مودی حکومت نے ریاست آسام میں موجود 40 لاکھ مسلمانوں کی شہریت چھین لی

ریاست آسام میں موجود 40 لاکھ   مسلمانوں کی بھارتی شہریت چھین کر ان کو بنگلہ دیشی قرار دے دیا ہے

ریاست آسام میں موجود 40 لاکھ مسلمانوں کی بھارتی شہریت چھین کر ان کو بنگلہ دیشی قرار دے دیا ہے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

مودی سرکار نے ریاست آسام میں موجود 40 لاکھ بنگالی مسلمانوں کی بھارتی شہریت چھین کر ان کو بنگلہ دیشی قرار دے دیا ہے۔ بھارت نے مسلمانوں کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے باعث خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ متاثرین کا حال روہنگیا مسلمانوں کی طرح نہ ہو جائے،  جن پر برمی فوج نے زمین تنگ کر رکھی ہے۔ ”نیشنل رجسٹر فار سیٹزنز” کی دوسری فرہست سے 40 لاکھ بنگلہ بولنے والے آسامی مسلمانوں کے نام کے اخراج کے اعلان سے قبل ریاستی دارالحکومت گوہاٹی سمیت تمام مضافاتی علاقوں میں مسلح سیکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے  جس سے یہ تاثر فعام ہوا ہے کہ حکومت مسلمانوں کے خلاف بے دخلی کا کریک ڈائون کرنا چاہتی ہے۔

ادھر ایک تازہ انٹرویو میں گوہاٹی ہائی کورٹ کے وکیل Aman Wadud نے کھل کر شہریت کی تصدیق کے عمل کو مشتبہ قرار دیا ہے۔ امان ودود نے کہا کہ ریاست میں شہریوں کو ”مشکوک اور غیر ملکی” یا ”بنگالی” قرار دینے کا عمل یکطرفہ ہے۔ یہ اس لئے بھی ناقابل قبول ہے کہ اس میں غیر ملکی قرار دیئے جانے والے کسی بھی فرد کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی ادارہ ”یو این ایچ سی آر” نے بھی بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست آسام میں شہریت کی جانچ کے معاملات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ریاستی حکام اور سیاسی عناصر مسلمانوں اور بنگلہ زبان بولنے والوں کے خلاف ہیں، جس کے باعث وہ انہیں غیر ملکی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارے نے بھارت سرکار کو لکھے گئے ایک خط میں استفسار کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھنا چاہتی ہے۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت 40 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ان کو حراستی کیمپوں میں رکھنے یا بنگلہ دیش کی سرحد میں اچانک دھکیلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ نیشنل رجسٹر فار سٹیزن کا ادارہ غیر جانبدار نہیں اور اس کے نئے متنازع قوانین کے تحت پنچایتی سرٹیفکیٹ بھی اسکروٹنی کے عمل میں قابل قبول نہیں۔ یہی اگر کسی فیملی کا ایک فرد بھی اس ادارے کی جانب سے غیر ملکی قرار دے دیا جاتا ہے تو پورا خاندان غیر ملکی تصور ہو گا۔ اس پالیسی کی زد میں 10 ہزار سے زیادہ بنگلہ زبان بولنے والے آسامی مسلمان گھرانے آ چکے ہیں، جن میں سیکیورٹی فورس کے اہلکار بھی شامل ہے۔ ایسے ہی گھرانوں میں ایک گھرانہ گوہاٹی کے Saadullah کا ہے، جو حال ہی میں بھارتی فضائیہ سے ریٹائر ہوئے ہیں اور ان کے تین بھتجے اب بھی ایئر فورس میں ہیں۔ لیکن ان پر مصیبت یہ ہے کہ ان کی ایک شادی شدہ بہن کو ”نیشنل رجسٹر فار سینٹرنز” کی جانب سے غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے اور ان کی کوئی بات سنی نہیں جا رہی ۔ Saadullah  کا سوال ہے کہ کیا ہم لوگ گیر ملکی ہیں جو تین پشتوں سے بھارتی فورسز کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایسا ہی دوسرا کیس M. AJmal-ul-Haq کا ہے، جو 1986ء میں انڈین ایئر فورس میں سپاہی بھرتی ہوئے اور بطور Junior commissioned آفسر 2016ء میں ریٹائر ہوئے۔ لیکن ان کو بھی غیر ملکی قرار دیا گیا ہے، جس پر M. AJmal-ul-Haq سخت پریشان ہیں۔ M. AJmal-ul-Haq نے کہا کہ میرا واحد قصور یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں۔

جریدے ”آسام ٹریبون” کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آسام جس کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں، میں موجودہ لاکھوں مسلمانوں کو حکمران جماعت بی جے پی اور دیگر انتہاپسند تنظیموں کی جانب سے ماضی میں بھی بنگلہ دیشی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ بنگالی مسلمانوں اور بھارتی مسلم زعما نے شدید ردعمل اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے  کہ بھارتی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے ظاہر ہے کہ بھارتی مودی سرکار بنگالی زبان بولنے والے لاکھوں آسامی مسلمانوں پر بھارت کی شہریت سے محروم کرنا چاہتی ہے۔

