روبوٹس 2025 ء تک انسانوں کا 52 فیصد کام چھین لیں گے

 روبوٹس یا مشینیں اگلے 4 برسوں میں بہت سی تبدیلیاں لائیں گی

روبوٹس یا مشینیں اگلے 4 برسوں میں بہت سی تبدیلیاں لائیں گی

ڈیوس ۔۔۔ نیوز ٹائم

ٹیکنالوجی کی دنیا بدل رہی ہے۔ اور اس ٹیکنالوجی سے موجودہ دنیا نئی کروٹ لے رہی ہے۔ کہیں مصنوعی ذہانت رکھنے والے روبوٹس کو شہریت دی جا رہی ہے تو کہیں انسانوں کی جگہ روبوٹس نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب شاید وہ وقت دور نہیں جب روبوٹس انسانوں کا نعم البدل نہیں تو کم از کم انسانوں کے بہت سے کام روبوٹس ہی انجام دینے لگیں گے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے (اے ایف پی) نے ورلڈ اکنامک فورم کے ایک حالیہ مطالعہ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سن 2025ء تک روبوٹس انسانوں کے ہاتھوں سے 52 فیصد کام چھین لیں گے اور انہیں خود انجام دینے لگیں گے۔ یہی نہیں بلکہ روبوٹس، موجودہ ورک فورس کے مقابلے میں دو گنا زیادہ کام نمٹائیں گے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اندازے کے مطابق تیزی سے ہونے والا یہ اضافہ انسانوں کے لیے نئے کردار ادا کرنے کا ایک ایسا موقع ہو گا جس کے ذریعے انسانوں کو بہت تیزی سے اپنی مہارت میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ایسی تبدیلیاں جو مشینوں اور کمپیوٹر پروگرامز کے بہتر استعمال پر مبنی ہوں۔

ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 7 سال بعد موجودہ عہد میں انسانوں کے کرنے والے آدھے سے زیادہ کام مشین انجام دیا کریں گی جبکہ اس وقت مشین اس نوعیت کے 29 فیصد کام انجام دے رہی ہیں۔ فورم کی پیر کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ روبوٹس یا مشینیں اگلے 4 برسوں میں بہت سی تبدیلیاں لائیں گی۔ اس دوران روبوٹک مشینیں اکائونٹنگ، کلائنٹ مینجمنٹ، انڈسٹریل، پوسٹل اور سیکریٹریل سیکٹرز میں انسانوں کی جگہ لے لیں گی جبکہ انسانی مہارت پر منحصر شعبوں مثلاً سیلز، مارکیٹنگ اور کسٹمر سروس، ای کامرس اور سوشل میڈیا جیسے پیشوں میں انسانوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو گا۔ عالمی ادارے کی اس رپورٹ کو دنیا کی کئی کمپنیوں کے ہیومن ریسورس ڈائریکٹرز اور سینئر ایگزیکٹیوز سے کئے گئے سروے سے حاصل ہونے والے نتائج کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ سروے نتائج کے مطابق اگلے 4 سالوں میں ایوی ایشن، ٹریول اور ٹورازم سیکٹرز میں ہی ملازمتوں کے مواقع مل سکیں گے۔ رپورٹ میں حکومتوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ملازموں یا کارکنوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے اقدامات جاری رکھیں۔

No comments.

Leave a Reply