معاشی چیلنجز سے نمٹنا ممکن ہے!

اگلے چند دنوں میں امپورٹ بل کی مد میں بقول متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کے 12 ارب ڈالر ہی چاہئیں  تو ایسے میں حکومت کیا کرے گی

اگلے چند دنوں میں امپورٹ بل کی مد میں بقول متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کے 12 ارب ڈالر ہی چاہئیں تو ایسے میں حکومت کیا کرے گی

نیوز ٹائم

ہمارے ہاں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ یہاں جو کام کرنا چاہتا ہے اسے اس قدر متنازع بنا دیا جاتا ہے کہ تھوڑے عرصے بعد روایتی سیاستدانوں کے رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے اور پھر وہ بھی کمیشن کھانے کی دوڑ میں سب سے آگے پہنچ جاتا ہے۔ اور پھر کہتا جاتا ہے کہ کرپشن کی ہے تو ثابت کرو ورنہ الزام نہ لگا….  یہی حال آج کل نئی نویلی متوقع حکومت تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ابھی وہ اقتدار میں نہیں آئی کہ نت نئی بولیاں بول کر انکشافاتی بیانات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔  آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرض لینے کی افواہیں اڑا کر انہیں بلاوجہ تنازعات میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ حکومتی خزانوں میں کیا پڑا ہے؟ سابقہ حکومت کرپشن کے نام پر جو اس ملک میں لوٹ مار کر کے گئی ہے  کیا کوئی سوچ سکتا ہے جس ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر محض 12 ارب ڈالر رہ جائیں  اور اگلے چند دنوں میں امپورٹ بل کی مد میں بقول متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کے 12 ارب ڈالر ہی چاہئیں  تو ایسے میں حکومت کیا کرے گی؟  لہذا کسی کے ہاتھ باندھنے نہیں چاہئیں بلکہ ہمیں قومی مفاد میں ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔  اور اگر ملک کو سابقہ حکمرانوں نے صحیح سمت میں ڈالا ہوتا تو یقینا پاکستان اپنے وسائل استعمال کر کے امپورٹ بل سے بچا رہتا ….  مثلا پاکستان 11 ارب ڈالر کا سالانہ تیل باہر سے منگواتا ہے۔ اگر پاکستان سے تیل نکالنے اور ریفائن کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی تو ہم سالانہ بڑے نقصان سے بچ سکتے تھے۔  اس حوالے سے نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون کا بیان خوش آئند ہے  کہ تیل نکالنے والی غیر ملکی کمپنی کے مطابق پاکستان، ایران بارڈر کے قریب تیل کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت ہونے کے قریب ہے  جس کا تخمینہ کویت کے ذخائر سے بھی بڑا ہو گا۔

عمران خان کی حکومت آنے کے بعد فوری طور پر مقامی ذخائر پر شفٹ ہو جائیں گے۔ لیکن عمران خان کے سامنے چیلنجز کے پہاڑ کھڑے ہیں اور اگر اگلے 5 سال انہوں نے ان پہاڑوں کو کھود کر مسائل کا حل تلاش کر لیا تو وہ یقینا سرخرو ہوں گے۔ اور جتنی اس عوام نے ان سے امیدیں لگائی ہیں وہ یقیناً مایوس نہیں کریں گے۔  کیونکہ عمران خان اپنی وکٹری تقریر میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہم مقامی معدنی ذخائر پر کام کریں گے….  اگر ہم پاکستان میں معدنیات کے حوالے سے بات کریں تو یہاں معدنیات قدرتی دولت ہیں جو زیر ِزمین دفن ہیں۔

اللہ تعالی نے پاکستان کو بھرپور معدنی وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ معدنی وسائل تیز رفتار اقتصادی اور صنعتی ترقی کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دورِ جدید میں معدنی تیل ایک اہم قیمتی سرمایہ ہے۔  یہ توانائی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ معدنی تیل خام حالت میں پایا جاتا ہے۔ جس کو تیل صاف کرنے کے کارخانہ (آئل ریفائنری) میں صاف کیا جاتا ہے اور اس سے پیٹرول اور دیگر مصنوعات یعنی مٹی کا تیل، ڈیزل، پلاسٹک اور موم بتی وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں۔  پاکستان میں ملکی ضروریات کا صرف 15 فیصد تیل پیدا ہوتا ہے بقیہ 85 فیصد حصہ دوسرے ممالک سے درآمد کر کے ملکی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں تیل کے ذخائر High surface ، Pothohar ، Kuwahara ، Dhlyan ، Kot Mial ، District Attak in the Sarag، Balikesir District Chakwal ، Jhelum District میں Joyamir اور Dera Ghazi Khan Duhdak  اور سندھ میں Badin ، Hyderabad ، Dadu اور Sanghar کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔  تیل اور گیس کی تلاش کے لئے ملک میں تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن (OGDC) بنائی گئی ہے۔ یہ ادارہ تیل کے مزید ذخائر تلاش کرنے میں کوشاں ہے۔ اسی طرح سوئی گیس کے بارے میں کون نہیں جانتا۔  کوئلے کی بات کریں تو پاکستان میں کوئلہ بہت سے مقامات پر دریافت ہوا ہے اور مزید کیا جا رہا ہے۔ خام لوہا بہت زیادہ مقدار میں دستیاب ہے۔  یہ انتہائی اہم معدن ہے جو لوہا، فولاد، مشینری اور مختلف قسم کے اوزار بنانے کے کام آتا ہے۔ کالا باغ کے علاقے میں خام لوہے یا لوہے کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ دوسرے ذخائر District Hazara میں Abbottabad سے 32 کلومیٹر جنوب میں Langarball اور Chitral میں دستیاب ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں خام لوہے کے ذخائر Khuzdar ، Chol Ghazi اور Muslim Bagh میں پائے جاتے ہیں۔ کرومائیٹ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔  یہ ایک سفید رنگ کی دھات ہے جو فولاد سازی، طیارہ سازی، رنگ سازی اور تصویر کشی کے لوازمات بنانے میں کام آتی ہے۔ دنیا میں کرومائیٹ کے سے سب سے بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں۔ اس کا زیادہ حصہ برآمد کر کے ذرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔

