الیکشن 2018ء کے کئی بڑے اپ سیٹ

الیکشن 2018ء کے کئی بڑے اپ سیٹ

الیکشن 2018ء کے کئی بڑے اپ سیٹ

نیوز ٹائم

 پچیس جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کئی سیاسی رہنمائوں کا کیریئر بھی۔ اس بار سیاسی افق پر کچھ چہرے ایسے ہیں جو پہلی بار ایوان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو کچھ ایسے ہیں جو کئی بار ایوان کی رکنیت اور وزارت سے بھی لطف اندوز ہو چکے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح پاکستانی سیاست نے اس بار بھی الیکشن میں اپنا منفرد رنگ دکھایا اور سیاسی بساط پر کچھ ایسے مہرے کھسکائے کہ کئی بڑے بڑے برج الٹ گئے،  کچھ نئے اور غیر معروف نام ایوان کی فہرست کا حصہ بنے تو کچھ بڑے نام ناکامی کی گرد کی دیوار میں آ کر آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔

زیادہ لطف اندوز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار بھی کئی ایسے معروف نام کامیابی کا زینہ چڑھنے سے محروم رہ گئے جو چند ماہ قبل ایوان کی سیڑھیاں اس عزم اور خام خیالی کے ساتھ اترے تھے کہ 3 ماہ کے بعد یہی ایوان ایک بار پھر ان کا منتظر ہو گا ،  مگر قسمت ایسا ممکن نہ ہو سکا اور وہ کامیابی کی حسرت دل میں لئے گھر کو لوٹ گئے۔ ذیل میں ایسے ہی چند معروف سیاستدانوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو چند ماہ قبل تک سیاسی افق پر بلند پرواز میں محو تھے  مگر آج شائد ان پر آسمان تنگ کر دیا گیا ہے جو ان کی پرواز ایوان کی چار دیواری سے باہر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمن

اتحادی سیاست کے ماہر اور مسلم لیگ ن کے کٹر حمایتی جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس بار دہرے محاذ پر پسپا ہوئے۔ وہ اس بار کے پی کے کی 2 نشستوں پر ایم ایم اے کی جانب سے امیدوار تھے  مگر کپتان کے ایک ناتجربہ کار کھلاڑی نے انہیں کلین بولڈ کر دیا اور وہ بڑے مارجن سے دونوں سیٹیں ہار گئے۔

شاہد خاقان عباسی

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کو سنبھالا دینے والے سابق وزیر پی آئی اے شاہد خاقان عباسی بھی اس بار ایوان کا منہ نہ دیکھ سکے۔ شاہد خاقان عباسی نے اس بار این اے 53 اور این اے 57 دونوں نشستوں سے کاغذات جمع کرائے تھے مگر ایک نشست پر انہیں 48000 اور دوسری پر 12000 ووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

حاجی غلام احمد بلور

اے این پی کے رہنما حاجی Haji Ghulam Ahmad Bilour اس بار این اے 31 سے تحریک انصاف کے امیدوار شوکت علی کے مدمقابل قسمت آزما رہے تھے مگر ان کی قسمت نے پرواہ نہ کی اور وہ 88000 ووٹوں کے بھاری مارجن سے الیکشن ہار گئے۔ Haji Ghulam Ahmad Bilour اس سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

سراج الحق

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس بار لوئر دیر سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ این اے 7 سے انتخابات میں حصہ لینے والے اس سینئر سیاستدان کو پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار محمد بشیر خان نے تقریباً 17 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ بشیر خان نے کل 62416 ووٹ حاصل کئے تھے۔

چودھری نثار علی خان

پاکستان مسلم لیگ ن میں سب سے دھیمے مزاج کے حامل زیرک سیاستدان اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو بھی اس بار الیکشن میں کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ مسلم لیگ ن سے اختلافات کے باعث انہوں نے پارٹی سے ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، مگر وہ تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان سے 16000 سے زائد ووٹوں کے مارجن سے مات کھا گئے،  ان کی شکست اس حوالے سے میڈیا میں زیر بحث رہی کہ 1985ء سے اب تک یہ ان کی اپنے آبائی حلقے میں پہلی شکست تھی۔

مصطفی کمال

ایم کیو ایم کے سابق سرگرم رکن اور پارٹی قائد کی ملک دشمن سرگرمیوں سے تنگ آ کر اپنی الگ جماعت بنانے والے مصطفی کمال کو بھی اس الیکشن میں ایوان میں داخلے کا این او سی نہ مل سکا۔ Pak Sarzameen Party کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے والے مصطفی کمال کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکے۔

عابد شیر علی

فیصل آباد کی سیاست میں ایک سرگرم کردار ادا کرنے اور سیاسی مخالفین پر اپنی ترش زبانی کے وار کرنے کے حوالے سے مشہور عابد شیر علی اس بار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ عابد شیر علی کو فیصل آباد میں ان کی آبائی نشست پر بھی اتنے زیادہ ووٹ نہ مل سکے جو انہیں ایک بار پھر ایوان میں پہنچا سکیں۔ شائد ان کے اپنے ووٹرز ان کی ترش زبانی سے تنگ تھے یا ان کی کارکردگی 5 برسوں میں اتنی بہتر نہ ہو سکی جو انہیں ایک بار پھر ایوان میں جانے کا سرٹیفکیٹ دلوا سکے۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے تحریک انصاف کے علیم خان کو پچھاڑ دیا، علیم خان صوبائی اسمبلی کی نشست بھی ہار گئے، جبکہ این اے 125 میں تحریک انصاف کی مضبوط امیدوار ڈاکٹر یاسمین بھی ہار گئیں، انہیں وحید عالم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ادھر این اے 158 ملتان سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو تحریک انصاف کے امیدوار محمد ابراہیم خان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سیاست میں بڑے برج الٹنا اب ایک روایت سے بنتی جا رہی ہے۔ عوام کیلئے شائد یہ ایک معمول کی بات ہو مگر کسی سینئر سیاستدان کا یوں اپنی آبائی سیٹ سے شکست کھا لینا یا عوام کا اس کے سر سے دست شفقت اٹھا لینا عام بات نہیں۔ مگر یہ سیاستدانوں کیلئے ایک سبق ضرور ہے کہ اگر انہیں کامیابی حاصل کرنا ہے تو عوام کی سچے دل سے خدمت کرنا ہو گی۔

No comments.

Leave a Reply