کیا بھٹو کی پیپلز پارٹی ختم ہو چکی؟

 کیا بھٹو کی پیپلز پارٹی ختم ہو چکی؟

کیا بھٹو کی پیپلز پارٹی ختم ہو چکی؟

نیوز ٹائم

کوئی وقت تھا کہ پاکستان میں بھٹو کے نام تھا، سابق صدر و وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بے شک تاریخ میں ایک متنازعہ شخصیت ہوں گے،  لیکن ہم ان کی کچھ باتوں کو چاہ کر بھی بھلا نہیں سکتے،  بھٹو صاحب انتہائی ذہین آدمی تھے، بلا تھکان وہ پورا پورا دن کام بھی کر سکتے تھے،  اپنے وقت میں انہوں نے سیاست کو نہ صرف جدت دی بلکہ ڈرائنگ سے اٹھا کر وہ اس کو عام آدمی کے پاس لے گئے،  بھٹو صاحب کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ وہ الیکشن میں کھمبے کو کھڑا کرتے تھے تو وہ جیت جاتا تھا،  کہتے ہیں تب ان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی تاہم بعد میں بھٹو صاحب کے ان کے ساتھ  تعلقات اچھے نہیں رہے،   دونوں کے مابین طاقت کا بنیادی مرکز طول پکڑ گیا اور پھر اس کے بعد کی تاریخ ہم آج بھی کھوج رہے ہیں۔

بھٹو صاحب ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے، پاکستان کی سیاست میں اس وقت جب میڈیا ایک حد تھا،  اخبار نویس کی ویلیو تھی اور لوگ ریڈیو، اخبار سے ہی معلومات حاصل کر سکتے تھے،  اس وقت بھٹو صاحب نے اپنی مقبولیت کے ساتھ ہائوس فل قسم کے پاور شوز کئے،  تاہم آج دیکھیں تو لگ بھگ 45 سال کے بعد بھٹو کا طلسم ٹوٹ رہا ہے،  یہ ہرگز کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک انسان کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی کو ٹھیک ٹھاک مقبولیت حاصل ہو اور وہ 2 مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہو جائے،  اگر ہم  بغور دیکھیں تو سندھ میں بھٹو کا کرشمہ اب بھی کسی حد تک قائم ہے لیکن باقی پاکستان میں بھٹو صاحب کا طلسم اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

پیپلز پارٹی والے خود یہ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب کے آنے کے بعد پیپلز پارٹی میں وہ دم خم ہی نہیں رہا،  سرویز بھی پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان سے پیپلز پارٹی کا الوداع سنا رہے ہیں اور شائد اس الیکشن میں سندھ سے بھی پیپلز پارٹی کو دھچکا لگ جائے۔  اس کی امید اگرچہ بہت کم ہے کہ Surveys کے مطابق پیپلز پارٹی ابھی بھی سندھ میں مقبول ہے  لیکن اگر اپوزیشن موثر انداز میں اپنا پیغام ہر ووٹر تک پہنچا دیتی ہے تو پھر پیپلز پارٹی کا اختتام سامنے کی بات ہے۔  کیوں؟ کیونکہ ووٹر بہت جذباتی ہے اور وہ صرف سامنے کی چیز ہی دیکھتا ہے۔ اگر یہی ووٹر گہرائی میں جا کر سوچتا تو پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔

دوسری سب سے بڑی بات کہ پیپلز پارٹی کے پاس اب نظریاتی کارکن بہت کم رہ گیا ہے  اور ان کی اکثریت پی پی پی سے دلبرداشتہ ہو کر تحریک انصاف کی جانب کوچ کر چکی ہے،  جبکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس اب کوئی بھی کرشماتی شخصیت کا حامل فرد نہیں، جس پر انویسٹمنٹ کر کے اس کو لیڈر بنایا جا سکے۔  بلاول اگرچہ نوجوان ہیں لیکن ان میں ریئل کرائوڈ پلر والی بات نہیں اور چونکہ بلاول بھٹو زرداری کی سیاست اپنے والد کے زیر اثر ہے  لہذا اس کی اپنی شخصیت یہیں کہیں دب جاتی ہے۔  دوسری جانب پیپلز پارٹی کا مقابلہ اب MQM سے نہیں، Jamaat-e-Islami or Muttahida Majlis–e–Amal سے نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔

عمران خان آج اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں، انہوں نے بھی پاکستان کی سیاست میں کئی ٹرینڈز متعارف کروائے ہیں،  وہ عوام جو 2 جماعتی نظام سے تنگ آ چکی تھیں، عمران خان ان کی آواز بن کر سامنے آئے ہیں اور انہوں نے عوام کے سامنے تیسرا آپشن رکھا ہے۔ تحریک انصاف نے ہی سوشل میڈیا کا موثر استعمال کر کے باقی سب پارٹیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے باقاعدہ پروفیشنل میڈیا سیلز بنائیں،  اس کے علاوہ ووٹر کا جوش اس حد تک عروج پر پہنچا دیا ہے کہ مخالفین کیلئے ان کے دلوں میں نفرت ہے  اور وہ ہر قیمت پر خان صاحب کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔  لیکن انہوں نے اپنے اصطبل میں بہت سارے الیکٹ ایبلز بھی اکٹھے کر لئے ہیں، شائد ہمارا سسٹم ہی ایسا ہے کہ الیکٹ ایبلز کے بغیر الیکشن جیتنا ناممکن ہے۔

خاں صاحب کا خیال ہے کہ وہ جب اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے کرسی اقتدار پر بیٹھ جائیں گے تو وہ الیکٹ ایبلز کو خود ہی سیدھا کر لیں گے،  کیا وہ ایسا کر سکیں گے؟، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب خاں صاحب مستند اقتدار پر فائز ہونے کے بعد ہی دے سکتے ہیں،  لیکن اگر ہم خیبر پختونخوا کی جانب دیکھیں تو بے شک وہاں کے سرویز میں پاکستان تحریک انصاف ایک مقبول جماعت ہے لیکن اس کی کارکردگی پر بہت سارے سرخ دائرے موجود  ہیں، خان صاحب میں بھٹو جیسا کرشمہ نہیں ہے  لیکن یہ سچ ہے کہ وہ ایک کرائوڈ پلر ہیں اور 2 جماعتی سسٹم میں تیسرا آپشن بن کر سامنے آئے ہیں،  عین ممکن ہے کہ وہ اس مرتبہ اتحادی حکومت بھی بنا لیں لیکن وہ حکومت کتنی دیر چلے گی، یہ خود عمران خان پر منحصر ہے۔

No comments.

Leave a Reply