اقوام متحدہ : امریکہ کے ہاتھوں یرغمال۔ چند بڑی طاقتوں کی تفریح گاہ

ہر سال ستمبر میں اس کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے

ہر سال ستمبر میں اس کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے

نیوز ٹائم

اقوام متحدہ بھی خوب ادارہ ہے۔ امریکہ کے ہاتھوں یرغمال۔ چند بڑی طاقتوں کی تفریح گاہ۔ مظلوم کشمیریوں سے پوچھ لیں۔ یو این او کی اوقات۔ ہر لمحہ جدوجہد میں مصروف فلسطینیوں کے لہو سے سوال کر لیں کہ اقوام متحدہ کیا ہے۔ وہ ادارہ جو 1948ء میں منظور کی گئی اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد میں ناکام رہا ہے۔ اس سے وفا کی کیا امید۔ اربوں ڈالر کے اخراجات ہیں۔ مگر جن چھوٹی قوموں کے لیے یہ تشکیل دی گئی تھی ان کے مسائل ہی حل نہیں ہوتے۔ کبھی کسی جارح کا ہاتھ نہیں روک سکی۔ سیکورٹی کونسل میں بڑی طاقتوں کو ویٹو کا اختیار ملا ہوا ہے۔ ان کی پسند کی بات نہ ہو تو وہ سر ہلا دیتے ہیں۔ باقی ارکان سر جھکا دیتے ہیں۔

ہر سال ستمبر میں اس کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے۔ تمام چھوٹے ممالک۔ مقروض ریاستیں۔ مجبور ممالک اس میں شرکت کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔ امریکہ یاترا کا سنہری موقع ملتا ہے۔ اس سفر پر کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ ہمیشہ صفر۔ sاپنے اپنے ملک کے میڈیا۔ ٹی وی۔ اخبارات میں ایسے خبریں نشر کرائی جاتی ہیں جیسے صدر یا وزیر اعظم تمام قوموں کو زیر کر کے آئے ہوں۔ ہمارے ہاں ہر سال خبر میں یہ نکتہ ضرور ہوتا ہے کہ صدر یا وزیر اعظم نے پوری دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر اٹھا دیا۔

اب یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس دورے کے لیے صرف 4 افراد کو لے جائیں گے۔ پہلے کی طرح پورا جہاز نہیں ہو گا۔ بہت بڑا وفد نہیں جائے گا۔  یہ اچھی بات ہے۔ میرے خیال میں تو خود وزیرا عظم کو بھی نہیں جانا چاہئے۔ملک کے اندر اتنے سنگین مسائل ہیں جو ضروری توجہ چاہتے ہیں۔  اقوام متحدہ میں ایک تقریر اور کچھ ایسے ہی مسائل سے دو، چار سربراہان مملکت سے ملاقاتوں سے کہیں زیادہ اہم پاکستان کی معیشت کو پٹری پر واپس لانا ہے۔ وزارتِ خارجہ کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ وہ نئی حکومت کے سربراہ کے لیے اس قسم کے مواقع میں شرکت۔ ان کے مثبت نتائج کی امکانی رپورٹیں دکھا کر انہیں غیر ملکی دوروں پر آمادہ کرتی ہے۔ خارجہ پالیسی کہیں اور طے ہوتی ہے۔ وزرائے اعظم سیر سپاٹے سے ہی خوش رہتے ہیں۔ پی آئی اے والوں کی بھی یہ روایت رہی ہے کہ جب کوئی نیا سربراہ آتا ہے۔ تو اسے ایئر ہوسٹوں کی نئی یونیفارم کے خوش نما معاملے میں مصروف کر دیتے ہیں۔  مختلف یونیفارموں کا مقابلہ حسن ہوتا ہے۔ ایم ڈی یا چیئرمین اپنے دائیں بائیں حسین پیکر دیکھ کر اپنے آپ کو راجہ اندر سمجھنے لگتا ہے۔ان دنوں ساری وزارتیں ایسی امکانی رپورٹیں تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

کئی دوسرے صحافیوں اور ایڈیٹروں کی طرح میں بھی اس گناہ میں شریک رہا ہوں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی رپورٹنگ کا بڑا اشتیاق رہا ہے۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے یہ یقینا اہم ہے کہ وقت سے مقابلہ ہوتا ہے۔  نیو یارک 10 گھنٹے پیچھے ہے۔ وہاں دن ہوتا ہے۔ یہاں اخبار پریس میں جانے والا ہوتا ہے۔ تقریر کس وقت ہوتی ہے اس کی خبر بنانا اور اپنے اخبار تک پہنچانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم پر قوم کا کتنا پیسہ خرچ ہوا ہے۔  جھوٹ اور ڈس انفارمیشن بھی ان ڈس پیچوں کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ، پاکستان کے مستقل مندوب کا پریس اٹیچی ہر لحظہ آپ کو خوش رکھنے کے لیے مشغول۔  اسی میں آپ سے خبر میں اپنی مرضی کے جملے بھی شامل کروا لیتا ہے۔

