پاکستانی حکمرانوں ترکی کے صدر اردگان سے حکمرانی سیکھئے

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان

نیوز ٹائم

حالیہ کچھ عرصے کے دوران جب سے نواز شریف کو گرفتار کیا گیا ہے اس وقت سے پاکستان کے تمام ہی ٹاک شوز اور اخبارات میں ترک صدر اردگان کی طرح ملک میں اسٹیبلشمنٹ پر گرفت قائم رکھنے اور اسے وزارتِ دفاع کی نگرانی میں دیتے ہوئے  ملکی سیاست میں دخل اندازی کے تمام دروازے بند کرنے کے عمل کو پاکستان میں بھی متعارف کروانے کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔  ترک صدر اردگان کو اسٹیبلشمنٹ پر سویلین حکومت کی گرفت اور ملکی سیاست میں دخل اندازی سے باز رکھنے کے لئے بڑے عمل سے گزرنا پڑا ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جدید جمہوریہ ترکی کے قیام ہی سے اپنی گرفت مضبوطی سے قائم کئے رکھی ہے۔  کبھی فوج نے مارشل لا لگاتے ہوئے براہ راست اپنا اقتدار قائم کئے رکھا تو کبھی اسٹیبلشمنٹ اپنی پسند کی سویلین حکومت کو برسر اقتدار لاتے ہوئے من و عن اپنے احکامات کی تعمیل کرواتی رہی ہے۔

Süleyman Demirel ، Tansu Çiller ، Bülent Ecevit ، Turgut Özal ، Yıldırım Akbulut ، Necmettin Erbakan تقریباً تمام ہی وزرائے اعظم ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کو اپنے تیار کردہ منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کا موقع نہ دئیے جانے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔  اسٹیبلشمنٹ نے صرف ملکی انتظامیہ پر ہی گرفت قائم نہ کئے رکھی بلکہ اردگان دور سے قبل تک ان کا ہمیشہ ہی میڈیا پر مکمل کنٹرول قائم رہا ہے۔  اخبارات کی خبروں سے لے کر کالموں تک کی ایک ہی جنبش میں کاٹ چھانٹ کر دی جاتی رہی ہے  اور کالم نگاروں کی اخبارات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹی بھی کروائی جاتی رہی ہے اور خاص طور پر مذہبی رجحان رکھنے والے کالم نگاروں کے کالموں کا قینچی کی زد میں نہ آنا ناممکن سمجھا جاتا رہا ہے۔ ترک فوج بیرکوں میں رہتے ہوئے بھی تمام سویلین حکومتوں کو تگنی کا ناچ نچاتی رہی ہے۔  ترک فوج اتاترک کے دور میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور ملک میں برپا کئے جانے والے انقلابات کی آڑ میں ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے تعاون  اور نام نہاد اور یکطرفہ سیکولرازم کی تلوار کا سہارا لیتے ہوئے سویلین حکومتوں کو کوالیشن پر مجبور کرتی رہی ہے۔ ترک اسٹیبلشمنٹ نے جس طریقے سے Necmettin Erbakan کی حکومت کا تختہ الٹا تھا، اسے کوئی بھی نہیں بھول سکا ہے۔ ملک میں نام نہاد سیکولرازم کی آڑ میں حزب ِ اختلاف کے ملین افراد پر مشتمل جلسوں اور ریلیوں کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے؟  جلسوں میں تو لوگ جوق در جوق شرکت کرتے رہے لیکن انتخابات کے وقت ووٹ کسی اور ہی جماعت کو پڑتے رہے۔

اسٹیبلشمنٹ نے اردگان کے دوسرے دور میں عدلیہ کا سہارا لیتے ہوئے Justice and Development Party پر پابندی لگانے کی بھی کوشش کی لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہاں بھی منہ ہی کی کھانا پڑی، Establishment نے AK Party کے پہلی بار برسر اقتدار آنے پر صدر اردگان کو مذہبی اشعار پڑھنے کی پاداش میں جیل کی سزا دلوا کر وزارتِ عظمی سے دو رکھنے کی بھی کوشش کی تھی جو دیگر پارٹیوں کے تعاون سے آئین میں ترامیم کرواتے ہوئے ناکام بنا دی گئی تھی۔  اردگان اس وقت ہی یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ دیگر سیاستدانوں کی طرح ان کی حکومت کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہے گی،  اس لئے انہوں نے پہلے روز ہی سے عوام کی خدمت کو اپنا اشعار بنا کر اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اردگان نے اپنی وزارتِ عظمی کے پہلے دونوں ادوار میں بڑے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو ذرہ بھر بھی نہ چھیڑا حالانکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تمام ریشہ دوانیوں سے پوری طرح باخبر تھے۔

اردگان نے اس دوران ملک کی اقتصادیات کی طرف خصوصی توجہ دی اور فی کس آمدنی کو 2000 ڈالر سے بڑھا کر 11000 ڈالر تک پہنچا دیا اور ملک کو اقتصادی لحاظ سے 16ویں بڑی طاقت بنا کر جی 20 ممالک کی صف میں جگہ پانے میں کامیابی حاصل کی۔ وزیر اعظم اردگان نے اپنے پہلے دونوں ادوار میں اپنی حکومت کو مضبوط بنانے اور ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے کی جانب خصوصی توجہ دی کیونکہ وہ جانتے تھے سیاسی لحاظ سے کمزور ہونے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ Adnan Menderes کی طرح انہیں بھی تختہ دار پر لٹکانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی اور مختلف وزرائے اعظم کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی طرح ان کی حکومت کا بھی تختہ الٹنے میں ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچائے گی۔

