نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس

نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس

نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس

اسلام آباد  ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف، مریم اور محمد صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا  جبکہ سابق وزیر اعظم کی دیگر دو ریفرنسز کی دوسری عدالت منتقلی کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس دوسری عدالت کو منتقل کرنے کی درخواست پر  اور نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی جانب سے احتساب عدالت کی سزائوں کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔  جبکہ درخواست گزاروں کی جانب سے سزائیں معطل کرنے سے متعلق درخواست مسترد کرتے ہوئے  عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو جولائی کے آخری ہفتے میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ہے۔

گزشتہ روز عدالت کے دو رکنی بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پانے والے مجرموں کی درخواستوں پر سماعت کی۔ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی منتقلی سے متعلق درخواست پر خواجہ حارث نے دلائل دئیے  کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنانے کے بعد ٹرائل کورٹ کے جج نے اپنا مائنڈ ڈسکلوز کر دیا ہے، تینوں ریفرنس میں دفاع مشترکہ ہے اس لئے جج محمد بشیر دیگر دو ریفرنسز پر سماعت آگے نہیں بڑھا سکتے،  خواجہ حارث نے بتایا کہ جج محمد بشیر نے دو ریفرنسز سے متعلق ہائیکورٹ کو خط بھی لکھا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ خط کا معاملہ انتظامی ہے اسے معزز چیف جسٹس دیکھیں گے، ہم نے اس پر فیصلہ کرنا ہے جو درخواست ہمارے سامنے ہے، عدالت نے درخواست کا فیصلہ آنے تک العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے نیب کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔

عدالت نے دونوں ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔ سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے فلیٹس کی اصل قیمت جانے بغیر سزا سنا دی، عدالت میں پیش کی گئی ٹائٹل رجسٹری پر بھی فلیٹس کی قیمت خرید درج نہیں، ظاہر آمدن اور اثاثوں سے متعلق جو چارٹ پیش کیا گیا  اس سے متعلق تفتیشی افسر کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کن دستاویزات کی بنیاد پر اور کس نے تیار کیا ہے، واجد ضیا نے تسلیم کیا کہ نواز شریف کی طرف سے بچوں کو رقم کی فراہمی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے، عدالت نے 342 کے بیان میں صرف بے نامی داروں سے متعلق پوچھا لیکن بچوں کی کفالت سے متعلق سوال ہی نہیں کیا، عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ عام طور پر بچے والدین کے زیر کفالت ہوتے ہیں اور اس بات پر سزا سنا دی گئی، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ نوازشریف کی قومی اسمبلی میں تقریر حسین نواز کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات پر مبنی تھی، مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ بی وی آئی حکام نے جے آئی ٹی کے ایم ایل کا جواب ہی نہیں دیا، جن خطوط پر انحصار کیا گیا وہ 2012ء کے ہیں، محض کیلبری فونٹ کو بنیاد بنا کر ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی قرار دے دیا گیا حالانکہ جے آئی ٹی کی طرف سے ہائر کیے گئے کوئسٹ سالسٹر کی ای میل کے جواب میں جیرمی فری مین نے تصدیق کی کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر 4 فروری 2006ء  کو ان کے دفتر میں دستخط کیے گئے،  امجد پرویز نے کہا کہ 174 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کیپٹن (ر) صفدر سے متعلق ایک ہی جملہ ہے جس میں سزا لکھی گئی ہے،  عدالت نے ٹرائل کورٹ سے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے عملے کو ہدایت کی کہ 100,100 صفحات پر مشتمل والیم بنوا لیں تاکہ لانے اور لے جانے میں آسانی رہے،  عدالت نے نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی تمام اپیلوں پر سماعت جولائی کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔

نیشن رپورٹ کے مطابق عدالت نے تینوں مجرموں کی سزا پر عملدرآمد روکنے کیلئے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی ہیں۔  علاہ ازیں احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت  نواز شریف کے وکیل کی عدم حاضری کے باعث آج تک ملتوی کر دی گئی ہے  جبکہ احتساب عدالت نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں صحافی پاس حاصل کرنے کے بعد العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل کی کوریج کر سکتے ہیں، دوران سماعت فاضل جج نے نواز شریف کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ رجسٹرار ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا ہے کہ چاہیں تو مقدمہ کسی دوسری عدالت منتقل کر دیں، آپ کی دونوں درخواستیں ہائیکورٹ بھیج دی تھیں، شریف فیملی کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے کیا حکم ہوتا ہے اس کا انتظار کر لیتے ہیں۔

منگل کو احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث جگہ معاون وکیل سعد ہاشمی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ خواجہ حارث کب آئیں گے؟ جس پر سعد ہاشمی نے بتایا کہ عدالت میں پیشی کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے،  اس موقع پر جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سنا ہے وزارت قانون نے بھی جیل ٹرائل کا کہا ہے جس پر وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ ہمیں اس نوٹیفکیشن کا نوٹس نہیں ملا ہمیں بھی کاپی دی جائے۔

No comments.

Leave a Reply