پاکستان کے آبی ذخائر اور موجودہ صورتحال

آبی مسائل کے حوالے سے پاکستان انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے

آبی مسائل کے حوالے سے پاکستان انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے

نیوز ٹائم

آبی مسائل کے حوالے سے پاکستان انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اس کی بڑی وجہ ذرائع آب کی کمی نہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک دشمن مافیا نے آبی وسائل کو بری طرح جکڑا ہوا ہے  جس کی وجہ سے بہترین آبی وسائل رکھنے والا پاکستان مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہو چکا ہے۔  عالمی اداروں اور ماہرین نے پاکستان کو Water Stressed کیلئے وارننگ دے دی ہے مگر ملک دشمن مافیا اتنی طاقتور ہے کہ وہ کسی کی چلنے نہیں دیتے  اور آبی وسائل کی فراہمی ہر نئے سال مشکل ترین مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ پچھلے سال پانی کی صورتحال قدرے بہتر تھی مگر مافیا نے اپنا کھیل کھیلا  اور فلڈ سیزن کے آخری دن یعنی 30 ستمبر کو پانی کی صورتحال مخدوش ہو چکی تھی۔ جس کی وجہ سے ربیع میں 36% کی شارٹیج ہوئی اور مارچ کے مہینے میں پانی کی زبردست تنگی پیدا ہوئی۔

پچھلے سال 16 اگست کو Tarbelaجھیل مکمل بھر چکی تھی اور اس میں 6.174 ملین ایکڑ فٹ پانی جمع تھا جبکہ Mangla ڈیم میں بھی پانی 6.855 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود تھا۔ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ Arsa میں بیٹھے ماہرین توجہ دیتے اور ان دونوں ڈیموں میں پانی کی سطح  فلڈ سیزن کے آخری دن یعنی 30 ستمبر تک زیادہ سے زیادہ رکھتے مگر پاکستانی اداروں میں چھائی مافیا کا اپنا کھیل تھا۔ چنانچہ 30 ستمبر کو Tarbela میں پانی 3.546MAF اور منگلا میں 4.608MAF پانی رہ گیا۔ جس پر Arsa نے 30 ستمبر کو پانی کی شارٹیج کی خبر سنا دی۔ اگر پانی کے ذمہ دار ادارے Tarbela جھیل کی سطح کو برقرار رکھتے جس کا ان کے پاس آپشن بھی موجود تھا  مگر انھوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی جس کی وجہ سے پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوتا رہا  اور فلڈ سیزن کے آخری دن شارٹیج کی خبر سننا پڑی۔ Rabi season کیلئے حقیقتاً 36% کی کمی ہوئی جس کی وجہ سے زرعی اجناس کی پیداوار میں بھی شدید کمی آئی۔

اس سال تو صورتحال مزید بگڑ چکی ہے۔ 28 اگست کو Tarbela جھیل پانی سے مکمل بھر چکی ہے اور اس میں 6.047 ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہے جبکہ Mangla Dam کی صورتحال انتہائی نازک ہے۔  ذرائع آب سے تعلق رکھنے والے تمام ماہرین جانتے ہیں کہ منگلا میں پانی کی آمد فروری کے درمیان سے شروع ہو جاتی ہے  جبکہ مئی کے درمیان دریائے سندھ میں پانی کی آمد شروع ہوتی ہے۔ Mangla Command سے تعلق رکھنے والا ایریا کافی زیادہ ہے۔ اس کے بیشتر ایریا کو Indus command سے پانی کی فراہمی کسی طور ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ Mangla Command میں پانی کا استعمال بڑی دیکھ بھال سے کیا جاتا ہے تاکہ Mangla Command کو تناسب سے پانی دستیاب ہو سکے۔ اس سال Arsa نے جس بے دردی سے Mangla Command کا پانی استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے Mangla Dam میں 28 اگست کو صرف 2.956MAF پانی رہ گیا ہے۔ یہ صورتحال Mangla Dam کے علاقوں کیلئے انتہائی خطرے کی گھنٹی ہے۔ sیوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نومبر میں اگلی فصل کیلئے بھی پانی دستیاب نہ ہو گا  جس کی وجہ سے آئندہ سال گندم کا بدترین قحط بھگتنے کیلئے ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہیے۔

