جمعیت علمائے اسلام کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن سے اتحادیوں کا اختلاف

آل پارٹیز کانفرنس میں  اپوزیشن پارٹی کا مولانا فضل الرحمان سے اختلاف

آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن پارٹی کا مولانا فضل الرحمان سے اختلاف

نیوز ٹائم

جمعیت علما ہند قیام پاکستان کے بعد جمعیت علما اسلام کے نام سے پاکستان میں متعارف ہوئی ہندوستان میں تقریباً تمام مذہبی سیاسی جماعتوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی  علماء کا ایک بڑا طبقہ جمعیت احرار کے نام سے اپنا ایک وجود رکھتا تھا جس کے کئی لوگ بعد میں جمعیت علماء اسلام میں شامل ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد احتجاجی مزاج کو روا رکھا مگر اس جماعت کے قائدین تحمل مزاج، صاحب علم اور قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے والے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان جماعتوں کو بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا رہا Maulana Maududi نے پاکستان آ کر پاکستان کی کھل کر حمایت کی  مگر انھیں بھی لوگوں نے چین سے جینے نہیں دیا جبکہ دیگر مذہبی جماعتوں نے پاکستان کی اس طرح کھل کر حمایت نہیں کی جس طرح انھیں کرنی چاہیئے تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب ملک میں سوشل ازم کا نعرہ لگا کر ووٹ حاصل کیے اور پھر جو لوگ مذہب کے نام پر اسمبلیوں میں آئے ان کا مذاق اڑایا گیا، ان کی تذلیل کو وطیرہ بنا لیا گیا اور یہاں تک کہ آئین کی چھٹی ترمیم کے بعد مولانا فضل الرحمن کے والد Maulana Mufti Mahmood کو اسمبلی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔

1973میں بننے والی صوبہ NWFP اور بلوچستان میں حکومتوں کا کچھ اس طرح اتحاد بنا کہ صوبہ NWFP (کے پی کے) میں Arbab Sikandar گورنر اور Maulana Mufti Mahmood وزیر اعلی تھے، بلوچستان میں Attaullah Mengal وزیر اعلی اور گورنر Ghaus Bakhsh Bizenjo تھے۔ وزیر اعلی بلوچستان Attaullah Mengal گورنر بلوچستان Ghaus Bakhsh Bizenjo اور Arbab Sikandar بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے جب Ghaus Bakhsh Bizenjo صوبہ NWFP (کے پی کے) تشریف لائے رمضان المبارک تھا مجھے بھی Ghaus Bakhsh Bizenjo کے پولیٹیکل سیکرٹری نے گورنر ہائوس پشاور بلوایا  دن ایک بجے Ghaus Bakhsh Bizenjo نے مجھے اور اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو دوپہر کھانے پر بلایا تو میں نے بتایا کہ میرا روزہ ہے  مگر ان کے سیکرٹری کا اسرار تھا کہ بیشک آپ کھانا نہ کھائیں کھانے پر گفتگو رہے گی لہذا آپ آ جائیں ہم ابھی ساتھ والے کمرے میں کھانے پر بیٹھے ہوئے تھے جس کے لئے خصوصی طور پر زمین پر اہتمام کیا گیا تھا کہ ایک گورنر ہائوس کے ایک کارکن نے بتایا کہ Maulana Mufti Mahmood وزیر اعلیٰ Ghaus Bakhsh Bizenjo سے ملنے آئے ہیں جس پر Ghaus Bakhsh Bizenjo سے معلوم کرنے کے بعد جا کر Maulana Mufti Mahmood کو بتایا کہ وہ مصروف ہیں آدھے گھنٹے کے بعد ملاقات ممکن ہے مگر Maulana Mufti Mahmood صاحب کا اصرار تھا کہ وہ فوری ملنا چاہتے ہیں جس پر Ghaus Bakhsh Bizenjo نے مسکراتے ہوئے کہا  کہ Mufti صاحب کو دوٹوک الفاظ میں بتا دو کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں آپ شریعت کے پابند ہیں اس لئے روزے کے دوران دوپہر کے کھانے پر آپ کو ساتھ بٹھانا مناسب نہیں جس پر تیسری بار Mufti کا ایک پیغام آیا کہ کوئی بات نہیں میں ضرور ملنا چاہتا ہوں جس پر وہ تشریف لائے سارے حضرات نے جن کی تعداد 7 سے زیادہ تھی کھانا کھایا جبکہ میں اور Maulana Mufti Mahmood روزے سے رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے اقدامات پر گفتگو ہوتی رہی اور مفتی محمود نے انھیں بتایا کہ لگتا ہے بھٹو بلوچستان میں ایکشن کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد صرف بلوچستان کی حکومت کو ختم کرنا ہے اگر ایسا ہوا تو ہم بھی مستعفی ہو جائیں گے اور بعد میں اسی طرح ہوا۔Maulana Mufti Mahmood کے جانے کے بعد Ghaus Bakhsh Bizenjo نے کہا مجھے تو شرم آتی ہے اتنے پرتکلف کھانے آم اور خربوزے وغیرہ دیکھ کر Maulana Mufti Mahmood صاحب کا روزہ مکروہ تو ضرور ہوا ہو گا Maulana Mufti Mahmood  نے اپنے دور اقتدار میں انتہا پسند بائیں بازو کے لوگوں پر بھی اعتماد کیا اور اپنی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتے ہوئے رمضان المبارک میں بھی کھانے پر مجھ سے ملاقات کر لی۔ جب ذوالفقار کے مظالم حد سے بڑھے تو اسلامی نظام کی تحریک چلی، پی این اے وجود میں آئی، جس میں Maulana Mufti Mahmood کا سب سے اہم کردار تھا کیونکہ لوگ بلوچستان اور صوبہ NWFP میں ان کی آواز پر عالم دین ہونے کی حیثیت سے لبیک کہتے تھے۔ Maulana Mufti Mahmood نے کئی مرتبہ کہا حکومت ہمارا کام نہیں ہمارا کام اصلاح کرنا اور دین کو پھیلانا ہے میں نے چند ماہ کی وزارت اعلیٰ میں دیکھ لیا کہ یہاں ایمان کو بھی خطرہ ہے۔

