صدر اردگان اور ٹرمپ

ترکی صدر اردگان اور یو ایس صدر ڈونلڈ ٹرمپ

ترکی صدر اردگان اور یو ایس صدر ڈونلڈ ٹرمپ

نیوز ٹائم

ترکی اور پاکستان، امریکہ کے دو ایسے اتحادی ممالک ہیں جن کی امریکہ کے ساتھ دوستی اونچ نیچ کا شکار رہتی ہے۔ دونوں ممالک (ترکی اور پاکستان) کی آپس کی دوستی تو دنیا بھر میں مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے لیکن دونوں ہمیشہ ہی سے امریکہ کے دبائو میں رہے ہیں اور امریکہ نے بھی ان ممالک کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے اور بعد حالات رحم و کرم پر چھوڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے ان دونوں ممالک کے دفاع کو مضبوط بنانے میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے امریکہ نے ان دونوں ممالک کی افواج پر طویل عرصے اپنی گرفت بھی قائم کئے رکھی اور ان دونوں ممالک میں مارشل لا لگنے کی صورت میں فوجی انتظامیہ کا کھل کر ساتھ دیا جس کے نتیجے میں ان ممالک پر امریکہ کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی  کیونکہ امریکہ کے لئے ان دونوں ممالک میں سویلین حکومت کی بجائے فوجی حکومت کے ذریعے گرفت قائم رکھنا زیادہ آسان تھا۔

ترکی میں اردگان  دور سے قبل تک سویلین حکومت ہونے کے باوجود فوج کی تقریباً تمام ہی شعبوں میں مکمل گرفت تھی اور امریکہ بھی ترکی کی فوج کے اس رول سے بہت خوش تھا  البتہ 1974ء میں Cyprus war کے دوران جس میں ترکی نے Cyprus Turkish کو Cyprus Greeks کے ظلم و ستم سے بچا کر آزاد کروایا تھا،  اس دور میں تھوڑے عرصے کے دوران پہلی بار امریکہ کی جانب سے ترکی پر پابندیاں عائد کی گئیں  اور ترکی کو اسلحے کی ترسیل روک دی گئی لیکن اس کے بعد امریکہ اور ترکی کے تعلقات پرانی ڈگر پر واپس آ گئے اور ترک فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں امریکہ نے کھل کر مدد کی اور نیٹو میں اسے امریکہ کے بعد ایک اہم ملک کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔ ایک جدید اور منظم ترک فوج نے Kenan Evren کے مارشل لا کے بعد پردے کے پیچھے رہتے ہوئے سویلین حکومتوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے اور حکومتیں گرانے کا سلسلہ جاری رکھا جو  اردگان دور تک جاری رہا اور 15 جولائی 2016ء کی ناکام منظم بغاوت سے قبل بھی دو بار فوج کی جانب سے  اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی۔ امریکہ نے سی آئی اے اور Fethullah Gülen کے ذریعے 15 جولائی 2016 ء کو  اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی جو آخری کوشش کی تھی  اسے  اردگان حکومت اور عوام نے مل کر ناکام بنا دیا تھا اور اس کے بعد ہی سے ترکی میں فوج کی سویلین حکومت پر گرفت ختم ہو کر رہ گئی اور صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد سے ترک فوج وزیر دفاع کی نگرانی میں اپنے فرائض بڑے احسن طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔

ترکی میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد صدر  اردگان کی عوام کی تائید اور حمایت سے پوزیشن بڑی مضبوط ہو چکی ہے  اور وہ ترکی کے تمام اداروں پر مکمل طور پر دسترس رکھتے ہیں۔  انہوں نے 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے اس کے ذمہ دار Fethullah Gülen کو ترکی کے حوالے کرنے  اور اس میں ملوث تمام افراد کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔  اردگان کے اسی مطالبے اور کریک ڈائون کی وجہ سے ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی،  جس میں اس وقت زیادہ اضافہ دیکھا گیا جب ترکی نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل میں اپنے سفارت خانے کو Tel Aviv سے Al-Quds منتقل کرنے کا فیصلہ کیا  اور ترکی نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے اس فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ جنرل اسمبلی میں قراداد منظور کروا کر امریکہ کو دنیا میں تنہا کر دیا۔ صدر  اردگان امریکہ کی شام سے متعلق دوغلی پالیسی اور خاص طور پر ترکی کی دہشت گرد تنظیموں PKK ، PYD اور YPG کی پشت پناہی کرنے پر بھی شدید برہم ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر کو متنبہ کرتے ہوئے اس دوغلی پالیسی سے باز آنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے سے بھی آگاہ کیا ہے۔

ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں سلگتی ہوئی آگ نے اب شدت اختیار کر لی ہے اور اس آگ کو ہوا دینے میں امریکہ کے صدر سمیت اعلی حکام کا بڑا ہاتھ ہے۔ ترکی میں دہشت گرد تنظیم PKK کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار امریکی pastor Andrew Brunson جن پر Azmir کی ایک عدالت میں دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے اور ریاست کے رازوں کی جاسوسی کرنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ Andrew Brunson کی رہائی کیلئے امریکی دبائو سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نہایت خراب سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ چند روز قبل تک امریکہ نے ترکی کو دھمکیاں دیتے ہوئے واضح پیغام دے دیا کہ اگر اس نے پادری کو رہا نہ کیا تو ترکی پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکہ کے نائب صدر Mike Pence نے ترک حکام کو خبردار کیا اور بعد میں رہی سہی کسر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ امریکہ ایک بہت ہی اہم عیسائی خاندان سے تعلق رکھنے والے اور بہت ہی اچھے انسان Andrew Brunson کو طویل عرصے قید کی سزا کی صورت میں ترکی پر فوری طور پر پابندیوں عائد کرے گا اور صدر ٹرمپ نے ایسا ہی کیا۔

اپنے بیان کے فورا بعد ہی ترکی کے Minister of Justice Abdul Hameed Gul اور Interior Minister Süleyman Soylu پر امریکہ میں موجود اثاثوں (دونوں وزرا کا کوئی اثاثہ یا لین دین امریکہ میں نہیں ہے( اور لین دین پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا  جس پر ترکی نے بھی امریکہ کے ایک سپر پاور ملک ہونے کی پروا کئے بغیر  امریکہ کے وزیر انصاف اور وزیر داخلہ پر ترکی میں موجود اثاثوں پر پابندی لگاتے ہوئے اسی ٹون میں جواب دیا۔  ترک صدر  اردگان نے ان پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترکی قانون کی پاسداری کرنے والا ملک ہے  اور قانون کے مطابق ہی ترک عدلیہ امریکی pastor Andrew Brunson کا فیصلہ کرے گی۔  انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ترکی کا اتحادی ہونے کے باوجود  ازمیر میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کئے جانے والے پ pastor Andrew Brunson کی رہائی کے لیے دبائو ڈالنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے  وہ کسی بھی صورت اسے زیب نہیں دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ترکی کے دو وزرا کے اثاثوں پر پابندی لگاتے ہوئے ہمیں بھی جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔  اسی لئے ہم نے بھی امریکہ کے وزیر انصاف اور وزیر داخلہ کے ترکی میں موجود اثاثوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر  اردگان نے کہا کہ دراصل صدر ٹرمپ سے کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ہمیں اس کے بارے میں بھی خبر ہے۔ صدر ٹرمپ کو امریکی مفادات کی خاطر اس کھیل کا پتہ چلانے اور اسے فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ امریکہ ہی کو اس کا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔

امریکہ پہلے بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ترکی کی پیٹھ پر چھرا گھونپنے کی کوشش کر چکا ہے اور اب امریکی pastor Andrew Brunson کی رہائی کی خاطر اٹھائے جانے والے اقدامات دونوں ممالک کی مشترکہ اسٹرٹیجی کے منافی ہیں۔ امریکہ نے یکطرفہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی پروا کئے بغیر جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ ترکی کو نیچا دکھانے کے مترادف ہیں لیکن ترکی کو ان حربوں اور ہتھکنڈوں سے زیر نہیں کیا جا سکتا، اور ٹرمپ اس طرح ایک بہت بڑی چال میں پھنس چکے ہیں۔ صدر  اردگان نے صدر ٹرمپ کو اس قسم کے اقدامات سے باز آنے اور مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امریکہ اپنے اتحادیوں سے دور ہو کر تنہائی کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply