ملک میں وفاقی و صوبائی سطح پر حکومت سازی کا عمل اہم مرحلے میں داخل

وزات عظمی کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے درمیان مقابلہ ہو گا

وزات عظمی کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے درمیان مقابلہ ہو گا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

ملک میں وفاقی و صوبائی سطح پر حکومت سازی کا عمل اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور حکومت سازی کا یہ عمل اگلے چند روز میں مکمل ہو جائے گا۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر سے بچنے کیلئے 20 سے زائد نشستوں پر کامیابی کے نوٹیفکیشن روکنے کا معاملہ نمٹانا اہمیت اختیار کر گیا ہے  کیونکہ حکومت سازی کیلئے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں زیادہ نشستوں کے ساتھ سامنے آنے والی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنے اپنے پارلیمانی  رہنمائوںکا متفقہ طور پر اعلان کیا جا چکا ہے  جبکہ صوبائی سطح پر بھی پارلیمانی رہنمائوںکی نامزدگیاں کرنے کیلئے جلد اجلاس بلائے جا رہے ہیں۔ وفاق کیلئے دونوں جماعتوں کی جانب سے بلائے جانے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں کے مطابق  آئندہ چند روز میں وزات عظمی کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے درمیان مقابلہ ہو گا۔  تحریک انصاف چونکہ اکثریتی جماعت ہے اور وہ اپنے اتحادیوں کی مدد سے نمبر گیم پوری کر چکی ہے  جس کیلئے پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کے علاوہ MQM، مسلم لیگ (ق) سمیت دیگر جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو متحدہ اپوزیشن کی حمایت حاصل ہے اور شہباز شریف کو پہلے پیپلز پارٹی، MMA اور اے این پی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل قائم ہونے والی متحدہ اپوزیشن نے متفقہ طور پر وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کیا اس کے بعد شہباز شریف کو ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے پارلیمانی لیڈر نامزد کیا، یہی نہیں بلکہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر سمیت دیگر عہدوں کیلئے بھی دونوں طرف سے نام سامنے آ رہے ہیں  اور توقع کی جا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جلد کامیاب امیدواروں کے سرکاری نوٹیفکیشن جاری کر دیئے جائیں گے جس کے بعد نومنتخب اراکین پارلیمنٹ حلف اٹھائیں گے۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ان اراکین سے حلف لیں گے جس کے بعد سپیکر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور پھر وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا جس کیلئے پچھلے 10 روز سے جوڑ توڑ جاری ہے۔ نمبر پورے ہونے کے دعوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) میں فارورڈ بلاک کی باتیں بھی ہو رہی ہیں تو کہیں اپوزیشن کو توڑنے اوراس اتحاد کو اختلافات کی نذر کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کی جانب سے احتساب عمل کی حالیہ لہرکو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اسے سیاسی مقاصد کے حصول کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے،  پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف ایف آئی اے کی کاروائی کو بھی حالیہ سیاسی صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے  لیکن آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ آرٹیکل 63 اے فارورڈ بلاک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ خلاف ورزی کے مرتکب اراکین اپنی نشستیں کھو بیٹھیں گے اور آئین کی رٹ قائم رکھنے کے حوالے سے یہ ریاست کا بھی امتحان ہو گا کہ وہ اس آرٹیکل پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے کیا کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ تمام بدگمانیوں و خدشات اور دعووں کو انتخابات کے حوالے سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور کامیابی کے ساتھ عام انتخابات منعقد ہو گئے،  اسی طرح اگلہ مرحلہ بھی جلد کامیابی سے مکمل ہو جائے گا اور نومنتخب وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف لے کر باقاعدہ طور پر اقتدار سنبھال لیں گے اور اپنی کابینہ تشکیل دیں گے۔

نمبر گیم کے حساب سے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی برتری واضع نظر آ رہی ہے مگر میاں شہباز شریف کو اگر متحدہ اپوزیشن کی جانب سے بھرپور ووٹ ملتے ہیں تو پھر مقابلہ ہو گا اور نومنتخب وزیر اعظم کی جیت کا فرق بہت زیادہ نہیں ہو گا۔ دوسری جانب سپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزارت عظمی کے انتخاب کے بعد اگر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی متفقہ طور پر متحدہ اپوزیشن کا آتا ہے تو اس صورت میں حکومت کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہو گا جو کہ نومنتخب حکومت کو درپیش معاشی، مالی، خارجہ اور داخلی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑا چیلنج ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply