پاک، امریکا تعلقات میں تعطل ختم، امریکی وزیر خارجہ کی وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقاتیں

پاک، امریکا تعلقات میں تعطل ختم، امریکی وزیر خارجہ کی وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور  آرمی چیف سے ملاقاتیں

پاک، امریکا تعلقات میں تعطل ختم، امریکی وزیر خارجہ کی وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقاتیں

اسلام آباد  ۔۔۔ نیوز ٹائم

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے دعوی کیا ہے کہ پاک، امریکا تعلقات میں موجود تعطل ٹوٹ گیا ہے اور دونوں ملکوں نے تعلقات کی ازسرنو تجدید پر اتفاق کیا ہے اب دوطرفہ تعلقات کی بنیاد سچائی پر ہو گی قومی مفاد اولین ترجیح ہے عالمی برادری ہماری قربانیاں تسلیم کرے واشنگٹن کے ساتھ عزت سے برابری کے تعلقات چاہتے ہیں امریکا نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے تسلیم کر لیا ہے  کہ افغان مسئلے کا طاقت سے حل نہیں نکالا جا سکتا امریکا نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا عندیہ دیا ہے امریکا سے 300 ملین ڈالر کی فوجی امداد پر بات نہیں کی امریکا نے ڈومور کا مطالبہ کیا نہ ہم ہر ڈیمانڈ پوری کر سکتے ہیں ہم کسی پر پریشر ڈالیں گے نہ کسی کا دبائو قبول کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے امریکی وزیر خارجہ  Mike Pompeoاور امریکی فوج کے سربراہ General Dunford کے مختصر ترین دورے  میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا شاہ محمود قریشی نے Mike Pompeoکی جانب سے دورہ امریکا کی دعوت بھی قبول کر لی۔ دوسری جانب واشنگٹن نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف مستقل کارروائی کرے امریکی وزیر خارجہ Mike Pompeoنے کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے  فوجی امداد کی بحالی کیلئے دونوں ممالک کو بہت کچھ کرنا ہو گا  دورہ پاکستان میں تجارت سمیت وسیع کامیابیوں کی بنیاد رکھ دی ہے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے نتیجہ میں پاک، امریکا تعلقات کی بحالی میں مدد ملے گی  دونوں حکومتوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے تاہم امید ہے کہ مشترکہ لائحہ عمل کے تحت مل کر کام کر کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

میڈیا بریفنگ میں شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ Mike Pompeoسے ملاقات اور اعلی سطحی امریکی وفد کی اعلی پاکستانی قیادت اور حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران دونوں فریقین نے لگی لپٹی رکھے بغیر اور حقیقت پسندانہ انداز سے اپنا موقف پیش کیا اور یہ کہ پاک، امریکا تعلقات میں حائل تعطل ٹوٹ گیا ہے اب ان تعلقات کی بنیاد سچائی پر مبنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ٹف ٹاکنگ ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ڈومور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ غیر حقیقی توقعات باندھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی  ملاقاتوں میں دونوں فریقین نے اپنے تحفظات کا برملا اور کھل کر ذکر کیا۔ امریکا کو نئی منتخب پاکستانی حکومت کے ایجنڈے کو نظر میں رکھنا ہو گا اور یہ کہ جب تک ہم کھل کر بات نہیں کریں گے، بہتر نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں فریق نے واضح انداز میں کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں،  بلکہ یہ معاملہ سیاسی تصفیے کے ذریعے ہی حل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی تشویش، خواہشات اور تحفظات کو کھل کر بیان کرنا ہو گا اور سمجھنا ہو گا اور بہتری کی گنجائش پیدا کرنی ہو گی۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ Mike Pompeoنے کہا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ افغان پالیسی کی نگرانی کرے گا  اور عندیہ دیا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کی ذہنی طور پر گنجائش نکل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا غیر معینہ مدت تک افغانستان میں رہنا نہیں چاہتا۔ افغان مسئلے کا حل لازم ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ اپنے پہلے بیرون ملک دورے میں افغانستان جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ Mike Pompeoسے ملاقات کے دوران پاکستان نے تقاضا کیا کہ ملک کی مشرقی سرحد پر امن ضروری ہے اور آئے دن جنگ بندی کی خلاف ورزیاں اور بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہونے کا معاملہ کسی کے حق میں نہیں۔ اس سے قبل دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان دفتر خارجہ میں وفود کی سطح پر باضابطہ بات چیت ہوئی۔ واضح رہے کہ Mike Pompeoکے ہمراہ امریکا کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ بھی اسلام آباد میں اعلی سطحی ملاقاتوں میں موجود تھے۔  دونوں رہنمائوں نے وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ امریکی وفد میں سابق امریکی سفیر Zalmay Khalilzad بھی شامل ہیں جنہیں امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کو ہی افغانستان کے لیے اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں اسلام آباد سے نئی دہلی روانہ ہونے سے Noor Khan Airbase پر اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستانی قیادت سے ملاقات کے دوران دونوں فریقین نے امریکا پاکستان تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات کو اقتصادی اور تجارتی شعبوں سمیت تمام مسائل کو استوار کرنے کے بارے میں بات چیت کی گئی۔  امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں فریقین کو اس بات کا احساس ہے کہ انہیں افغانستان کے پرامن حل کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا کیونکہ افغانستان میں قیام امن افغانستان کے علاوہ پاکستان اور امریکا کیلئے بھی اہم ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان ملاقاتوں میں پاکستان،  امریکہ تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے ان بنیادی محرکات کا تعین کر لیا گیا ہے جن کی مدد سے یہ تعلقات کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