اب تک یہ دستور رہا ہے۔ اس کی کیا آئینی اور قانونی رموز ہو سکتی ہیں۔ یہ وزیر قانون اور وزیر خارجہ بتا سکتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم چارٹرڈ طیارہ لے کر جاتے رہے ہیں۔  صحافی بھی اسی سرکاری وفد کا حصہ ہوتے ہیں۔ صدر کمرشل فلائٹ سے جاتے ہیں۔  صحافیوں کو الگ سے مختلف پروازوں سے بھیجا جاتا ہے۔ یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ صحافی اپنے خرچ پر جا رہے ہیں۔  اپنے خرچ پر ٹھہر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے ساتھ جانے والے اسی ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔ جہاں وزیر اعظم قیام پذیر ہیں۔ نیو یارک میں پی آئی اے کا اپنا ایک ہوٹل ہے۔ بہت روایتی۔ بہت قیمتی اور مرکزی علاقے میں روز ویلٹ۔  زیادہ تر پاکستانی صدور اور وزیرا عظم یہیں ٹھہرتے رہے ہیں۔ لیکن بعض زیادہ پیسے والے صدر۔ وزیرا عظم کسی زیادہ مہنگے ہوٹل کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ وہ خرچہ یہ غریب پاکستان ہی برداشت کرتا ہے۔ اس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی کیا افادیت ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں تو اس کا یقینا فائدہ تھا کہ کمیونسٹ بلاک اور آزاد نیا بلاک کے ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف بولنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اب یہ زیادہ تر بے نتیجہ اور کار لا حاصل ہی نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کے صحت۔ تعلیم اور سماجی خدمات کے جو پروگرام ہیں اس سے بھی اس اجلاس کا کوئی خاص واسطہ نہیں ہوتا ہے  وہ تو مختلف ممالک سال بھر رابطے میں رہتے ہیں۔ بڑے تنازعات طے کرنے میں بھی اس اجلاس کا کوئی کردار نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جس خطاب کے لیے ایک ملک کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے اس کا عالم یہ ہوتا ہے۔  میں 1974ء سے دیکھتا آ رہا ہوں کہ مختلف ملکوں کے سربراہ اپنے وقت مقررہ پر تقریر کے لیے پہنچتے ہیں۔ ان کے وفد کے سرکاری ارکان ان کے ساتھ ہال میں مخصوص نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔  یہ سربراہ تقریر کر کے چلے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی اسٹاف بھی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک سربراہ کی تقریر سننے کے لیے دوسرے سربراہ بھی ہال میں موجود ہوں۔  مگر اپنے اپنے ملک میں اس تقریر کو عالمی سربراہوں سے خطاب بتایا جاتا ہے۔  پاکستان کے صدور۔ اور وزرائے اعظم کو ہم نے دیکھا کہ وہ جب تقریر کے لیے آئے تو کوئی سربراہ بھی نہیں تھا۔ اقوام متحدہ میں مستقل مندوبوں کا اسٹاف بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ ان تقریروں کے نکات بھی درج کرتا ہے یا نہیں یہاں اخبارات میں شہ سرخی ہوتی ہے۔ جھلکیاں بھی۔ غریب ہم وطن یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہمارے وزیر اعظم تقریر کر رہے تھے تو ان کے سامنے صدر امریکہ۔ وزیرا عظم برطانیہ۔ صدر چین۔ صدر فرانس۔ وزیر اعظم بھارت۔ سعودی شہنشاہ۔ ہمہ تن گوش ہوں گے۔  کیا زبردست تقریر کی ہے۔  کتنی جراتمندانہ۔ یہ خبر بھی اکثر چلائی جاتی ہے کہ جب ہمارے وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر اٹھایا تو بھارتی وفد ہال سے واک آئوٹ کر گیا۔ بے چارے پاکستانی اس واک آئوٹ کو اپنی فتح خیال کر لیتے ہیں۔ امریکہ کے اخبارات میں ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کی سنگل کالم خبر بھی نہیں چلتی۔

جنرل اسمبلی کے اجلاس کا ایک اور اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات کروائی جاتی ہے۔ اس کی تشہیر بھی خوب ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے صحافی کسی بڑی خبر کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک ڈرامہ ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہ اگر واقعی اپنے مسائل پر بات کر کے انہیں حل کرنا چاہتے ہیں۔ تو یہیں چند میل کا فاصلہ طے کر کے دہلی میں بیٹھ سکتے ہیں۔ یا اسلام آباد میں۔ جنوبی ایشیا کے معاملات طے کرنے کے لیے 10 ہزار میل دور جانا ضروری تو نہیں ہے۔ایسے ممالک جو اپنے شہریوں کی زندگی آسان بنائے۔ انہیں باعزت روزگار دینے۔ پینے کے لیے صاف پانی فراہم کرنے کے لیے حقیقت میں مخلص ہیں۔  وہ اس اجلاس میں رسمی شرکت کے لیے اپنی وزارتِ خارجہ کے چند افسر بھیج دیتے ہیں۔ سربراہان مملکت اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے حکومتی سربراہ جنہیں باگ ڈور سنبھالے ابھی 2 ماہ بھی نہیں ہوئے۔  وہ اس ڈرامے یا سرکس میں شرکت کے لیے وقت اور سرمایہ ضائع نہیں کرتے۔ کیونکہ ان سے سوال ہو سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply