صدر مملکت کے اختیارات کی کہانی

پاکستان کے نومنتخب صدر عارف علوی

پاکستان کے نومنتخب صدر عارف علوی

نیوز ٹائم

چودہ اگست 1973ء کو جب موجودہ آئین کو ملک میں نافذ کیا گیا تو آئین میں صدر مملکت کا عہدہ ایک نمائشی منصب تھا،  اصل اختیارات وزیر اعظم کے پاس تھے لیکن مارشل لا 1977ء کے بعد جب آئین بحال ہوا  تو اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق  نے آئین میں ترمیم کر کے صدر مملکت کو ایسے اختیارات دے دیئے جس کے بعد یہ نمائشی عہدہ ایک طاقتور منصب میں تبدیل ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کو  اسمبلی تحلیل کرنے، بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہ مقرر کرنے، صوبے کے گورنروں کو متعین کرنے اور نگران حکومت کی نامزدگی جیسے اختیارات عطا کر دئیے تھے۔ جنرل ضیاء نے 1988ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی تھی،  بعد ازاں صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق احمد خان لغاری کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو 2 مرتبہ جبکہ میاں محمد نواز شریف ایک بار صدارتی اختیارات کے شکار ہوئے۔ چنانچہ  1997ء میں میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے 13ویں ترمیم کے ذریعے ان اختیارات کو ختم کر دیا۔

پھر جنرل پرویز مشرف نے انہی اختیارات کو 2002ء میں بحال کر کے آئین میں شامل کر دیا،  حتی کہ جنرل مشرف کا ایوان اقتدار پر قبضہ ختم ہوا، ایک بار پھر جمہوری دور شروع ہوا،  بے نظیر بھٹو کے بعد عملاً پارٹی سربراہ آصف علی زرداری صدر مملکت منتخب ہوئے،  انھوں نے 18ویں آئینی ترمیم پر دستخط کرتے ہوئے متنازعہ اختیارات سے دستبردار ہو گئے۔ ان سے پہلے سردار فاروق احمد خان لغاری نے بھی 1997ء میں اسی طرح کے ایک بل پر دستخط کیے تھے جس کے بعد صدر مملکت کا طاقتور عہدہ ایک نمائشی منصب بن کے رہ گیا تھا۔

فرق یہ ہے کہ آصف علی زرداری اختیارات سے دسبردار ہوئے تھے لیکن فاروق احمد خان لغاری سے میاں نواز شریف نے دوسری بار وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد بزور دستخط کروائے تھے۔ اگرچہ 18ویں  ترمیم کی منظوری کے بعد صدر مملکت کا عہدہ نمائشی بن گیا تھا تاہم صدر آصف علی زرداری نے پارٹی چیئرمین ہونے کے سبب امور مملکت اس انداز میں اپنے ہاتھ میں رکھے  کہ ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ان کے تابع فرمان رہے۔2008 سے 2013ء  تک، پانچ برسوں کے دوران میں، کوئی ایک مرحلہ بھی ایسا نہ آیا جب بااختیار وزیر اعظم اور نمائشی صدر مملکت کے مابین ہلکا سا اختلاف بھی پیدا ہوا ہو۔

آئین پاکستان کی 45 سالہ تاریخ میں  چودھری Fazal Elahi ، Rafiq Tarar اور Mamoon Hussain ایسے صدر رہے ہیں جن کے پاس اختیارات نہیں تھے،  یہ تینوں صدور ایک نمائشی عہدے پر وفاق کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں، اس تاریخ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سردار فاروق لغاری اور آصف علی زرداری ان صدرو میں شامل ہیں جو بااختیار صدر سے نمائشی صدر بنے۔ اسی طرح ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جنرل پرویز مشرف واحد صدر تھے جن کے پاس اسمبلی توڑنے کا اختیار تھا لیکن انہوں نے اس اختیار کو استعمال نہیں کیا،  اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنی مدت صدارت کے دوران میں وزرائے اعظم کو اس طرح قابو کئے رکھا کہ وہ ان کے سامنے سر اٹھا نہ سکے۔ ان میں میر ظفر اللہ خان جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز شامل ہیں۔

آئیے! اس باب میں چند مزید دلچسپ حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں، جنرل ضیاء الحق پہلے فوجی صدر تھے جہنوں نے نہ صرف اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار کو متعارف کروایا بلکہ اسے پہلی بار 1988ء میں استعمال کیا۔ اسی اختیار کو سب سے زیادہ غلام اسحاق خان نے استعمال کیا، انھوں نے پہلے بیظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کی حکومت کو تحلیل کیا،  بینظیر بھٹو واحد وزیر اعظم تھیں جن کی حکومت اس صدارتی اختیار کا دوبار نشانہ بنی جبکہ نواز شریف واحد وزیر اعظم تھے  جن کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کر دیا۔ یہی بات بعد ازاں ایک طعنہ کے طور پر کہی جاتی رہی کہ سندھ سے تعلق رکھنے والا وزیر اعظم ہو تو اس کی حکومت اور اسمبلیاں بحال نہیں ہوتی لیکن وزیر اعظم پنجابی ہو تو قانون مختلف سلوک کرتا ہے۔ صدارتی اختیار کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد پہلی Caretaker کابینہ جنرل ضیاء نے تشکیل دی تاہم انھوں نے Caretaker وزیر اعظم کا تقرر نہیں کیا تھا جو اپنی نوعیت کا منفرد اقدام تھا۔ اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے Senate chairman Mohammad Mian Soomro کو Caretaker وزیر اعظم مقرر کر کے انوکھی روایت قائم کی تھی  جس کی پہلے سے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ صدر غلام اسحاق خان نے بیظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کر کے اس وقت کے قائد حزب اختلاف Ghulam Mustafa Jatoi کو، پھر نواز شریف کی حکومت ختم کر کے Mir Balakh Sher Khan Mazari کو Caretaker وزیر اعظم مقرر کیا۔ ان کی Caretaker کابینہ میں آصف علی زرداری بھی وزیر تھے۔ صدر فاروق لغاری نے بیظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر کے اپنے قریبی ساتھی Malik Meraaj Khalid کو Caretaker وزیر اعظم مقرر کیا۔

No comments.

Leave a Reply