برطانیہ سے وی آئی پی مجرموں کی پاکستان واپسی

قومی احتساب آرڈیننس کی دفعات کے تحت میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو مجرم قرار دیا گیا ہے

قومی احتساب آرڈیننس کی دفعات کے تحت میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو مجرم قرار دیا گیا ہے

نیوز ٹائم

جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف نااہل قرار پائے تھے اب احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں مجھے کیوں نکالا؟ کا جواب دے دیا ہے۔  یہ 174 صفحات پر مشتمل فیصلہ ہے جو احتساب عدالت نے دیا ہے۔  قومی احتساب آرڈیننس کی دفعات کے تحت میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو مجرم قرار دیا گیا ہے،  ان وی آئی پی مجرموں کو جو سزائیں ہوئی ہیں ان کی تفصیل اب ہر کسی کو معلوم ہے،  اس کے علاوہ دیگر وی آئی پی مجرم حسن نواز، حسین نواز اور میاں صاحب کے سمدھی اسحاق ڈار اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں اور یہ ابھی تک لندن ہی میں قیام پزیر ہیں۔

جیسا کہ اب برطانیہ میں 31 جنوری 2018ء سے (بے شمار ویزن کے آرڈر) کے قانون کا اطلاق بھی شروع ہو چکا ہے  لہذا اب لندن کے وسطی علاقے پارک لین میں شریف خاندان کی ملکیت  Four luxury flats اور لندن کے دیگر علاقوں May Fair ، Chelsea اور Belgharia میں لگ بھگ 21 کے قریب جائدادیں جو تمام کی تمام ہائوس آف شریف ہی کی ہیں۔ ان پر برطانوی تحقیقاتی اداروں کی نظریں ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کا چولی دامن کا ساتھ ہے،  پاکستان میں کرپشن کو فروغ دینے میں تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،  جب بھی کرپشن کے بارے میں تذکرہ ہو گا تو فوراً میاں نوا زشریف، زرداری ایک نام کے طور پر سامنے آئیں گے۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ 3 مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے والا کڑے احتساب کے شکنجے میں ہے اور ساتھ ہی اس خاندان کے دیگر افراد بھی احتسابی عمل کا سامنا کر رہے ہیں۔  گو کہ اس وقت پاکستانی سیاست انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے اس کی وجہ کوئی اور نہیں اس کی اصل وجہ دراصل یہ ہے کہ اب پاکستان میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی صورت میں بدعنوانی اور قومی لوٹ مار کے کلچر کا ایک دور ختم ہونے جا رہا ہے  یہ سراسر غلط ہے کہ یہ ووٹ کو عزت دو یا جمہوریت کو بچانے کی جنگ ہے،  یہ ذاتی دولت جو مملکت سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اس کے تحفظ کی دونوں خاندان جنگ لڑ رہے ہیں  اور اپنے ساتھ معصوم سیاسی کارکنوں کو ملا کر پاکستان میں انارکی پھیلانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔  قوم کو واضح طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میاں نواز شریف کو مروجہ قانونی طریقے کے عین مطابق چلنے والے کرپشن کے مقدمے میں سزا ہوئی ہے،  کوئی جواز ہی نہیں کہ اس ضمن میں کوئی احتجاج کیا جائے۔

دوسری جانب عدالت کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو طلبی کے نوٹس جاری ہو چکے ہیں جو منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہیں، ان کے نام اب ای سی ایل میں دیگر 13 افراد کے ہمراہ ڈالے جا چکے ہیں۔ آصف علی زرداری کے زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ نے Summit Bank سے ڈیڑھ کروڑ روپے نکلوائے  اور پھر ساتھ ہی 35 ارب روپے بھی اسی بینک سے مختلف اوقات سے نکلوائے۔  یہ تو ایک عام سی کرپشن کی جھلک ہے جو اب دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ سامنے لائی جا رہی ہے۔  ماضی میں ان کی کرپشن کی تو کوئی حد ہی نہ تھی اور پھر تمام شواہد بھی غائب کروائے جاتے رہے،  یعنی دونوں خاندان جن کو اب میاں نواز شریف، زرداری کہا جائے تو غلط نہ ہو گا مل کر دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا،  ماضی میں لندن میں Rahman Malik کے فلیٹ پر میثاق جمہوریت کا معاہدہ طے پایا تھا۔  اس معاہدے میں یہ بھی طے کر دیا گیا تھا کہ پاکستان، امریکا کے زیر قبضہ افغانستان اور بھارت سے ہر قیمت پر خوشگوار تعلقات قائم رکھے گا  جبکہ اس سارے عمل سے اور ان کی طے شدہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا  اور اپنے 60 ہزار سے بھی زائد شہریوں کو شہید کروا لیا،  خطے میں آہستہ آہستہ بھارت کی بالادستی قائم ہوتی چلی گئی، نتیجہ سب کے سامنے ہے  کہ مملکت پاکستان میں صدارت کے عہدے پر آصف علی زرداری آ بیٹھے،  اس طرح دونوں خاندانوں کا مک مکا چلتا رہا۔  جمہوریت کے نام پر افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا رہا اور ساتھ ہی قومی خزانہ بھی لوٹا گیا اور ملک غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں پھنس گیا۔  Allah نے شریف خاندان کو موقع دیا کہ وہ ایک طویل عرصے تک اقتدار میں رہے  لیکن انہوں نے اپنے وطن کے ساتھ کیا کیا، اتنی کرپشن کی کہ جس کے ثبوت لانا بھی ایک مسئلہ بن گیا،  رنج تو اس بات کا ہے کہ اس خاندان کو اتنی عزت ملی مگر یہ اپنی عزت بچا نہ سکے۔ ایسے جاتی امرا اور لندن کی جائدادوں کا کیا کہ جہاں عزت نام کی کوئی چیز ہی نہ رہی سوائے دولت کی چمک کے۔  اب بد دیانت اور چوری کے ٹھپے اس خاندان پر لگ چکے، میاں شہباز شریف اور ان کے Crown حمزہ شہباز آئندہ الیکشن میں کوئی سیٹ جیت بھی جاتے ہیں  تو پھر وہ کس طرح امانت، دیانت اور شرافت کا ٹھپا لگوائیں گے۔

کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے برطانوی حکومت سے شریف خاندان کے اثاثوں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے اس مطالبے میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ یقینی بنائے کہ شریف خاندان لندن میں کرپشن سے بنائی گئی جائداد کو استعمال نہ کر سکے،  برطانوی حکومت کے لیے یہ ٹیسٹ کیس ہے کہ کرپشن کے پیسے کے خلاف کریک ڈائون میں کتنی سنجیدہ ہے  اور اب یہ بھی مطالبہ مقامی طور پر پاکستان کی کمیونٹی میں زور پکڑ رہا ہے کہ یہاں برطانیہ میں شریف خاندان کو اب محفوظ پناہ گاہ فراہم نہ کی جائے۔

دوسری جانب لندن کی مختلف یونیورسٹیوں کے علاوہ Oxford and Cambridge University میں زیر تعلیم پاکستانی طالبعلموں نے مشترکہ طور پر  ایک یادداشت برطانوی وزیر اعظم Theresa May اور برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کو پیش کی ہے  جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں میاں نواز شریف کے تمام اثاثے اور جائدادیں ضبط کر کے نیلام کر دیے جائیں اور پھر تمام پیسہ حکومت پاکستان کو دیا جائے۔ اس کے علاوہ اس یادداشت میں آصف علی زرداری کے اثاثوں اور جائدادوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور لندن میں ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کے اثاثوں اور جائدادوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے،  یہ پہلا موقع ہے کہ برطانیہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ نے مشترکہ طور پر پاکستان میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے آواز بلند کی ہے،  اس کے ساتھ ہی پاکستانی کمیونٹی کے مختلف گروپس لندن، Manchester ، Birmingham اور Brad Ford میں دستخطی مہم کا آغاز بھی کر چکے ہیں  جو برطانیہ میں شریف خاندان کے اثاثوں اور جائدادوں کو ضبط کرنے کے حوالے سے ہے،  اس دستخطی مہم میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس خاندان کے تمام اثاثے اور جائدادوں کے علاوہ ان کے تمام بینک اکائونٹس منجمد کر دیے جائیں  اور اس خاندان کی یہ دولت حکومت پاکستان کو واپس لوٹائی جائے کیونکہ احتساب عدالت کے فیصلے سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان کا قومی سرمایہ لوٹ کر برطانیہ لایا گیا تھا۔

احتساب عدالت کی سماعت کے دوران میاں نواز شریف اور مریم نواز سرکاری پروٹوکول میں آتے رہے،  حتی کہ جے آئی ٹی میں اپنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے جس طرح میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر، حسن نواز، حسین نواز اور اسحاق ڈار آئے  ان تمام مناظر کو قوم نے اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھا۔  عدالت کے باہر آ کر بیانات جس انداز میں دیے گئے اور جس طرح قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا یہ ساری قوم نے دیکھا بھی اور سنا بھی۔  تکبر اور غرور اِس پورے خاندان پر نمایاں تھا اور ساتھ سرکاری پروٹوکول اور پھر ہٹ دھرمی،  یہ سب کچھ ہائوس آف شریف کے زوال کا باعث بنا،  اگر اس خاندان کے دل میں رتی برابر بھی محبت اپنی سرزمین سے ہوتی تو اپنی دولت کا کچھ حصہ ضرور قومی خزانے میں جمع کروا دیتے  اور ڈیمز بنانے میں اپنا عملی کردار ادا کرتے ہوئے اپنی دولت ڈیمز فنڈ میں جمع کرا کر اس سرزمین سے اپنی محبت کا اظہار کرتے۔ یہ خاندان کم از کم غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی غرض سے اپنے اخراجات کم کرتا، مگر ایسا ہرگز نہ ہوا۔

اب ہائوس آف شریف کسی قانون نہیں قدرت کی پکڑ میں آ چکا ہے، برطانیہ سے واپس پاکستان لوٹ رہے ہیں،  مجرم کی حیثیت سے ان کی واپسی ہو رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا مجرموں کا بھی استقبال کیا جاتا ہے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، اور پھر خاص طور پر نوجوان سیاسی کارکنوں سے بھی سوال ہے  کہ کیا وہ میاں نواز شریف کا لاہور ائیر پورٹ پر استقبال کرتے وقت یہ پوچھیں گے کہ آخر آپ کے اپنے نوجوان بیٹے حسن اور حسین کیوں نہیں آ رہے؟۔

No comments.

Leave a Reply