واضح رہے کہ 30 جولائی سے پہلے بنگالی قرار دیئے جانے والے آسامی مسلمانوں کی کل تعداد 3 لاکھ سے بھی کم بتائی جا رہی تھی، کیونکہ ان لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کے لیے لازم تصدیقی سند نے انہیں بھارتی شہری ثابت کر دیا تھا، لیکن بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ایک غیر معمولی اور مسلمانوں کے واسطے ضرر رساں احکامات نے 40 لاکھ مسلمانوں کو ”غیر ملکی بنگالی” بنا ڈالا ہے۔  Indian journal Deccan Chronicle نے بتایا ہے کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے آفس سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق ریاست آسام میں گزشتہ ماہ تک 3 کروڑ 29  لاکھ باشندوں جنے شہریت کی درخواست یا ثبوت و شواہد جمع کروائے تھے، جن کی ”اسکروٹنی” کے نتیجے میں دو کروڑ 79 لاکھ باشندوں کی دستاویزات کو درست پایا گیا۔ جبکہ 40 لاکھ شہریوں کی دستاویزات اور ثبوتوں کو رد کر کے انہیں غیر ملکی قرار دیا گیا ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

نئی فہرست کے اجرا کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان بنگالی زبان بولنے والے گھروں میں بے یقینی کی لہر دوڑ گئی ہے، جبکہ مسلمان علمائے کرام اور سیاسی رہنمائوں کے دبائو پر نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز نے ان 40 لاکھ مسلمانوں کو بہلاتے ہوئے کہا ہے  کہ ستمبر میں ان کو ایک اور موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنی شہریت کو ثابت کریں۔ اگرچہ ستمبر کی آخری تاریخ تک ان کے خلاف بھارت سے بے دخلی کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، تاہم ستمبر کے بعد ان کو ملک بدر کر دیا جائے گی۔ Indian writer Moti Mojamdar نے جو آسامی دارالحکومت میں موجود ہیں، نے بتایا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک تاخیری حکم نامے کے تحت شہریت کے ایک اہم ثبوت یا تصدیقی سند کو تسلیم کرنے سے منع کر دیا ہے، جس کے بعد آسام کے شہریت ٹریبونل نے 40 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کی جانب سے ٹریبونل کو جمع کروائے جانے والے سرٹیفکیٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی بھارتی شہریت کی تصدیق کے لیے کوئی اور سند لائیں۔ لیکن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جب گائوں کے  Chief یا  Sarpanch کی جانب سے بنائے جانے والے سرٹیفیکٹ کو بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں  تو سپریم کورٹ کی جانب سے اس سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی حکومت اور بھارتی عدالت کا گٹھ جوڑ لاکھوں آسامی مسلمانوں کو بھارت سے نکالنے کی سازش ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز میں Maulana Badr al-Din Ajmal سمیت نصف درجن اراکین اسمبلی کے نام بھی شامل نہیں،  جس سے ان کی شہریت کے بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ Indian writer Laxman Chakraborty کا کہنا ہے کہ آسام میں بھارتی شہریت کا معاملہ اس قدر پریشان کن کبھی نہ تھا،  لیکن بے جے پی کی مرکز میں حکومت آتے ہی اس معاملے کو عصبیت سے جوڑ کر ایک خاص طبقہ کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، کیونکہ آسام کے عام ہندو باشندے آسام کی مقامی زبان بولتے ہیں، لیکن بنگالی مسلمانوں کی خاصیت یا کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی مادری زبان بنگلہ بولنا پسند کرتے ہیں، جس کی وجہ سے جان کو بنگلہ دیشی کہہ کر متہم کیا جاتا ہے۔ Indian writer Laxman Chakraborty کا ماننا ہے کہ 1980ء میں کانگریسی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت میں آسام گن پریشد کے درمیان ایک بڑا واضح معاہدہ طے پایا تھا،  جس میں بھارتی حکومت اور آسامی باشندوں کے سیاسی نمائندوں نے طے کر دیا تھا کہ 1971ء میں بنگلہ دیش بننے کے بعد آسام میں آنے والے یا رہ جانے والے تمام غیر مسلم اور مسلمانوں کو بھارتی باشندہ تسلیم کیا جائے گا اور ان کی شہریت کے لیے پنچایتی سرٹیفکیٹ کو اہم ثبوت مانا جائے گا، لیکن حالیہ ایام میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت “Panchayati Certificate” کو مصدقہ سند تسلیم نہیں یا جا رہا ہے،  جس کی وجہ سے لاکھو افراد مشکل میں پڑ گئے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply