اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 123.90 روپے برقرار، معیشت آئندہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 123.90 روپے برقرار

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 123.90 روپے برقرار

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

انٹر بینک میں ڈالر کے سامنے روپے کی قیمت برقرار جبکہ مقامی اوپن کرنسی مارکیٹ میں روپے نے ڈالر کی قدر گرا دی۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز انٹربینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت خرید 123.90 روپے اور قیمت فروخت 124 روپے پر بدستور برقرار رہی  جبکہ مقامی اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 50 پیسے کم ہو گئی جس سے ڈالر کی قیمت خرید 123 روپے سے کم ہو کر 122.50 وپے اور قیمت فروخت 124 روپے سے کم ہو کر 123.50 روپے پر آ گئی۔  فاریکس رپورٹ کے مطابق یورو کی قدر میں 1 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی جس سے یورو کی قیمت فروخت 144.50 روپے سے کم ہو کر 143.50 روپے ہو گئی تاہم برطانوی پائونڈ کی قیمت خرید 158.75 روپے اور قیمت فروخت 162 روپے پر مستحکم رہی۔

Pakistan businessman Forum and Karachi Industrial Alliance کے صدر، businessman پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر Mian Zahid Hussain نے کہا ہے کہ چین اور سعودی عرب کے سفیروں کا عمران خان کو مبارکباد کے لیے آنا، ایران و امریکا کا بیان اور افغانستان کے صدر کا ٹیلیفون کے ذریعے اعتماد کا اظہار کرنا نیز بھارتی میڈیا، کھلاڑیوں اور نمایاں فنکاروں کا خیر مقدم پاکستان کا تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مستقبل میں گہرے روابط استوار ہونے کی دلیل دیتا ہے۔  اوپن مارکیٹ میں الیکشن سے ایک دن پہلے ڈالر کی قیمت 130.65 روپے تھی جو آج 122.50  پر پہنچ گئی جس سے نہ صرف روپیہ مستحکم ہوا بلکہ کئی اجناس کی قیمتوں میں کمی آئی اور بیرونی قرضہ کی مد میں تقریباً 600 ارب روپے کی کمی آئی ہے۔  Mian Zahid Hussain نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ چین کے 2 ارب ڈالر کے آسان اور فوری قرضہ سے آنے والی حکومت کو کچھ آسانی میسر آئے گی تاہم ملک کے خراب معاشی حالات کے پیش نظر اور مختلف اداروں کی تحقیق بشمول عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز IMF کے نئے پروگرام کے لیے جانا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔  پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے کمزوری، ایکسپورٹ میں کمی اور زرمبادلہ ذخائر کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس سے بہ احسن و خوبی نبرد آزما ہونا پاکستان تحریک انصاف کی آنے والی حکومت کے لیے کڑی آزمائش ہے اور قوم امید کرتی ہے کہ نئی حکومت اس آزمائش سے نکلنے کے لیے عوام کی توقعات پر پوری اترے گی۔  میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات انڈسٹریل سیکٹر میں سہولتوں کی کمی، سرکاری اداروں کی کمزوری، قانون کی بالادستی، کرپشن، بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت اور ٹیکس بیس میں کمی ہے۔

پاکستان کو فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی گرے لسٹ کا بھی سامنا ہے جس کا مستقبل قریب میں حل ہونا نہایت ضروری ہے، تاکہ سرمایہ کاروں کا نفسیاتی اعتماد بحال ہو۔ ملک کے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے ان وجوہات کو ختم کرنا اشد ضروری ہے، جس کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔  گورننس کی بہتری کے لیے فوری اقدامات آنے والی حکومت کی ترجیح ہونے چاہئیں، جس کے بغیر ملک کی معیشت کی بہتری کا خواب شرمند تعبیر نہیں ہو سکتا۔  اگر پاکستان کو IMF کے اگلے پروگرام کی طرف جانا پڑا تو آئی ایم ایف سخت شرائط لاگو کرے گا، جس سے ملکی معیشت جمود کا شکار ہو جائے گی، ٹیکس ریٹ میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا اور مہنگائی کی ایک نئی لہر ملک میں بسنے والے ہر طبقے کے لیے پریشان کن ثابت ہو گی۔ گزشتہ مالی سال میں GDP کی شرح 5.8 فیصد رہی جو گزشتہ 13 سالوں میں سب سے زیادہ تھی جبکہ رواں مالی سال میں GDP کا تخمینہ 6.2 فیصد لگایا گیا ہے، لیکن اگر IMF سے قرضہ لیا گیا تو اس کی شرائط کے نتیجے میں جنم لینے والے معاشی جمود کے باعث 5.8 فیصد برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا، اس لیے بیرون ملک پاکستانیوں سے عمران خان اپیل کریں تاکہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافہ ہو سکے۔

No comments.

Leave a Reply