ایران کے خلاف عالمی ایکشن گروپ کا قیام، بھارت کا ایران سے تیل کی خریداری 50% کم کرنے پر غور

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو

واشنگٹن، نئی دہلی ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی حکومت نے ایران پر دبائو بڑھانے اور تہران کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے ممالک پر روک لگانے کے لیے دیگر اتحادیوں اشتراک سے نیا ایکشن گروپ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ العربیہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ Mike Pompeo نے ایران پر اقتصادی اور سفارتی دبائو بڑھانے کے لیے ایک نئی اور اعلی سطح کی ٹیم کا اعلان کیا ہے جس کا نام ایران ایکشن گروپ رکھا گیا ہے۔ ایران ایکشن گروپ تہران کے رویے کو تبدیل کرنے اور اس کے ساتھ تجارت کرنے والے دیگر ممالک پر پابندیاں لگانے کے لیے واشنگٹن کی زیادہ سے زیادہ دبائو کی حکمت عملی پر کام کرے گا۔اس گروپ کی قیادت Brian Hook ایران کے لیے محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندہ کے حیثیت سے کریں گے۔

Mike Pompeo کا اس بارے میں کہنا تھا کہ تقریبا 40 سال سے تہران کی حکومت، ہمارے اتحادیوں، ہمارے شراکتداروں اور ایرانی عوام کے خلاف تشدد کو ہوا دینے اور غیر مستحکم کرنے والے رویے کی ذمہ دار ہے۔ Mike Pompeo و نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ بہت جلد ایک دن ہم ایران کے ساتھ نیا معاہدے کریں گے،  لیکن ہم ایرانی حکومت کے رویے میں اندرونی اور بیرونی طور پر بڑی تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔امریکا جو تبدیلیاں ایران میں دیکھنا چاہتا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے جن میں شامی حکومت اور حزب اللہ کی حمایت بند کرنا، جوہری پروگرام کی بندش، قید امریکیوں کی رہائی شامل، دہشت گردی کی معاونت روکنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور مداخلت بند کرنا ہے۔

Brian Hook کا کہنا ہے کہ یہ ٹیم ایرانی رویے کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط عالمی کوشش پر کاربند ہے۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ ہم دنیا بھر میں ہمارے اتحادیوں اور شراکتداروں کے ساتھ قریبی مطابقت چاہتے ہیں۔Brian Hook نے یہ بھی کہا کہ امریکا، ایران پر اقتصادی دبائو بڑھانے کے لیے دیگر ممالک کو ساتھ ملانے کے لیے کوشش بڑھا رہا ہے۔ اس اقتصادی دبائو میں ایران کی تیل کی تجارت کا کریک ڈائون، فنانشل سیکٹر اور شپنگ کی صنعت شامل ہے۔ہمارا مقصد ہر ملک میں ایرانی تیل کی درآمد کو کم کر کے 4 نومبر تک صفر پر لانا ہے۔خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والے ممالک کو خبردار کیا تھا۔

بھارت کا ایران سے تیل کی خریداری 50% کم کرنے پر غور

بھارت کا ایران سے تیل کی خریداری 50% کم کرنے پر غور

بھارت جو ایران کے خام تیل کا دوسرا بڑا خریدار ہے، ایران سے اپنی درآمدات کو نصف کر دینے پر غور کر رہا ہے تا کہ تہران کے ساتھ لین دین کے حوالے سے امریکا سے استثنیٰ حاصل کر سکے۔بلومبرگ نیوز ایجنسی نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی عہدے داران نے گزشتہ ماہ نئی دہلی میں ہونے والی بات چیت میں واشنگٹن کی جانب سے مشروط رعایت کے معاملے پر بحث کی تھی۔ مذکورہ عہدے داران نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ یہ بات چیت خفیہ نوعیت کی تھی جس میں بھارت نے واضح کیا تھا کہ وہ ایران سے اپنی درآمدات کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ تہران سے تیل کی مصنوعات اچھے نرخوں پر حاصل کی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ ایران کی تیل کی تمام برآمدات کو پابندیوں کی لپیٹ میں لینا چاہتی ہے تاہم بھارت اور چین جیسے ملکوں کے اعتراض کی روشنی میں توقع ہے کہ واشنگٹن ان ممالک کے ساتھ سمجھوتے تک پہنچ جائے گا۔ اس کے تحت نومبر میں تہران کے خلاف توانائی کے سیکٹر پر پابندیاں عائد ہونے پر یہ ممالک ایران سے اپنی درآمدات 50% کم کر دیں گے۔

جاپان اور جنوبی کوریا پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نومبر میں پابندیوں کے دوسرے مرحلے کے لاگو ہونے کے ساتھ ہی ایرانی تیل کی خرید روک دیں گے۔  البتہ یورپی ممالک کو اس پر قائل کرنے کے سلسلے میں امریکا کو مشکل کا سامنا ہے۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ امریکا ان ملکوں کو علیحدہ طور پر اس بات پر زور دے گا کہ وہ ایرانی تیل کی درآمدات کا ایک بڑا حصہ کم کر دیں  جو ایران کی دم توڑتی معیشت کے لیے ایک کاری ضرب ثابت ہو گا۔ رواں برس مئی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے اعلان کے بعد بھی بھارت نے ایران سے تیل کی درآمدات کا سلسلہ جاری رکھا۔ مختلف تخمینوں کے مطابق بھارت نے 12 ماہ کے دوران ایران سے 2.26 کروڑ ٹن تیل درآمد کیا جبکہ گزشتہ برس یہ حجم 2.72 کروڑ ٹن تھا۔

No comments.

Leave a Reply