ڈالر کی اڑان، بدامنی کا ایجنڈا

ڈالر مارکیٹ میں 129 روپے میں فروخت ہو رہا ہے

ڈالر مارکیٹ میں 129 روپے میں فروخت ہو رہا ہے

نیوز ٹائم

ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، ڈالر مارکیٹ میں 129 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ کو Shaukat Aziz ایک خاص ایجنڈے کے تحت باہر سے گورنر سٹیٹ بینک بنانے کے لئے لائے  وہ ان سے وہ کام لینا چاہتے تھے جس کے لئے انہیں پاکستان بھجوایا گیا تھا ابھی وہ ایجنڈا مکمل نہیں ہوا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے ڈالر کو 52 روپے سے زیادہ بڑھنے سے روک دیا تھا جبکہ Shaukat Aziz اسے 90 روپے تک لے جانا چاہتے تھے ساری دنیا میں سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ ریاست کی کرنسی کا دفاع کرنے کے لئے بھرپور اقدام کرتی ہے۔

ساری دنیا میں جب کہیں زرمبادلہ کی کمی شروع ہوتی ہے تو فوری طور پر اسے پورا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پرائیویٹ جیٹ طیاروں پر دبئی سے ڈالر لا کر مارکیٹ میں پھیلائے جاتے تھے اور یوں روپے کی قدر مستحکم رہی۔ میاں نواز شریف اور اب نگران حکومت کے دور میں ایئر پورٹ اور سمندری راستوں پر شدید سختی کر دی گئی ہے کہ پاکستان کے اندر ڈالر لانا محال ہے  جبکہ اس سارے عرصہ کے دوران ملک سے باہر ڈالر لے جانے پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ Ayyan Ali سے لے کر شریف خاندان جیٹ طیاروں میں ڈالر بھجواتا رہا ہے۔ جس کا ثبوت بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں۔

موجودہ گورنر سٹیٹ بینک اپنے سابقہ دوست کو نیشنل بینک کا صدر بنانے کے لئے بھی کوشاں ہیں جس کے لئے وہ تمام کاغذی کاروائی وزارت خزانہ میں مکمل کروا چکے ہیں یہ سب کچھ ایک خاص ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے جبکہ ملک میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ملی بھگت سے لگائے جانے والے وزیر اعظم کو سرکاری پروٹوکول کے مزے لوٹنے، عزیزوں اور رشتے داروں کو دعوتوں پر بلانے سے ہی فرصت نہیں۔  اس لئے کہ ان کے پاس بھی بیرون ملک اور اندرون ملک جائیدادوں کے علاوہ خطیر رقم ہے اگر روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر مہنگا ہو گا تو انھیں بھی ذاتی طور پر فائدہ ہو گا۔  مگر اس حوالے سے ساری قوم جو سزا بھگتے گی وہ ہفتوں اور مہینوں کی نہیں برسوں کی بات ہو گی۔

قوم پر ایک دن میں بیرونی قرضہ 800 ارب بڑھ گیا اور سٹاک ایکسچینج میں 600 پوائنٹ کی کمی ہو گئی وزیر خزانہ کی ہدایت پر ڈالر کا بینک ریٹ 128 روپے سے اوپر کر دیا گیا ہے پاکستان کے روپے کی قدر میں کمی کا ایجنڈا Dr. Ishrat Hussain کے دور سے ہی شروع کر دیا گیا تھا  جب 5 ہزار روپے کا کرنسی نوٹ جاری کیا گیا۔ انہوں نے مجھے خود بتایا تھا کہ آج جو چیز 1000 روپے میں مل رہی ہے وہ 2018ء میں 5000 روپے کی ملا کرے گی۔ جب ان سے سوال کیا گیاکہ یہ کیوں؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم پر غیر ملکی دبائو ہے آمدن نہیں ہو رہی  قرضے زیادہ لے لئے گئے ہیں اور لئے گئے قرضے کسی ترقیاتی کام پر لگانے کی بجائے ووٹرز کو متوجہ کرنے اور کمیشن بنانے پر لگا دیئے گئے۔