اس کے ذخائر بلوچستان میں Muslilm Bagh، Chagi ، Kharan ، NWFP اور آزاد قبائلی علاقوں میں Malakand ، Mohmand Agency اور North Waziristan میں پائے جاتے ہیں۔  تانبا برقی آلات سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ برقی تار بھی تانبے سے بنایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ضلع Chagi میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جپسم سفید رنگ کا ایک چمکیلا پتھر ہے۔ یہ سیمنٹ، کیمیائی کھاد، پلاسٹر آف پیرس اور رنگ کا پاڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ نمک کے ذخائر لاتعداد میں موجود ہیں، چونے کا پتھر، سنگ مرمر سمیت بہت سی معدنیات پاکستان میں کثرت سے موجود ہیں جنہیں صرف استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ اور آنے والی حکومت محض اس پر انحصار ہی کرنا شروع کر دے تو پاکستان کے خود کفیل ہو سکتا ہے۔

شاید بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ تیل و گیس کے نئے ذخائر کی سال 2017 ء کے دوران دریافت سے پاکستان نئے ذخائر دریافت کرنے والے دنیا کے 5 بڑے ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ امریکہ کی کمپنی گلوبل آئل اینڈ گیس Discourse Review 2017 ء کی رپورٹ کے مطابق سال 2017 ء کے دوران پاکستان نے تیل و گیس کے کئی بڑے ذخائر دریافت کیے جس کی وجہ سے نئے ذخائر تک رسائی حاصل کرنے والے 5 بڑے ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ اور یہ بات امریکی ادارے ای آئی اے کی رپورٹ میں درج ہے کہ پاکستان کا 70 فیصد علاقہ شیل گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے، جو زیر زمین باریک ریت کے ذروں اور مٹی سے بننے والی تہہ دار چٹانوں سے حاصل کی جاتی ہے۔

پاکستان میں اس وقت گیس کی مجموعی پیداوار 4  ارب 20 کروڑ کیوبک فٹ اور تیل کی پیداوار 70 ہزار بیرل یومیہ ہے۔  یقین مانیں کہ اگر پاکستان میں گیس اور تیل کے ذخائر کا بروقت کھوج لگایا جاتا تو آج ملک توانائی کے شدید بحران کا شکار نہ ہوتا۔ اب جبکہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو نئی حکومت ملنے والی ہے تو اس وقت اسے جن چیلنجز کا سامنا ہے  ان میں مالی ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے جنوبی ایشیا کی یہ ریاست، جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، مالی ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔  یہ ممکنہ بحران اس ملک کی کرنسی یعنی پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہو سکتا ہے  اور یوں پاکستان کی اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے مالی ادائیگیاں کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں بے تحاشا خسارہ ہے۔ بہت مہنگی درآمدات کی جا رہی ہیں جنہیں اس ملک کی ضرورت بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ برآمدات میں اضافہ غیر تسلی بخش ہے جو گھٹتے گھٹتے دم توڑتا جا رہا ہے۔  زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا بہت بڑا چیلنج سامنے موجود ہے۔

روپے کی قدر میں کمی جیسا چیلنج بھی موجود ہے اور سب سے اہم یہ کہ پچھلے 5 سالوں کی غلطیاں ہمارے سامنے پڑی ہیں۔  ہم نے پچھلے 5,4 سالوں میں بلاسوچے سمجھے نئے قرضے لیے۔  اب ان قرضوں کی واپسی کا وقت ہے لیکن ہمارے پاس اب زرمبادلہ کے اتنے ذخائر تو ہیں نہیں کہ ہم یہ قرضے واپس کر سکیں۔ اربوں ڈالر مالیت کے یہ قرضے واپس تو کیے ہی جانا ہیں اور پاکستانی ریاست کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے  کہ ان قرضوں کی واپسی ممکن کیسے ہو گی؟

ان تمام مسائل کے بعد میں یہ نہیں کہتا کہ آنے والی حکومت اپنے دعوئوں سے پھر جائے گی،  یا اس سے پاکستان کی معیشت ہینڈل نہیں ہو گی۔  ہمیں یقین کامل ہونا چاہیے کہ عمران خان کی ٹیم جیسی بھی ہو گی مگر یہ پہلوئوں سے بہتر ہی کام کرے گی۔ اور ملک کو مسائل سے نکالنے میں دن رات کام کرے گی۔ اور اگلے 5 سالوں میں عوام ضرور خود فیصلہ کریں گے کہ کیا تحریک انصاف نے ڈلیور کیا ہے یا نہیں؟

No comments.

Leave a Reply