بی اے پی نے جام کمال کو بعد بلوچستان وزیر اعلی کے لیے نامزد کر دیا گیا

بلوچستان کے متوقع وزیر اعلیٰ جام کمال

بلوچستان کے متوقع وزیر اعلیٰ جام کمال

کوئٹہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

جام کمال بالآخر کافی کھینچا تانی کے بعد Balochistan Awami Party کے پارلیمانی لیڈر منتخب ہو گئے جبکہ سابق وزیر اعلی Abdul Quddus Bizenjo کو بی اے پی کے پارلیمانی گروپ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی کیلئے نامزد کر دیا Jam Kamal  پارلیمانی لیڈر منتخب ہونے کے بعد وزارت اعلی کے بھی امیدوار ہوں گے۔ بلوچستان میں حکومت سازی کا مرحلہ تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔ Balochistan Awami Party 50 نشستوں میں سے 4 independent candidate کی شمولیت کے بعد 19 کے ارکان کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ اے این پی 3، بی این پی عوامی 2 اور Hazara Democratic Party 2 پہلے ہی حکومت سازی کیلئے اس کی حمایت کر چکی ہیں، اسی طرح تحریک انصاف ایک independent candidate اسمبلی Nawabzada Mir Naimatullah Zehri کی شمولیت کے بعد 6 ارکان کے ساتھ بی اے پی کی حمایت کر رہی ہے۔  خواتین کی 11 اور اقلیت کی 3 نشستوں کی تقسیم کے علاوہ 50 نشستوں میں سے 32 ارکان کی حمایت سے واضح ہو گیا ہے کہ بلوچستان میں آئندہ حکومت Jam Kamal  کی سربراہی میں قائم ہونے جا رہی ہے۔

Balochistan Awami Party کے دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً Balochistan National Party (Mengal) کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے جو کہ Muttahida Majlis-e-Amal کے 8 ارکان کو ساتھ لے کر حکومت سازی کیلئے مذاکراتی عمل میں شامل ہے۔ Balochistan Awami Party کے سربراہ اور پارلیمانی لیڈر Jam Kamal کو پارٹی کے اندر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اب ان کیلئے اگلا مرحلہ وزارتوں کی تقسیم کا نظر آ رہا ہے جس کیلئے ان کی جماعت کے پارلیمانی گروپ میں تقریباً ہر رکن جدوجہد کر رہا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق یوں نظر آتا ہے کہ وزارتوں کی تقسیم اور ان کیلئے نامزدگی کا مرحلہ بھی Jam Kamal کیلئے انتہائی مشکل ہو گا۔ پسند کی وزارت نہ ملنے والے اور اس میں جو ارکان وزارتوں سے رہ جائیں گے ان کی ناراضگی فطری عمل ہو گا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ Balochistan National Party (Mengal) کے سربراہ Sardar Akhtar Jan Mengal کا سیاسی قد اس تمام صورتحال میں بڑھا ہے۔ انہوں نے جس طرح سے اپنی سیاسی پختگی اور بلوچستان کے ایشوز کو فوکس کیا ہے وہ ان کی سیاسی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ Sardar Akhtar Jan Mengal نے تحریک انصاف کے سربراہ اور آئندہ کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا  اسے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں پذیرائی ملی ہے۔ اب جبکہ ان کی جماعت بلوچستان میں حکومت میں آنے یا نہ آنے سے متعلق مذاکرات چل رہے ہیں وہ بھی ان کی جماعت کے بعض ایسے Junior members کے دبائو کی وجہ سے جن کا موقف ہے کہ اپوزیشن بہت ہو گئی لہذا اقتدار میں آ کر عوام کیلئے کچھ کیا جائے؟ جبکہ پارٹی کی سینئر قیادت کا موقف اس کے برعکس ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق Balochistan National Party (Mengal)نے حکومت سازی کے حوالے سے اپنی اتحادی جماعت Muttahida Majlis-e-Amal (جے یو آئی) (ف) کو جس طرح سے اپنے ساتھ رکھا ہے وہ بھی ان کی سیاسی پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے  جو کہ صوبے کی سیاست میں ایک اعلی مثال قائم ہو گئی ہے۔  ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت سازی کے حوالے سے  Balochistan National Party (Mengal)کیا فیصلہ کرتی ہے  وہ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گی یقیناً یہ فیصلہ اس کی مستقبل کی سیاست پر اثر انداز ہو گا؟۔

سیاسی مبصرین کے مطابق Balochistan National Party (Mengal) اور Muttahida Majlis-e-Amal اگر بلوچستان میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو Jam Kamal کی سربراہی میں بننے والی مخلوط حکومت کو ایک مضبوط اور ٹف اپوزیشن کا سامنا ہو گا۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی جو کہ ابھی نومولود سیاسی جماعت ہے  اور اس میں اکثر وہ چہرے دوبارہ منتخب ہو کر آئے ہیں جو کہ نظریاتی نہیں اور اس جماعت میں اپنے مفادات کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں آگے چل کر ان میں بہت سے جام کمال کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے بھی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس سے متحدہ اپوزیشن کو بھرپور سپورٹ ملے گی؟۔ اگر ایسی صورتحال بن گئی تو Jam Kamal کی مخلوط حکومت کو کم عرصے میں ہی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے؟۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق جس طرح سے مرکز میں بننے والی حکومت کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ کمزور ہو گی اسی طرح بلوچستان میں بھی Balochistan National Party (Mengal) اور Muttahida Majlis-e-Amal کو نکال کر حکومت بنتی ہے تو یہ پچ بیٹسمینوں کے بجائے بائولرز کو کافی مدد فراہم کرے گی جو کہ جلد ہی وکٹیں گرائیں گے۔  سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جام کمال اور ان کی جماعت کے بعض سینئر رہنما اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں  اسی لئے انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی پارٹیوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے  اور سب کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق 18 ویں ترمیم کے بعد آئینی طور پر 14 وزیر اور 5 مشیر ہوں گے۔ مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں کو مطمئن کرنا ایک مشکل کام ہو گا جہاں نئے وزیر اعلی کو اپنی جماعت کے ارکان کو خوش و مطمئن کرنا ہو گا وہاں اتحادیوں اور آزاد ارکان کو جنہوں نے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کی ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ ٹیم کے کپتان کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اور کس طرح سے بائولرز کو مدد دینے والی پچ پر بیٹنگ کرتے ہیں اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی ٹیم کے وہ سینئر کھلاڑی جو کہ اچھی سیاسی بیٹنگ میں مشہور ہیں وہ ان کا کس حد تک ساتھ دیتے ہیں اگر وہ میچ فکسنگ نہیں کرتے اور اپنی جماعت اور جام کمال کیلئے اچھی اننگز کھیلتے ہیں تو پھر جام کمال کی ٹیم بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

No comments.

Leave a Reply