دوہزار تیرہ میں منتخب ہونے والے ن لیگ کے 61 ایم این ایز پارٹی چھوڑ گئے

پاکستان مسلم لیگ کے 54 فیصد 115 میں سے 61 سابق ارکان قومی اسمبلی پارٹی چھوڑ گئے ہیں

پاکستان مسلم لیگ کے 54 فیصد 115 میں سے 61 سابق ارکان قومی اسمبلی پارٹی چھوڑ گئے ہیں

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

 دوہزار تیرہ کی قومی اسمبلی کے 43 فیصد سے زائد 272 میں سے 115 ارکان ایسے ہیں جنہوں نے یا تو اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کر لی ہے یا پھر وہ 2018ء کے الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزما رہے ہیں۔  پاکستان مسلم لیگ کے 54 فیصد 115 میں سے 61 سابق ارکان قومی اسمبلی یا تو پارٹی چھوڑ گئے ہیں یا پھر وہ آزاد امیدوار کے طور الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو الیکشن 2018 ء آپریشنز کو برا راست دیکھنے والے سرکاری اداروں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے 12 فیصد 115 میں سے 14 سابق ارکان قومی اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑ دی ہے، آزاد امیدوار کے طور الیکشن لڑ رہے ہیں یا پھر وہ الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہے  جہاں تک MQM کا تعلق ہے تو اس کے 10 فیصد 115 میں سے 12 ارکان  نے یا تو پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے یا پھر الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے،  تحریک انصاف کے صرف 5 فیصد  115 میں سے 6 ارکان نے پارٹی چھوڑی ہے۔  دیگر 22 ارکان کا تعلق مسلم لیگ ق، Jamaat-e-Islami ، نیشنل پیپلز پارٹی، Jamiat Ulama Islam (f) آل پاکستان مسلم لیگ، Pakhtunkhwa Milli Awami Party اور عوامی جمہوری اتحاد پاکستان سے ہے۔ 48 فیصد 115 میں سے 55) ایم این ایز کا تعلق پنجاب سے ہے، 25 فیصد 115 میں سے 28 کا تعلق سندھ سے ہے ۔

خیبر پختونخوا کے 11 فیصد 115 میں سے 13 ارکان اسمبلی نے یا تو اپنی پارٹی تبدیل کی یا پھر وہ الیکشن نہیں لڑ  رہے۔ بلوچستان کے 80 فیصد 15 میں سے 12 سابق ارکان قومی اسمبلی نے یا تو اپنی پارٹی چھوڑ دی ہے یا پھر وہ الیکشن نہیں لڑ رہے۔ فا ٹا کے 64 فیصد 11 میں سے 7  ارکان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی وابستگی کو بدل دیا ہے۔ قومی اسمبلی کا 59 سابق ارکان اسمبلی نے اب کی بار قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔  تاہم ان میں نصف درج کے لگ بھگ مختلف صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں ضرور حصہ لے رہے ہیں۔ 23سابق ارکان قومی اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹیوں کو خدا حافظ کہہ دیا ہے اور اب آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، پانچ سابق MNAs جن میں نواز شریف، کیپٹن صفدر، Danial Aziz ، Rana Zahid Hussain Rai Hassan Nawaz شامل ہیں، انہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا ہے اس لیے وہ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے، جبکہ ایم این اے Abdul Rahim Khan Mandokhel کا انتقال ہو گیا ہے، پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی کی اکثریت 55 میں سے 53 جو الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی یا پھر اس نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لی ہیں، ان کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جو اپنی قیادت کی عدالت کی طرف سے پانامہ کیس  مقدمے میں نااہلی کے بعد شدید دبائو میں ہے۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے ایک ایک سابق ایم پی اے نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں، 29سابق MNAs نے انتخابات سے دو ہفتے قبل پارٹیاں تبدیل کیں، مخصوص نشستوں پر 27 فیصد 115میں سے 31 سابق خاتون MNAs کو اپنی پارٹیوں نے منتخب نہیں کیا، پس جنرل مخصوص نشستوں پر 52 فیصد 60 میں سے 31 خواتین کو اس سال ٹکٹ نہیں دئیے گئے، مسلم لیگ کی 22 اور 2013ء  میں اقلیتی کوٹہ پر منتخب ہونے والی 10 میں سے 6 سابق خواتین MNAs کو بھی 2018ء میں مخصوص نشستوں پر نامزد ہی نہیں کیا گیا، اسی طرح مجموعی طور پر ایسے خواتین MNAs کی تعداد 342 میں سے 151 ہو گئی ہے جنہوں نے یا تو پارٹیاں تبدیل کیں، انتخابی دوڑ میں شامل نہیں ہیں، یا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہیں، پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے جے یو آئی کی 4 سابق منتخب خواتین MNAs نے سیاست ہی چھوڑ دی ہے، جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی Sher Akbar Khan نے بھی پارٹی چھوڑی اور اب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں، 15میں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صرف 3 سابق MNAs Map of Pakhtunkhwa Muhammad Achakzai ، مسلم لیگ ن کے Abdul Qader Boulouch اور جے یو آئی (ف) کے Amir Zaman نے پارٹی سے وفاداری برقرار رکھی،

