امریکہ نے جنگی جرائم ٹریبونل دھمکانا شروع کر دیا

عالمی جنگی جرائم ٹربیونل

عالمی جنگی جرائم ٹربیونل

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغانستان پر فوجی کشی اور لاکھوں بے گناہ افغانوں کی موت کے ذمہ دار امریکانے طاقت اور بے شرمی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے جنگی جرائم کی عالمی عدالت کو افغانستان میں تفتیش سے باز رہنے کے لیے سنگین دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایدوائزر John Bolton نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس ”ناجائز عدالت” کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا تو اس کو شدید قسم کی ناانصافی تصور کیا جائے گا۔ امریکی حکومت نہ صرف جنگی جرائم کے عالمی ٹریبونل کا مکمل بائیکاٹ کرے گی، بلکہ اس سلسلے میں ٹربیونل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا  اور اس عالمی ٹربیونل کو امریکی حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی تمام قسم کی امداد کو بند کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت کے ججوں کو امریکا میں مقدمات میں فٹ کیا جائے گا اور ان کے خلاف مزید سخت کارروائیاں بھی عمل میں لائی جا سکتی ہیں، جس کی تفصیل ابھی بیان نہیں کی جا سکی ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور قانون و سماجی انصاف کی بالادستی کے لیے کارگزار اور متحرک اداروں نے عالمی جنگی جرائم ٹربیونل کو امریکی دھمکیوں کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی بیان ان تمام لوگوں کی کھلی توہین ہے جو جنگی جرائم کا نشانہ بنائے گئے۔ہیومن رائٹس واچ کی سرگردہ رہنما کہا ہے کہ امریکی بیان متاثرہ افراد کی بے عزتی کے مترادف ہے۔شام، برما اور افغانستان سمیت متعدد ممالک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے تناظر میں تو آئی سی سی جنگی جرائم ٹربیونل کی تو مزید  ضرورت بڑھتی محسوس ہور ہی ہیں۔

اطالوی جریدے کے مطابق 2017ء  کے نومبر میں جنگی جرائم ٹربیونل کی خاتوں افسر استغاثہ فانوبینی سودا نے تسلیم کیا تھا کہ اس بات کی قابل قدر بنیاد موجود ہے کہ افغانستان سمیت شام اور برما میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ عالمی الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات و جرائد نے امریکی دھمکی کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے جس کا اعادہ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خاص نمائندے اور مختلف ممالک میں سابق سفیر اور امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر خاص جان بولٹن نے ایک تازہ بیان میں زور دیا ہے کہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت افغانستان میں امریکا کی 17 سال جنگ کے دوران کسی قسم کے جنگی جرائم کی جانچ یا تفتیش کا حق نہیں رکھتی اور اگر اس ضمن میں عالمی ٹربیونل کے ججوں نے امریکا کے موقف کے مطابق اپنی حد سے تجاوز کیا تو یقیناً امریکی حکومت ان ججوں اور ان سے تعاون کرنے والے تمام اور غیر امریکی باشندوں کو سخت سزا دے گی۔ ان کے خلاف انفرادی کارروائیوں سمیت مقدمات کے اندراج کرائے گا اور ان مقدمات کی سماعت اور ان میں پیشی کے لیے ججوں اور ان سے تعاون کرنے والے تمام افراد کو گرفتار کر لے گا اور ان کو امریکا  میں قید کر کے سزائیں دیں گا۔

San Francisco Chronicle کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر John Bolton نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم جنگی جرائم کی عالمی عدالت کو امریکا سمیت اسرائیل اور اتحادی ممالک کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے جو افغانستان میں ا مریکی و اتحادی افواج، مسلح جنگجوئوں اور افغان حکومتی فورسز سمیت امریکی اتحادی شمالی اتحاد کے Rashid Dostum کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا ارادہ رکھتی ہے۔

عالمی وار کرائم عدالت کے ججوں اور اہلکاروں کو کھلی دھمکی دینے والے John Bolton کا کہنا تھا کہ اگر فوجدار عدالت نے کسی بھی امریکی یا اسرائیلی کو نشانہ بنایا تو امریکی ایڈمنسٹریشن خاموش نہیں بیٹھے گی اور عالمی ٹربیونل کے ججوں اور تحقیقات میں شامل اہلکاروں کو نہیں بخشا جائے گا۔ ان کی مالی معاونت روکی جائے گی، ان کو گرفتار کیا جائے گا اور ان کو سزائیں دی جائیں گی۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر John Bolton نے ایک تقریب میں خطاب کے دوران اس دھمکی کی وجوہات کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سال گزشتہ وار کرائم ٹربیونل کی جانب سے امریکا کو ایک درخواست موصول ہوئی تھی  جس میں کہا گیا تھا ککہ امریکی انٹیلی جنس اور مسلح افواج کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات میں معاونت فراہم کی جائے اور بالخصوص گرفتاری کے بعد زیر حراست مشتبہ افغان قیدیوں کے ساتھ امریکی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی فورسز کے تشدد اور اموات کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جائیں۔ اگرچہ کہ امریکا نے جنگی جرائم کی عالمی عدالت کو اس ضمن میں اپنے (عدم تعاون پر مبنی) موقف سے مطلع کر دیا گیا تھا۔ لیکن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ہالینڈ، دی ہیگ میں موجود وار کرائم کورٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف، افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا کام کسی بھی وقت شروع کر سکتی ہے جس کے بعد جان بولٹن نے اس قسم کی تحقیقات کو رکوانے کے لیے سنگین دھمکیوں کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن امریکا کی جانب سے گرفتاریوں اور  سنگین نوعیت کی دھمکیوں پر جنگی جرائم کی عالمی عدالت کے ججوں اور اعلیٰ اہلکاروں کی جانب سے کوئی واضح بیان یا موقف سامنے نہیں آ سکا ہے۔ البتہ ایک بیان میں جنگی جرائم کی عالمی عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وار کرائم ٹربیونل کو 123 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اسی عدالت کو سلامتی کونسل کی جانب سے ماضی میں جنگی جرائم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے مقرر کیا جا چکا ہے۔

No comments.

Leave a Reply