وکیل مائیکل کوہین کی کہانی سے صدر ٹرمپ کا مواخذہ ممکن ہو گیا ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

نیوز ٹائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک وکیل Michael Cohen اور ان کی صدارتی مہم کے چئیرمین Paul Manafort پر ایک عدالت میں فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد یہ عمومی سوال کیا جا رہا ہے  کہ کیا اس سے خود صدر ٹرمپ کا مواخذہ ممکن ہو گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں پر فرد جرم سے صدر ٹرمپ کے مواخذے کی راہ ہموار نہیں ہو گئی ہے  کیونکہ وہ دونوں اتنی اہمیت کے حامل نہیں کہ محض ان کی بنا پر ایک امریکی صدر کا مواخذہ کر دیا جائے۔  Paul Manafort کو ورغلایا گیا تھا اور ان کے ارد گرد خصوصی وکیل Robert Muller کی ٹیم کا گھیرا تھا۔ Robert Muller امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت کا معاملہ دیکھ رہے تھے  اور وہ یہ تحقیقات کر رہے تھے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم اور روس کے درمیان کوئی تعلق داری تھی۔ اس ضمن میں تحقیقات سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا تھا۔ البتہ Paul Manafort پر ٹیکس سے بچائو اور بنک فراڈ سمیت 8 الزامات میں فرد جرم عائد کر دی گئی تھی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی مہم کا ان کے مسائل اور بدعنوانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے ٹرمپ کو اس معاملے میں نہیں کھینچا جا سکتا۔ ایسی صورت میں صدر اپنے ہی حق میں ایک معافی نامہ بھی جاری کر سکتے ہیں۔

جہاں تک ٹر مپ کے وکیل Michael Cohen کا تعلق ہے تو ان پر 5 الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ ان میں دو کا تعلق ٹیکس اور بنک فراڈ سے ہے جبکہ دو کا تعلق صدارتی مہم کے لیے رقوم کی ادائیگی میں قوانین کی خلاف ورزی سے ہے۔ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک اور کیس میں بھی ملوث ہیں۔ یہ Stormy Daniels اور Karen McDonald کو 130000 ڈالرز اور 150000 ڈالرز کی ادائیگی سے متعلق ہے۔ یہ رقوم انھیں مبینہ طور پر صدر ٹرمپ سے ان کے ناجائز تعلق کے بارے میں بند رکھنے کے لیے ادا کی گئی تھیں۔ Michael Cohen نے اعتراف کیا تھا کہ انھیں خود ٹرمپ نے یہ رقم ادا کرنے کے لیے کہا تھا  حالانکہ وہ خود پہلے کچھ عرصے تک ان عورتوں سے تعلق کی تردید کرتے رہے تھے۔ یہ ایک زیادہ سنجیدہ کیس ضرور ہے لیکن یہ اتنا بڑا بھی نہیں کہ اس کی وجہ سے صدر کو ان کے دفتر سے نکال باہر کیا جائے۔ اگر ڈیمو کریٹس ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کر لیں تو پھر بھی وہ صدر ٹرمپ کا مواخذہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ انھیں سینیٹ میں مواخذے کی قرارداد کی منظوری کے لیے دو تہائی ووٹ درکار ہوں گے اور ایسا امریکا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ حزبِ اختلاف کو کسی صدر کے خلاف مواخذے کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل ہو گئی ہو۔

اب تک امریکا کے 45 صدور میں سے صرف 2 کے خلاف مواخذے کا  جوہری  ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔  یہ دو بل کلنٹن اور اینڈریو جانسن تھے۔ صدر Bill Clinton کا Monica Lewinsky سے ناجائز تعلق پر مواخذہ کیا گیا تھا۔صدر Andrew Johnson نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیرِ جنگ Edwin Stanton کو تبدیل کر دیا تھا۔ ان دونوں کیسوں میں مواخذے کا عمل ناکام رہا تھا۔ صدر Nixon نے واٹر گیٹ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے بعد استعفا دے دیا تھا اور ان کا مواخذہ نہیں ہو سکا تھا۔  امریکی آئین اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اس میں ایک صدر کو اس کے عہدے سے ہٹانا بہت ہی مشکل ہے تاکہ سیاسی نظام میں استحکام برقرار رہے۔ صدر ٹرمپ کے مواخذے کا کیس ایک سے زیادہ وجوہ کی بنا پر کوئی زیادہ خطرناک نہیں۔ اول، یہ معاملہ اس وقت پیش آیا تھا جب وہ ابھی صدر منتخب نہیں ہوئے تھے یعنی صدارتی مہم کے دوران مذکورہ بالا دونوں عورتوں کو خاموش کرانے کے لیے رقم ادا کی گئی تھی لیکن ان کے ساتھ مبینہ معاشقے کا تعلق 2006ء سے ہے۔

