پرویز مشرف کی 200 سے لے کر عمران خان کی 100 کرپٹ افراد کی فہرست

بدعنوان عناصر کے خلاف اس مہم کے پہلے مرحلے میں 100 بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا اس کوشش میں نیب، ایف بی آر اور ایف آئی  اے سے مدد لی جائے گی

بدعنوان عناصر کے خلاف اس مہم کے پہلے مرحلے میں 100 بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا اس کوشش میں نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے سے مدد لی جائے گی

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

دو ہزار میں کرپشن کے خلاف مہم اپنے عروج پر رہی۔ بدعنوان عناصر کے خلاف رویہ صفر برداشت کا تھا۔ فوجی حکمراں پرویز مشرف کے دور میں احتسابی عمل کے ذمہ دار لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید امجد حسین نے 200 پاکستانیوں کی فہرست پیش کی تھی۔ جن پر مبینہ طور پر عوام کا پیسہ لوٹ کر بیرون ممالک رکھنے کا الزام تھا۔ چوری کے ان اثاثوں کا کھوج لگانے کے لئے ایک غیر ملکی فرم سے معاہدہ کیا گیا۔ جو اثاثے بازیاب ہوتے ان میں سے 20 فیصد اس فرم کو ملتا۔ 2003 میں معاہدہ مقدمہ بازی کے نتیجے میں ختم ہو گیا۔

آف شور کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی نے نیب کے خلاف 50 کروڑ ڈالرز کا مقدمہ دائر کر دیا۔ کونسل آف انٹرنیشنل آربٹریشن (سی آئی اے) میں معاہدے کی خلاف ورزی پر مقدمہ کیا گیا۔ جس میں پرویز مشرف حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے فراہم کردہ معلومات ہدف شدہ افراد کو نشانہ بنانے کی غرض سے سودے بازی کے لئے استعمال کیں۔ اب جبکہ لندن میں قائم سی آئی اے کا فیصلہ جلد آنے والا ہے جس میں پاکستان کے لئے ریلیف کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں بدعنوان عناصر کی ایک اور فہرست گردش میں ہے۔  اس بار انسداد بدعنوانی کی مہم کی قیادت عمران خان حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔

بدعنوان عناصر کے خلاف اس مہم کے پہلے مرحلے میں 100 بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ 2000ء  میں بازیاب رقوم کا 20 فیصد اس غیر ملکی فرم کے لئے محفوظ رکھا گیا تھا۔ اب اتنی ہی رقم دینے کا وعدہ بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والوں کے لئے رکھا گیا ہے۔ 2000ء میں بدعنوان عناصر کی مبینہ فہرست میں نواز شریف، آصف علی زرداری، گجرات کے چوہدری برادران، دیگر سیاستدان، کاروباری شخصیات اور کچھ جنرلز شامل تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان دور کی مرتب کردہ 100 مبینہ بدعنوانوں کی فہرست میں کون کون شامل ہیں؟

احتساب پر وزیر اعظم کے خصوصی معاون شہزاد اکبر کے مطابق 40 سے 50 افراد کے نام ذہن میں ہیں۔ ہم مزید نام تلاش کریں گے۔ ان میں ٹیکس چور، عوام کا پیسہ لوٹنے والے اور مالی جرائم میں ملوث دیگر بڑی مچھلیاں شامل ہیں۔ ان کے مطابق جرم کا حجم کسوٹی ہو گی۔  ماضی کے برخلاف کسی غیر ملکی فرم کو کھوج لگانے کی ذمہ داری دینے کی بجائے ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے۔ اس سے قبل کوشش تنہا نیب کا اپنا اقدام تھا۔ اس بار ایف بی آر اور ایف آئی اے کو بھی ہم رکاب رکھا گیا ہے۔

نئی فہرست میں مذکورہ تینوں محکموں کو مطلوب افراد کے نام شامل ہوں گے۔ چوری شدہ اثاثوں کی بازیابی کس قدر آسان ہو گی؟ اس کا کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔ حتی کہ شہزاد اکبر بھی اس بارے میں کوئی قطعی وقت بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایک روز قبل انہوں نے اپنے حوالے سے ایسے کسی بیان کی تردید بھی کی  تاہم انہیں توقع ہے کہ دیگر ممالک پاکستان کی اس مہم میں بخوشی تعاون کے لئے آمادہ ہوں گے۔ ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق مسئلہ خود اپنے سسٹم کا ہے۔

مختلف ممالک میں نیب کی باہمی قانونی معاونت (ایم ایل اے) کے لئے 200 درخواستیں زیر التوا ہیں، لیکن ان سے رجوع کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کی گئی۔  اس حوالے سے اگر پاناما پیپرز کیس کی مثال لی جائے تو برٹش ورجن آئی لینڈز (بی وی آئی) نے نواز شریف کے بچوں کی کمپنیوں  نیسکول اور نیلسن کی ملکیت کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ تاہم بعد ازاں پاناما پیپرز کے ذریعہ دو خطوط کی توثیق کے لئے بی وی آئی نے درخواست پر توثیق کی کہ مذکورہ کمپنیوں کی منافع بخش مالک نواز شریف کی بیٹی مریم ہیں۔ پھر سے مریم نے ان معلومات کو چیلنج کیا تھا کہ وہ مالک نہیں بلکہ ٹرسٹی تھیں اور بی وی آئی کو ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں بتانا ضروری نہ تھا۔

اسی طرح تحریک انصاف حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر قبضے کے لئے برطانوی حکومت سے رجوع کرے گی۔ قانونی طور پر ایسا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک سپریم کورٹ، احتساب عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھے۔ پھر سے پاکستان کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ مذکورہ فلیٹس کرپشن کے پیسے سے خریدے گئے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو نیب احتساب عدالت میں ثابت نہیں کر سکا۔  جہاں تک پاناما پیپرز میں آنے والی دیگر شخصیات کے ناموں کا تعلق ہے۔ ایف بی آر نے انہیں نوٹس بھیجے۔ ان میں سے کئی نے جوابات نہیں دیئے۔ دیگر نے ملکیت قبول کرنے سے ہی انکار کیا۔ اس حقیقت کے باوجود دستاویزات سے ان کی ملکیت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن وہ قانون شہادت کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ جس میں اصلی توثیق شدہ دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے آف شور کمپنیاں جہاں رجسٹر ہیں ان کے دائرہ حدود کے بارے میں ایف بی آر سے رابطہ کیا گیا تو متعلقہ حکام معلومات دینے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ان میں ماریشس بھی شامل ہے جس کی ریونیو اتھارٹی کے انچارج ایف بی آر کے سابق ممبر ایس ایم لال ہیں۔  اسی طرح کے سوالات کے جوابات دیگر کیسز میں بھی مطلوب ہیں۔ ان کیسز میں بیرون ممالک اثاثوں کا مالک ہدف شدہ شخص کو ثابت کرنے کا چیلنج درپیش ہو گا۔  حال ہی میں ایف آئی اے اور ایف بی آر دبئی میں جائیدادوں کے مالکان کی افشا فہرست میں سامنے آنے والوں کے حوالے سے کوششیں کیں  لیکن کوششوں کے باوجود دبئی سے مطلوبہ معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

No comments.

Leave a Reply