قومی ترجیحات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ میں بھی اس حوالے سے مجبور تھا کہ سمندر میں رہ کر بڑے مگرمچھوں سے دشمنی لینا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کی ڈالر کی قدر بڑھنے اور روپے کی قیمت میں فوری طور پر اتنی کمی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے جسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ نہ ہی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا عمران خان نے کوئی آواز اٹھائی اور نہ ہی مستقبل میں ایسی کسی آواز کے اٹھنے کی امید ہے۔ حالانکہ ساری دنیا میں حکومتیں اپنی کرنسی کا دفاع کرتی ہیں افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں جب امریکہ اور یورپ ان سے ناراض تھا تو وہاں 50 ہزار روپے کا نوٹ جاری کر دیا گیا اور اب افغانستان میں 1000 روپے کا نوٹ ہے جو پاکستان کے 2000 روپے کے برابر ہے۔

کیا افغانستان کی معیشت پاکستان سے بہتر ہوئی ہے وہاں کوئی صنعت ہے زراعت ہو رہی ہے یا پورے افغانستان پر افغان حکومت کی عملداری ہے  یہ سب چیزیں نہ ہونے کے باوجود اگر افغان کرنسی کو مضبوط اور مستحکم کیا گیا تو اس کی کوئی وجہ ہے پاکستان کی کرنسی کو گرایا جا رہا ہے اس کی بھی کوئی وجہ ہے اور وجہ یقیناً پاکستان کے حق میں نہیں۔ اس کا فائدہ بیرونی دنیا امریکہ، اسرائیل، بھارت، سرمایہ داروں اور سیاسی حکمرانوں کو ہی ہونا ہے جو اربوں ڈالر پاکستان سے باہر لے گئے ہیں۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی اس قیمت سے ملک میں جائیدادوں کی قیمتیں فوری طور پر بڑھ گئی ہیں کھاد کی قیمت میں یکدم 50 اور 100 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے اس سے کھانے پینے کی چیزیں مزید مہنگی ہوں گی پٹرول، گیس اور ڈیزل کی قیمتیں مزید بڑھائی جا رہی ہیں  یہ مہنگائی کا سیلاب دراصل اس طوفان کو لانے کی سازش ہے جس کے تحت لوگوں کو سڑکوں اور گلیوں میں احتجاج کے لئے نکالا جائے اور پھر پاکستان کو عراق، لیبیا جیسی صورتحال سے دوچار کیا جائے  مگر حیرت ہے کہ دانشوروں، کالم نگاروں اور محب وطن سیاستدانوں کو اس کی کانوں کان خبر نہیں۔ سب ریت میں منہ دبائے آرام کر رہے ہیں۔

کیا اس معاملے پر بھی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ہی نوٹس لیں گے اور ایک جی آئی ٹی بنائیں گے کہ وزارت خزانہ سے لے کر دیگر محکموں میں آنے والے افراد  بیرون ملک کن کن ممالک میں کس کس تنخواہ پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور ان میں سے کتنے لوگوں کی دوہری شہریت ہے۔

سابقہ گورنر سٹیٹ بینک Ashraf Mahmood Wathra نے شراب کے نشے میں دھت ہو کر پاکستان آنے کی بجائے ہسپتال جانے کو ترجیح دی  اور Ishaq Dar نے انھیں پارلیمنٹ میں شور پڑنے پر عہدے سے ہٹایا۔ ڈالر کی قیمت بڑھانے سے پہلے اپنا تمام سرمایہ ڈالروں میں تبدیل کروا کر Ishaq Dar نے دبئی، برطانیہ اور کئی ممالک میں جائیدادیں بنا لیں اور غیر ملکی کرنسی میں اپنے اور بچوں کے بینک اکائونٹ کھلوا کر اپنے سرمائے کو محفوظ بنا لیا یہ کام تو انڈیا میں انگریز نے کبھی نہیں کیا تھا کہ وہ انڈیا کا تمام اثاثہ اس طرح لوٹ کر لے جائے اگر وہ یہاں سے پیسہ لے جاتا تھا تو اس کے بدلے کچھ دیتا تھا برطانیہ سے لوہے کی بنی ریل کی پٹڑیاں لاتا انھیں بچھاتا اور اس کے بدلے خزانے سے پیسہ وصول کر کے برطانیہ بھجواتا  جس سے اس کی ملیں اور مزدور خوشحال ہوتے وہ مختار تھا کسی کو جواب دہ نہیں تھا مگر اس طرح کی ڈکیتی اس نے بھی نہیں کی۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے caretaker وفاقی حکمران وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اتنی سرعت سے ڈالر کو اوپر جانے سے نہیں روک رہی جو اس کی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے فوری طور پر دوسرے اداروں کو اقدام کی ضرورت ہے ورنہ ملک میں ہنگاموں اور بدامنی کے لئے گرائونڈ تیار کی جا رہی ہے۔

No comments.

Leave a Reply