اس موقع پر امریکا کے جائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل Joseph Dunford نے کہا کہ دورے کے دوران ان کا کردار دونوں ملکوں کے تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کے سلسلے میں وزیر خارجہ پومپیو کی مدد کرنا تھا۔ Joseph Dunford نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران ان کے نقطہ نظر کو غور سے سنا اور وزیر خارجہ Mike Pompeo ، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے خیالات میں خاصی ہم آہنگی پائی گئی ہے اور اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ امریکی اور پاکستانی افواج کے تعلقات کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے گا  تاکہ امریکی صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی میں تعاون کیلئے بنیاد فراہم کی جا سکے۔

جب ایک صحافی نے امریکی وزیر خارجہ Mike Pompeo سے پوچھا کہ کیا ان کے خیال میں پاکستان نے امریکا کو ایسی یقین دہانیاں کرا دی ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کیلئے روکی گئی امریکی امداد بحال ہو سکے اور دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سکیورٹی سے متعلق تعاون بحال ہو سکے تو Mike Pompeo نے کہا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور مزید بات چیت کا عمل جاری رکھنا ہو گا۔ تاہم دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تعلقات تسلسل کے ساتھ جاری رہے ہیں جبکہ دیگر شعبوں میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ پاکستانی اور امریکی فوجوں نے بہت سے منصوبوں پر مل کر کام کیا ہے جو دونوں فریقین کیلئے اہم ہیں اور ہم دوطرفہ تعلقات کیلئے اس کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ملاقاتوں میں افغانستان میں موجود امریکی افواج کیلئے  پاکستان کے راستے سامان کی ترسیل جاری رکھنے کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سامان کی ترسیل کے حوالے سے پاکستان کا تعاون جاری نہ رہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے اور انہوں اس سے اتفاق کیا ہے کہ اب دونوں ملکوں کی طرف سے کی جانے والی یقین دہانیوں پر عملدرآمد کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے بعد کئی سمجھوتوں پر اتفاق کیا گیا۔ تاہم ان سمجھوتوں پر خاطر خواہ عمل شروع نہیں ہو سکا۔

اس سلسلے میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ طے کئے گئے سمجھوتوں پر عملدرآمد کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی اور اعتبار کو فروغ دیا جا سکے۔ قبل ازیں جنوبی ایشیا کے دورہ کے آغاز سے قبل میڈیا سے گفتگو میں Mike Pompeo نے کہا ہے  کہ پاکستان کے دورہ کے موقع پر نومنتخب وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے نتیجہ میں پاک، امریکا تعلقات کی بحالی میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و امان کی بہتری کے لئے امریکا کے سابق سفیر Zalmay Khalilzad کو نئی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ دریں اثنا سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر نے توقع ظاہر کی ہے کہ افغان تنازع کے حل کے لئے پاکستان کی معاونت اہم ہے اور پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات سے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں حکومتوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے تاہم امید ہے کہ پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کے بعد مشترکہ لائحہ عمل کے تحت مل کر کام کر کے مسائل کو حل کیا جا سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دورہ کا ایک مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہماری توقعات کیا ہیں،  وہ چیزیں جو وہ کر سکتے ہیں، وہ چیزیں جو کرنے کی وہ ہم سے توقع کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ کیسے نہیں ملتا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اسی بارے میں مزید کہا کہ میرے خیال میں یہ ایک نئی حکومت ہے، یہ سب کچھ وزیر اعظم کے اقتدار میں ہونے سے بہت پہلے ہوا، اور مجھے امید ہے کہ ہم یہ صفحہ پلٹ کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ادھر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سیکریٹری Heather Norte کی وزیر اعظم عمران خان سمیت اعلی حکام سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے جاری بیان میں کہا ہے کہ انھوں نے پاکستان کو خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان Heather Norte کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان اور دیگر سویلین اور عسکری قیادت سے ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ Mike Pompeo نے چیئرمین جوائنٹ چیفس اسٹاف جنرل Joseph Dunford کے ہمراہ ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان کو حکومت بنانے پر مبارکباد دی اور سویلین اداروں کی مضبوطی کا خیر مقدم کیا۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری Mike Pompeo نے پاک، امریکا تعلقات کی اہمیت اور دوطرفہ تجارتی اور کاروباری وسعت جیسے باہمی مفادات کو اجاگر کیا۔ Heather Norte نے بیان میں کہا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کے دوران  Mike Pompeo نے خطے کے امن و استحکام سمیت پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے حوالے سے گفتگو کی۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات کے دوران  Mike Pompeo نے مضبوط جمہوری اداروں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ملک میں نئے سویلین حکومت کی تبدیلی کا خیر مقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ Mike Pompeo نے ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان انسداد دہشت گردی میں تعاون کے لیے امید کا اظہار کیا۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے  کہ Mike Pompeo نے آگاہ کیا کہ پاکستان کو خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف مستقل اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

No comments.

Leave a Reply