلام اسرائیل کے سفیر کے ساتھ مغربی بے تکلفی اور مشرقی بے حیائی آج صرف ایک ووٹ حاصل کرنے کیلئے تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ کویت کی قرارداد مسترد کر کے امریکہ کی قرارداد پر ہی ووٹنگ کرائی جائے پہلی ناکامی تو امریکی سفیر Nikki Haleyکو اس وقت ہوئی  جب سلامتی کونسل کے صدر روس نے اس کی یہ درخواست مسترد کر دی، غیر رسمی گفتگو میں گرما گرم بحث بھی ہوئی اس نے حماس کے تحفظات کو نظر انداز نہ کرنے کی جو اپیل کی وہ بھی کارگر ثابت نہ ہوئی کویت کی قرارداد کے حق میں 10 ووٹ آئے اور قرارداد کی منظوری کو امریکہ کی سفیر نے اپنے ویٹو سے نامنظور کے پلڑے میں ہی رہنے دیا۔ اب سلامتی کونسل میں امریکی سفیر کی قرارداد کا مسودہ پیش کیا گیا۔ Nikki Haleyویٹو کر کے انسانیت کی بقا اور تحفظ کی جدوجہد میں اس عالمی ادارے کو اپنی ویٹو پاور سے بلڈوز کر چکی تھی  اور اسے شائد اس کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ ابھی امریکہ کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ میں سلامتی کونسل کے ارکان بدلہ لے سکتے ہیں۔  وہ اتنا تو جانتی تھی کہ ابھی کویت کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے اسی نشست میں امریکہ کی لائی ہوئی قرارداد کو سپورٹ نہیں کریں گے  البتہ رائے شماری میں حصہ نہ لینے والے ممالک کے مندوبین سے اسے مکمل حمایت کی توقع تھی اور یہ بھی توقع تھی کہ شائد کویت کی قرارداد کی حمایت کرنے والا ایک رکن ملک امریکہ کی ناراضگی کے خوف سے یا اس کی سفارتی بھاگ دوڑ کی وجہ سے امریکی قرارداد کی حمایت کرنے یا مخالفت کرنے کی بجائے رائے شماری میں حصہ نہ لے کر  فی الحقیقت امریکہ کی حمایت ہی کرنے والوں میں ہو گا  لیکن جونہی Nikki Haley نے قرارداد پیش کر کے اس کے حق میں ہاتھ کھڑا کیا تو شدید دھچکا لگا جبکہ امریکی قرارداد کی حمایت میں صرف ایک ہی ہاتھ فضا میں بلند ہوا۔ اور وہ ہاتھ  Nikki Haleyکا ہی تھا۔

سلامتی کونسل کی تاریخ میں اس نوع کی رائے شماری کی آج تک ایک بھی مثال نہیں جس میں قرارداد کا محرک اپنے علاوہ ایک بھی ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ امریکہ کی اس تاریخی پسپائی جگ ہنسائی اور سفارتی ناکامی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ناانصافی کا ساتھ دینے  اور ہٹ دھرمی ترک نہ کرنے کی سزا امریکہ کو دے کر سلامتی کونسل کے وقار اور امریکہ کی بے وقاری میں اضافہ کیا ہے۔ فلسطینی مندوب نے تو اپنی تقریر میں واضح کر دیا کہ اقوام متحدہ کی تاریخ اور سلامتی کونسل کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک نے قرارداد پیش کی ہو اور اسے صرف ایک ووٹ ملے اور وہ بھی قرارداد پیش کرنیوالے ملک کا اپنا ہی ہو۔ اگر یہ ناکامی نہیں تو پھر مجھے بتائیں کہ ناکامی کیا ہوتی ہے۔ Nikki Haleyکی سفارتی زندگی میں اس طرح کی پسپائی اور بے عزتی کا مرحلہ بھی نہیں آیا تھا  یہ دن اس کیلئے منحوس ثابت ہوا اور کیوں نہ ہوتا نحوست کو تحفظ دینے اور اپنے تکبر سے اقوام عالم میں فیصلے کرانے کی کہیں نہ کہیں حد تو آنی تھی۔ وہ حد آ گئی امریکہ رسوا ہوا مگر ہٹ دھرمی نے اسے معذرت کرنے سے مسلسل روکے رکھا۔

No comments.

Leave a Reply