دوئم، ادا شدہ رقم کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ انھوں نے یہ اپنی جیبِ خاص سے دی تھی  اور صدارتی مہم کے لیے رقم کو اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا تھا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ انتخابی مہم کے قانون کی خلاف ورزی ہوتی۔ چنانچہ اب ہم ایک طویل قانونی جنگ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ سوئم، Michael Cohen کی شہرت ان کی بدعنوانیوں کی وجہ سے داغ دار ہے،  وہ اپنے بیانات بدلتے رہتے ہیں اور ان کا کردار بھی ایک سا نہیں رہتا۔ ایک مرتبہ انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے گولی بھی کھا سکتے ہیں لیکن پھر انھوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا اور جب ہیلسنکی میں صدر ٹرمپ کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ مودبانہ انداز میں کھڑے دیکھا تو پھر ان کے بارے میں حقائق کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کر لیا۔

وہ ایک ایسے شاطر اور دھوکے باز وکیل کی طرح ہیں جو قانونی مقدمات میں اپنے کان کھڑے رکھتا ہے مگر پھر وہ اچانک ایک محب وطن شخصیت بن جاتا ہے۔ ایک ناقابل اعتبار اور فریب زدہ وکیل کے بیان پر انحصار کر کے صدر کو ان کے دفتر سے نکال باہر کرنا بہت مشکل ہے۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دھڑن تختہ نہیں کیا جا سکے گا۔ ایسا کرنے کے لیے ایک شدید طوفان درکار ہے اور یہ تو صرف ایک بگولا ہے۔ ٹرمپ ایک بلی کی طرح ہیں۔  وہ ایک کے بعد دوسری چھلانگ لگاتے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کے مواخذے کی باتیں انھیں فائدہ پہنچائیں گی اور ان سے ان کے ڈیموکریٹ حریفوں کو نقصان پہنچے گا۔

یہی سبب ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں اقلیتی لیڈر، تجربے کار سیاستدان  Nancy Pelosi نے اپنے ساتھی ڈیمو کریٹس کو خبردار کیا ہے کہ وہ مواخذے سے متعلق بیان بازی سے گریز کریں  کیونکہ اس طرح ری پبلکن بھی میدان میں آ جائیں گے اور وہ یہ سمجھیں گے  کہ ان کے لیڈر کو ایک گندی سازش کا سامنا ہے جس کا مقصد انھیں اقتدار سے نکال باہر کرنا ہے۔ چنانچہ وہ صدر کی اقتصادی کامیابیوں کے پیش نظر اپنی حمایت کا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیں گے۔

اسی تناظر میں صدر ٹرمپ نے فاکس نیوز کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر ان کا مواخذہ کیا جاتا ہے تو پھر ملکی معیشت دھڑم سے نیچے آ گرے گی، اسٹاک مارکیٹ بیٹھ جائے گی اور غربت پھیل جائے گی۔ وہ اپنے مواخذے کا اس افراتفری اور خوف وہراس سے تعلق جوڑ رہے ہیں، جو اس کے نتیجے میں پھیلے گا۔ اس طرح وہ اپنے حامیوں کو بھی پیغام دے رہے ہیں۔ وہ آئندہ وسط مدتی انتخابات اور 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ایسا ہتھیار جس کا رخ صدر ٹرمپ کے سر کی جانب تھا، اب ان کے اپنے ہاتھ میں آ چکا ہے۔

No comments.

Leave a Reply