خطرے کی اس گھنٹی سے بچنے کی واحد تدبیر باقی رہ گئی ہے کہ جس قدر ہو سکے Mangla Dam کے پانی پر انحصار کم کر دیا جائے  اور Tarbela کی سطح کو برقرار رکھنے کیلئے تمام ذرائع استعمال کئے جائیں۔ سمندر میں جانے والے پانی پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ Rabi کے سیزن میں پانی کی کمی کا عذاب نہ جھیلنا پڑے۔ نیشنل واٹر پالیسی کو پڑھنے کا موقع ملا۔ پالیسی بناتے وقت کل وسائل اور کل مسائل کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اور پھر مرحلہ وار ان مسائل پر قابو پانے کیلئے پلاننگ کی جاتی ہے۔ مگر Water Resources کی وزارت کے ذریعے بنائی جانے والی نیشنل واٹر پالیسی میں ایسی کوئی بات دیکھنے میں نظر نہیں آئی۔  پاکستان میں پانی دریائوں کے ذریعے سالانہ آمد کا تعین 140MAF کیا جاتا ہے جبکہ اوسطاً سالانہ 30 سے 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ دریائوں کے ذریعے آنے والے پانی کے علاوہ بارشی پانی بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ صرف ضلع لاہور میں 12 انچ اوسط کے حساب سے سالانہ 0.5MAF بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ اگر اس پانی کو استعمال کرنے کیلئے لائحہ عمل بنایا جائے تو نہ صرف لاہور میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ کراچی میں پینے کے پانی کی صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے۔ کراچی کی بیشتر آبادی سیم زدہ پانی پینے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے وہاں پیٹ اور جلد کی بیماریوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی پینے کے پانی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس بات سے کوئی لاگ نہیں کہ پاکستان کے مسائل کس طرح حل کرنے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے بڑی جرات کے ساتھ Kalabagh Dam سے متعلق کیس کو مسلسل ہیرنگ کیلئے چنا اور آبی وسائل کی بہتری کیلئے جرات مندانہ فیصلے کئے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے منظور شدہ دونوں ڈیموں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم بنانے کیلئے فنڈ قائم کرنے کا حکم جاری کیا  جس میں عوام کی بڑی تعداد نے رقوم بھی جمع کروائی ہیں۔ بلاشبہ کوئی بھی ڈیم پاکستان کے آبی وسائل میں بہتری لائے گا لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ مستقبل کے چیلنجز کیلئے ہمیں کونسا ڈیم پہلے بنانا ضروری ہے۔

عالمی ادارے اور ماہرین پاکستان کے آبی وسائل کیلئے 2025ء کو خطرے کی گھنٹی قرار دے چکے ہیں  جبکہ 2030ء پاکستان کے آبی وسائل کیلئے موت کے پروانے کی حیثیت رکھتا ہے۔  پاکستان کو بنجر بنانے کی بھارتی سازشیں بھی عروج پر جاری ہیں چنانچہ بھارت کے تعاون سے افغانستان میں دریائے کابل پر 12 ڈیم بنانے کے مرحلے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اگر ہم نے بروقت Kalabagh Dam نہ بنایا تو دریائے کابل کے پانی پر استحقاق کھو دیں گے۔ پھر Kalabagh Dam کے مخالفین سے ایک سوال بہت ضروری ہے کہ کوئی واٹر پالیسی بنائیں جس کے تحت دریائوں سے آنے والے 100% پانی کو مستعمل بنانے کی مکمل پلاننگ شامل ہو۔ اگر ماہرین اس بات پر متفق ہو جائیں کہ Kalabagh Dam بنانے بغیر کل آمدہ پانی کو مستعمل پانی نہیں بنایا جا سکتا تو ضروری ہے کہ Kalabagh Dam کو موخر رکھنے کی پالیسی پر قومی مفاد میں نظرثانی کی جائے۔

No comments.

Leave a Reply