دوسری جانب Maulana Mufti Mahmood کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمن جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل بن گئے اور تاحال اسی عہدے پر فائز ہیں۔ مولانا فضل الرحمن حجرے سے نکل کر بہتر رہائش گاہیں اور پھر وزارت کے مزے میں اس طرح غرق ہو گئے کہ Maulana Mufti Mahmood کی نیک نیتی اور خلوص سے بنائی گئی اس بنیاد کو بھی مولانا فضل الرحمان نے 2018ء کے انتخابات میں گرا دیا  جو  Maulana Mufti Mahmood صاحب نے علم کی روشنی پھیلا کر تعمیر کی تھی۔  وہ نواز شریف کی حکومت کے بعد ہمیشہ اقتدار میں ہی رہے ان سے کئی جھوٹی سچی کہانیاں بھی منسوب ہوئیں جن میں حکومتی زمین کی الاٹمنٹ، ڈیزل کے پرمٹ، بینکوں سے نئے نوٹوں کا حصول وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے حجرے سے نکل کر جب بنگلوں اور کوٹھیوں کے مزے لینا شروع کیے تو اپنے بھائیوں، اولاد اور سمدھیوں کو بھی ایوان اقتدار میں کسی نہ کسی صورت میں داخل کر لیا  اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کی بجائے لوگوں کو آئین کے تناظر میں تشریح بتانا شروع کر دی۔ اس کی بدولت ایک نہ ایک دن یہ طلسم ٹوٹنا تھا۔ مولانا فضل الرحمن دونوں سیٹوں سے ہار گئے وہ جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ رہے ان کا خیال تھا کہ وہ اقتدار میں شریک ہو کر جس طرح ان کی ہر بات پر لبیک کہتے رہے  آج انہیں ایوان اقتدار سے مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا ہے تو آج ان کی بات پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن لبیک کہیں گے۔

انھوں نے اپنے طور پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی اس کانفرنس میں انھوں نے Mahmood Khan Achakzai کو بھی بلا لیا  محمود خان اچکزئی کو مولانا فضل الرحمن کے ٹکٹ ہولڈر نے شکست دی یوں مولانا فضل الرحمن نے Mahmood Khan Achakzai سے سیٹ چھین لی اگر کوئی دھاندلی یا بدعنوانی کی ہے تو مولانا فضل الرحمن کے ٹکٹ ہولڈر نے Mahmood Khan Achakzai کے ساتھ کی ہو گی مگر حیرت ہے کہ دونوں انتخاب میں شکست کا رونا رو رہے ہیں مگر ہارنے اور جیتنے والے دونوں ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی میں شرکت نہیں کی، مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمن کی اس جذباتی تقریر پر کہ ہم اسمبلیوں میں حلف نہیں اٹھائیں گے خاموشی اختیار کی اور یہ کہہ دیا کہ ہم اس حوالے سے اپنی Executive Committee سے پوچھیں گے،  پھر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مولانا کو یہ مشورہ دیا کہ ان کے افراد بھی ہمارے ساتھ حلف اٹھائیں کیونکہ ہم آپ کی ڈکٹیشن لینے کے لئے تیار نہیں۔

دوسری جانبMMA  اس بنیاد پر بنائی گئی ہے کہ اس کے تمام فیصلے متفقہ طور پر ہوں گے،  اس کی ایک رکن پارٹی Jamaat-e-Islami نے بھی مولانا فضل الرحمن سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ حلف اٹھائیں گے، اسمبلیوں میں بھی جائیں گے مگر تا دم تحریر مولانا فضل الرحمن اس بات پر بضد ہیں کہ ہمیں اسمبلیوں میں نہیں جانا چاہیئے،  آئندہ کوئی اسمبلی میں بھی حلف نہ اٹھائے جب تک میں اسمبلی میں نہ پہنچ جائیں اس اے پی سی میں شامل ہونے والے مسلم لیگ ن کے سوا تمام افراد وہ تھے جو شکست کھا چکے ہیں اور وہ اسمبلی میں حلف تو کیا اسمبلی کے ہال میں داخلے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ مگر مولانا کا یہ بے و قوفانہ رویہ حیران کن ہے کہ جو میں کہوں گا وہی ہو گا، انہوں نے اس کے بارے میں ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ حالات بدل گئے ہیں،  اربوں روپے کے مکانات جو میاں نواز شریف نے لندن میں خریدے تھے، انہیں لوگ ٹھوکریں مار رہے ہیں، نواز شریف اور Maryam  نواز جنہیں زعم تھا کہ انھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکے گا آج جیل میں پڑے ہوئے ہیں ان کی پارٹی میں فارورڈ بلاک کے لئے پارٹی کے لوگ خود مصروف ہیں جبکہ مسلم لیگ ق انھیں ان کی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دے رہی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ گذشتہ 15 سال کی طرح اب بھی مولانا فضل الرحمن کی ہی بات مانی جائے گی اور لوگ ان کی بات پر لبیک کہیں گے۔

No comments.

Leave a Reply