ان تمام باتوں سے باخبر وزیر اعظم اردگان نے اپنے پہلے دونوں ادوار کے برعکس تیسرے دور میں 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد آخر کار اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالنے سے قبل اردگان نے محکمہ پولیس کی ازسرنو تشکیل کی، اس کی خفیہ سروس ڈیپارٹمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ سروس ڈیپارٹمنٹ سے بھی زیادہ مضبوط بنایا اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے حکومت کے خلاف بنائے جانے والے تمام پلان اور کارروائیوں سے متعلق معلومات یکجا کیں۔ اردگان حکومت نے اس دوران عدلیہ کو بھی نئے خطوط پر استوار کیا اور اس پر اسٹیبلشمنٹ کے تمام اثر و رسوخ کو ختم کرتے ہوئے اسے اسٹیبلشمنٹ کا ذیلی ادارہ بننے سے روک دیا۔ اردگان حکومت نے ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ عدلیہ اور محکمہ پولیس میں ہونے والی ان بڑی تبدیلیوں کے بعد اردگان حکومت نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق معلومات اور دستاویزات کو پولیس سے حاصل کرتے ہوئے عدلیہ کے روبرو پیش کر دیا اور اسی دوران آئین مین ترامیم کراتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ پر سول عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی راہ ہموار کرا لی۔

صدر اردگان کو اپنے وزیر اعظم ہونے کے ابتدائی دور میں مختلف شعبوں کے سربراہان متعین کرنے کا بھی حق حاصل نہ تھا۔ اردگان کی جانب سے مختلف عہدوں کے منتخب کئے جانے والے بیورو کریٹس اس وقت کے صدر Ahmet Necdet Sezer جو اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کی تعمیل کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے اردگان کی جانب سے متعین کئے جانے والے مختلف شعبوں کے سربراہان کو آئین کی رو سے ویٹو استعمال کرنے کے اختیارات سے وزیر اعظم اردگان کے پسندیدہ بیورو کریٹس کی اپنی میعاد پوری ہونے تک تعیناتی تک نہ ہونے دی۔ صدر Ahmet Necdet Sezer کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد جب Ak Party ہی سے تعلق رکھنے والے Abdullah Gül نے صدارتی فرائض سنبھالے تو اس وقت ہی اردگان کے لئے ملک کی ترقی کے راستے پوری طرح کھل گئے اور انہوں نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی کو دنیا کے گنے چنے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ترکی جیسے جیسے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا رہا اسٹیبلشمنٹ کے اندر تشویش کی لہر پیدا ہوتی رہی  کیونکہ ترکی تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک سے نکل کر دنیا کے 16ویں بڑے اقتصادی ملک کا روپ دھارتے ہوئے جی 20 ممالک کی صف میں شامل ہو چکا تھا۔

اسی دوران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دو بار اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی لیکن وقت سے قبل ہی اطلاع ملنے پر تختہ الٹنے کی کوششوں میں ملوث تمام جرنیلوں کو سزا دلوا کر پہلی بار سویلین حکومت کی اسٹیبلشمنٹ پر برتری کو ثابت کر دیا گیا  جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اردگان کے خلاف اپنی پالیسی میں تبدیلی کر لی اور سویلین حکومت کے خلاف کارروائی نہ کرنے ہی میں اپنے ادارے کی عافیت سمجھی۔ لیکن اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے اندر اردگان کے خلاف نفرت پھیلانے، ان کو غدار قرار دئیے جانے اور ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے Fethullah Gülen کے تعاون سے اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی 15 جولائی 2016ء  کو آخری کوشش کی  لیکن Allah کے فضل و کرم سے اردگان اور ان کی حکومت محفوظ رہی اور عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اور ٹینکوں کے آگے لیٹتے ہوئے ملک میں جمہوریت کا بھرپور ساتھ دیا۔

صدر اردگان نے اپنی انتھک کوششوں کے بعد ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے، عوام کے لئے خوشحالی اور رفاع کا بندوبست کرنے اور دنیا بھر میں ترکی کو بلند مقام دلوانے کے بعد ہی اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالا  اور اب اسٹیبلشمنٹ کو مکمل طور پر وزارتِ دفاع کے ماتحت کر دیا گیا ہے  اور ترکی کے ریٹایرڈ چیف آف جنرل اسٹاف Hulusi Akar کو وزیر دفاع متعین کرتے ہوئے فوج پر مکمل گرفت قائم رکھی ہوئی ہے۔

پاکستان میں بھی صرف اسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث ہونے سے روکا جا سکتا ہے جب کوئی سویلین حکومت اپنے عوام اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے  اور پاکستان کو دنیا میں بلند مقام دلوانے میں کامیاب ہو ورنہ اسٹیبلشمنٹ یوں ہی سیاستدانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہے گی  اور سیاستدان ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ پر سیاست میں دخل اندازی کا رونا روتے رہیں گے۔

No comments.

Leave a Reply