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 6 سابق MNAs انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں اور باقی نے پی ٹی آئی اور بی اے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ Awami Democratic Alliance Pakistan کے رہنما Shahram Khan Tarakai نے عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے اپنی پارٹی تحریک انصاف میں ضم کی، Sardar Mohammad Yusuf بھی قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں اور ان کی جگہ ان کے بیٹے Shahjahan Yousuf نے Mansehra کی قومی اسمبلی نشست پر کاغذات جمع کرائے ہیں، سابق وفاقی وزیر Zahid Hamid کے سیاست کو خیرباد کہنے کے بعد ان کا بیٹا Ali Zahid سیالکوٹ سے انتخابات میں حصہ لے رہا ہے، Khushab سے Aziz Malikک بھی انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی والدہ Samira Malik انتخابات لڑ رہی ہیں۔  گوجرانوالہ سے Nisar Cheema بھی اپنے بھائی سابق ایم این اے Iftikhar Cheema کی جگہ میدان میں ہے، Aisha Gulalai نے تحریک انصاف کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی جماعت پی ٹی آئی Gulalai بنائی،  وہ بھی الیکشن لڑ رہی ہیں، Ghulam Murtaza Jatoi جنہوں نے اپنی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی کو کبھی مسلم لیگ میں ضم کیا تھا،  اب سندھ میں جی ڈی اے کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے، گزشتہ قومی اسمبلی میں اہم کردار ادا کرنے والی تقریباً ایک درجن MNAs حالیہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ہیں۔

ان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، Danial Aziz ، زاہد حامد، کیپٹن (ر) صفدر، Shamshad Sattar Bachani ، Ali Gohar، Tahir Bashir ، Ghulam Rabbani Khar ، Najaf Sayal ، Javed Hashmi ، Rai Hassan Nawaz ، Sardar Yusuf ، Aziz Malik ، Iftikhar Cheema اور دیگر شامل ہیں، Chaudhry Khadim رواں سال انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں جبکہ ان کی جگہ ان کا بیٹا Chaudhry Nadeem Khadim پی ایم ایل این کی ٹکٹ پر جہلم سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہا ہے 29 میں سے 16 MNAs جو اس سے قبل ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات جیت چکے تھے اب پنجاب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ Zafar Zulqarnain Sahi پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر رہے ہیں جبکہ ان کے والد Colonel (r) Ghulam Rasool Sahi اس دفعہ الیکشن نہیں لڑ رہے۔ Ali Gohar Baloch اس دفعہ اپنے والد Rajab Ali Baloch کی جگہ فیصل آباد سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔  Tahir Bashir Cheema انتخاب میں حصہ نہیں لے رہے جبکہ ان کی بیٹی Fatima Bashir بہاولپور سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ Muzaffargarh ، Pakpattan ، Chiniot اور Jhang سے تعلق رکھنے والے وہ تمام افراد جو قبل ازیں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے  انہوں نے اپنی وفاداری تبدیل کی ہے یا اس دفعہ انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے وہ ایم این اے جو Badin ، Thatta ، Ghotgi اور Naushero Feroz سے منتخب ہوئے، انہوں نے پارٹی وفاداری تبدیل کی، یا انتخاب نہیں لڑ رہے،  ن لیگ کے وہ  MNAs جو پہلے Nankana Sahib ، Layyah ، Toba Tek Singh اور Sheikhupura سے منتخب ہوئے تھے، انہوں نے اپنی پارٹی وفاداری تبدیل نہیں کی۔

No comments.

Leave a Reply