پہلے سرد جنگ اور اب تجارتی جنگ

واشنگٹن اور بیجنگ کے ایک دوسرے کے خلاف مجموعی طور پر 68 ڈالرز کے مالیت اضافی ٹیکس سے تجارتی جنگ شروع کی ہے جو عالمی معیشت کو ایک نئے بحران سے دوچار کر سکتی ہے

واشنگٹن اور بیجنگ کے ایک دوسرے کے خلاف مجموعی طور پر 68 ڈالرز کے مالیت اضافی ٹیکس سے تجارتی جنگ شروع کی ہے جو عالمی معیشت کو ایک نئے بحران سے دوچار کر سکتی ہے

نیوز ٹائم

جنگ کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن ایک بات آتی ہے۔  ہر طرف تباہی کے مناظر، زخمیوں کی چیخ و پکار، ہر طرف عمارتوں کا ملبہ جنگی جہاز، ٹینکوں، ہسپتالوں میں بھاگتے دوڑتے لوگ آتے ہیں۔ اب جنگ سرحدوں کی تحفظ کے لیے نہیں بلکہ معیشت کو تحفظ کو دینے کیے لڑی جائے گی اور اس جنگ میں جنگی جہاز، ٹینکوں، بھاری بھرکم بموں کے بجائے مختلف مصنوعات  اور آزادنہ تجارت کے لیے لڑی جائے گی اور ہر ملک اپنی معیشت بچانے کی کوشش کرے گا۔ جن ممالک کی معیشت مضبوط ہے وہ اس جنگ میں شائد بچ جائیں لیکن کمزور معیشت والے ممالک کے لیے یہ جنگ بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو گی۔

جدید دور میں سرحدوں کے ساتھ ساتھ معیشت کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے۔ سرحدوں کو صرف بیرونی جارحیت کا خطرہ ہوتا اور معیشت کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنا ہوتا ہے۔ اب سے کچھ عرصے پہلے جب روس نے یوکرائن میں مداخلت کی تھی اس کے بعد امریکہ اور یورپ نے روس پر سخت پابندیاں عائد کیں تھی جس کا مقصد روس کی معیشت کو کمزور کرنا تھا۔ امریکہ اور یورپ چاہتے تو روس کے ساتھ جنگ بھی کر سکتے تھے لیکن جنگ میں نقصان صرف روس کا نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کا بھی ہوتا مگر ان کا مقصد صرف اور صرف روسی معیشت کو کمزور کرنا تھا تاکہ روس کو یوکرائن سے نکالا جا سکے۔ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے الیکشن مہم میں امریکی معیشت کو بہتر کرنے کا کہا تھا اور الیکشن جیتنے کے بعد امریکی معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات شروع کیے۔ ان اقدامات میں چینی مصنوعات کی دارآمد پر 34 ارب ڈالرز کی اضافی دیوٹی عائد کی  چین بھی خاموش بیٹھنے والا نہیں تھا لہذا اس نے جوابی اقدامات کرتے ہوئے امریکہ سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 25 فیصد اضافی ٹیکس عائد کر دیا۔

دوسری جانب روس نے بھی امریکی درآمدات پر 25 سے 40 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔ ان مصنوعات میں گیس کے آلات، پتھروں کی ڈرلنگ کے آلات، فائبر آپٹک اور دیگر مصنوعات شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق واشنگٹن اور بیجنگ کے ایک دوسرے کے خلاف مجموعی طور پر 68 ڈالرز کے مالیت کے ان اقدامات سے ایک ایسی بڑی تجارتی جنگ شروع کی ہے جو عالمی معیشت کو ایک نئے بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بحران شدت اختیار کر جائے مضبوط معیشت والے ممالک اس بحران کے خاتے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مختلف خبر رساں اداروں کی رپوٹس کے مطابق بیجنگ نے کہا ہے کہ اس تجارتی جنگ کا آغاز واشنگٹن نے کیا تھا،  بیجنگ کو جوابی حملے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے۔  دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے مابین باہمی تجارت کا موجودہ توازن واضح طور پر چین کے حق میں ہے۔ دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں کہ جن کا کرنٹ اکائونٹ سر پلس میں ان میں ایک ملک چین ہے۔ 2017 ء میں چین اور امریکہ کے مابین مصنوعات کی جتنی بھی تجارت ہوئی تھی  اس میں امریکہ کو 375 ارب ڈالر کا نقصان ہو اتھا۔  دو بڑی معیشتوں کے درمیان یہ تجارتی جنگ اپنے ساتھ کتنے چھوٹے ممالک کی معیشت کو تباہ کرے گی  اس بات کا اندازہ ابھی دنیا کو بالکل بھی نہیں اور ایسا نہ ہو کہ یہ تجارتی جنگ مستقبل میں دنیا کے خاتمے کا سبب نہ بن جائے۔

No comments.

Leave a Reply