ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین کی خاموش حمایت حاصل

ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین کی خاموش حمایت حاصل

ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین کی خاموش حمایت حاصل

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

غدار وطن الطاف حسین نے بظاہر الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے، تاہم اندر کی کہانی یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو لندن قیادت کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں لندن میں موجود  ذرائع نے بتایا کہ الطاف حسین کی یہ سپورٹ ایم کیو ایم پاکستان کی خواہش پر اسے نہیں مل رہی، بلکہ یہ پلان متحدہ سربراہی کی اپنی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ الطاف حسین نے گزشتہ ماہ الیکشن کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔  تاہم ذرائع کے  مطابق ایم کیو ایم لندن رواں برس فروری میں ہی الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر چکی تھی۔ کیونکہ الطاف حسین کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو بالواسطہ صلح کے جتنے بھی پیغام بھیجے جاتے رہے، وہ یکے بعد دیگرے یکسر مسترد کر دیئے گئے۔ بعد ازاں یہ یقین کر لینے کے بعد کہ ایم کیو ایم لندن کے لئے پاکستان میں سیاست کے دروازہ کھلنا فی الحال ممکن نہیں، الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔

ذرائع کے بقول تاہم اس فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ہونے والی مشاورت میں یہ ڈسکس کیا گیا  کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان کراچی اور حیدر آباد کے شہری علاقوں میں الیلکشن مکمل طور  پر ہار جاتی ہے  تو اس کے نتیجے میں ان علاقوں کی سیٹیں  پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی (ایم ایم اے)، تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی کے حصے میں چلی جائیں گی۔ لہذا یہ صورت حال کسی بھی طرح لندن قیادت  کے حق میں نہیں  ہو گی۔ ذرائع کے مطابق الطاف حسین کا خیال تھا کہ یہ سیٹیں ایم کیو ایم پاکستان کے پاس ہی رہتی ہیں تو حالات موافق ہونے پر وہ آسانی سے ان نشستون کو ٹیک اوور کر لیں گے۔ اور پھر یہ کہ اس صورت میں ایم کی ایم پاکستان میں موجود الطاف حسین  کے وفادار اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہے۔ تاہم اگر یہ نشستیں پی ایس پی سمیت دیگر پارٹیوں کے پاس چلی جاتی ہیں تو انہیں واپس لینا کسی طور پر ممکن نہیں ہو گا۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان میں موجود الطاف حسین کے وفاداروں کی ایک بڑی تعداد کا بھی یہی فیڈ بیک تھا کہ نشستیں پتنگ کے نشان والوں کے پاس رہنے میں ہی لندن گروپ کی بھلائی ہے۔

ذرائع کے بقول الطاف حسین کو اب یہ خوش فہمی ہے کہ مستقبل یا مستقبل قریب میں وہ ایک بار پھر معافی تلافی کر کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یوں پارلیمنٹ کے امیدوار ماضی کی طرح بھاری مارجن سے جیت جائیں،  کیونکہ اس طرح یہ ثابت ہو جائے گا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں الطاف حسین کا مینڈیٹ ختم ہو چکا اور یہ کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے قائد کے بغیر بھی بڑی تعداد میں مہاجر ووٹ حاصل کر لئے۔ ذرائع کے مطابق ان تمام نکات پر مشاورت اور غور و خوض کے بعد الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان اور ساتھ ہی ایم کیو ایم پاکستان کے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ  نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا، تاکہ دونوں مقاصد بیک وقت حاصل کئے جا سکیں۔

قبل ازیں لندن قیادت کا خیال تھا کہ الیکشن بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدواروں کے لئے ان متعلقہ حلقوں میں انتخابی مہم چلانا ناممکن بنا دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق الطاف حسین کا اندازہ ہے کہ الیکشن بائیکاٹ کے نتیجے میں ایم کیو ایم پاکستان کے زیادہ تر امیدوار ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم مارجن سے کامیاب ہو سکیں گے۔ یوں مخالف قوتوں کو جہاں ہ پیغام پہنچایا جا سکے گا کہ مہاجروں کی اکثریت اب بھی الطاف حسین کے ساتھ ہے، وہیں کراچی کے شہری مینڈیٹ کو ”آئوٹ سائیڈر” پارٹیوں کے ہاتھ میں جانے سے روکا جا سکے گا۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی موت کے کچھ عرصے بعد ایم کیو ایم نے لندن میں ایک تعزیتی ریفرنس بلایا تھا۔ جس میں لندن قیادت نے اپنے بعض وفادار صحافیوں اور سیکولر خیالات کے حامی لوگوں کو مدعو کیا۔ ان ہی شرکا سے ایک نے تصدیق کی کہ الطاف حسین نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ رواں برس کے اوائل میں ہی کر لیا تھا اور یہ کہ ساتھ ہی ایم کیو ایم پاکستان کی مکمل شکست بھی نہیں چاہتے۔ اسی لئے ایم کیو ایم پاکستان کی الیکشن مہم سبوتاژ کرنے کا پلان منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول اس کی اس موضوع پر الطاف حسین سے ڈسکس بھی ہوئی تھی۔ متحدہ سربراہ کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی جیت سے مہاجر ووٹ برقرار رہے گا اور اس صورت میں ان کے بیشتر وفادار امیدوار دوبارہ پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے۔ اور درپردہ الطاف کے مفادات کا خیال رکھ سکیں گے اور اگر مستقبل میں حکومت سے کوئی بات چیت شروع ہوتی ہے تو یہ ارکان اسمبلی لندن قیادت کے لئے سہولت کار کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔

ذریعے کے بقول لندن ہو یا کراچی منقسم ایم کیو ایم کے بیشتر رہنما بالواسطہ یا بلاواسطہ اب بھی الطاف حسین سے رابطے میں ہیں۔ اگرچہ محمد انور کو ایم کیو ایم الطاف کافی عرصہ پہلے سائیڈ لائن کرم چکی ہے، لیکن اس کے باوجود تعزیتی ریفرنس میں محمد انور بھی موجود تھے۔ اسی طرح ایم کیو ایم پاکستان کے 40 فیصد سے زائد رہنمائوں نے تاحال لندن قیادت سے رابطے منقطح نہیں کئے ہیں۔ ذریعے کے بقول دلچسپ امری یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کو ایم کیو ایم پاکستان نے الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ کرچی سے قومی اسمبلی کے ان امیدواروں میں علی رضا عابدی، خالد مقبول صدیقی، خواجہ سہیل منصور، اقبال محمد علی، کشور زہرہ، شیخ صلاح الدین اور وسیم اختر،  جبکہ حیدرآباد سے قومی اسسمبلی کی دو نشستوں پر ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ حاصل کرنے والے صلاح الدین اور صابر قائم خانی بھی اب تک الطاف حسین کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ذریعے کے مطابق اس طرح کنور نوید جمیل اور راشد خلیجی سمیت صوبائی اسمبلی کے بیشتر ٹکٹ ہولڈرز کی ہمدردیاں تاحال الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔

No comments.

Leave a Reply