گوادر بندرگاہ خلیج کی تجارت کے فروغ میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

پاکستان کی گہرے پانیوں کی گوادر بندرگاہ

پاکستان کی گہرے پانیوں کی گوادر بندرگاہ

نیوز ٹائم

پاکستان کی گہرے پانیوں کی گوادر بندرگاہ  ایک جانب چین کے خشکی میں گھرے بڑے صوبے Xinjiang کو بحیرہ عرب سے ملاتی ہے اور دوسری جانب یہ وسط ایشیا، افریقا اور مشرقِ اوسط کے لیے سب سے مختصر اور مناسب تجارتی راستہ ہے۔ چین کے بڑے منصوبے بیلٹ اور روڈ اقدام (بی آر آئی) کے آغاز کے بعد سے  پاکستان، چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور گوادر بندرگاہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے  اور سی پیک کو بیلٹ اور روڈ اقدام کے تحت تعمیر ہونے والی تمام 6 راہ داریوں میں  Flagship Corridor کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔

خلیج سے راستے گوادر بندرگاہ تک براہ راست بالکل آسان رسائی ہے  اور اس بندرگاہ کے راستے مشرقِ اوسط اور افریقا سے چین تک تجارتی مال کو کم سے کم وقت میں جا سکتا ہے۔  ان ہر دو علاقوں کے درمیان پاکستان کی بندرگاہ سے فاصلہ محض تقریباً 3400 میل رہ جاتا ہے۔ ان تمام فوائد و ثمرات کے باوجود بدقسمتی سے گوادر شہر کو سی پیک کے منصوبوں کے تحت پہلے مرحلے میں ترقی نہیں دی جا سکی ہے لیکن یہ توقع کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے زیر قیادت پاکستان کی نئی حکومت میں چیزیں تیزی سے تبدیل ہوں گی  کیونکہ اس نے سی پیک کو وسعت دینے اور تیسرے فریق کی مزید سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

تیز رفتار بنیاد:

گوادر کو تیز رفتار بنیاد پر ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بجلی اور پانی کے مسائل کے حل کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ یہ ساحلی شہر صنعتیں لگانے کے لیے معاشی طور پر زیادہ قابل عمل ہو سکے۔ یہ توقع کی جاتی ہے کہ سرمایہ کاری کی شکل میں گوادر بندرگاہ بہت جلد اپنے مالی ثمرات دینا شروع کر دے گی، فی الوقت تو اس کو یک و تنہا منصوبہ ہی قرار دیا جا رہا ہے۔  اگلے مرحلے میں خصوصی اقتصادی علاقوں (زونز) کے قیام میں علاقائی دوست ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ چین اور پاکستان دونوں کے ترقیاتی کمیشن گوادر کی برآمدی مارکیٹوں کے لیے ایک صنعتی مرکز کے طور پر اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خاص طور پر اس کے شاندار محل وقوع، بین البراعظمی جہاز رانی اور فری زون کی اہمیت کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ گوادر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر کے کام میں تیزی، ایک ہسپتال اور ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کی اس سال کے اختتام تک تعمیر مکمل ہو جائے گی، اس طرح یہ شہر آئندہ 2 سال میں تیزی سے وسعت پذیر ہو گا۔

جزیرہ نما گوادر:

اس وقت جزیرہ نما گوادر کی آبادی تقریباً 100000 نفوس پر مشتمل ہے۔ شہر کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہو گا  اور ایک تخمینے کے مطابق یہ 2020ء تک بڑھ کر 500000 کے لگ بھگ ہو جائے گی۔ گوادر شہر میں آب رسانی کے مسئلے کے حل کے لیے پانی صاف کرنے کے متعدد پلانٹ نصب کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک متحدہ عرب امارات، دوسرے سوئٹزرلینڈ اور چین کی مدد سے لگائے جا رہے ہیں۔ اس دوران میں چین پاور کمپنی کوئلے سے 300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ کو چالو کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس سے گوادر کو بجلی مہیا کرنے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

پاکستان کے ترقی اور منصوبہ بندی کے وزیر Khosro Bakhtiar نے وزیر اعظم عمران خان کی گوادر میں صنعتوں کی تیز رفتار ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے کہا:  ہم زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری معیشت کے پاس وقت کی عیاشی نہیں ہے۔ اس ساحلی شہر میں صنعتوں کا فروغ اس کی بین الاقوامی رابطہ کاری اور ٹرانسپورٹ کی مناسب لاگت کے پیش نظر بہت جلد پھل دے گا۔  گوادر کی بندرگاہ ابتدائی منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل کے بعد برآمدات کے یونٹ اور بین البر اعظمی جہاز رانی کے مرکز کی حیثیت اپنے ثمرات دینا شروع کر دے گی۔ ریلوے کے ذریعے اور سی پیک کے مغربی روٹ سے ملانے کے لیے مواصلات کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کی ماضی میں عدم موجودگی کی وجہ سے ہی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مضافاتی علاقوں کو مرکزی شاہراہوں اور راستوں سے جوڑا نہیں جا سکا تھا۔

درآمدی ایندھن سے چلنے والے بجلی کے منصوبوں کی رفتار سست کرنا ہو گی جبکہ پن بجلی کے منصوبوں کو پہلے پایہ تکمیل کو پہنچانا ہو گا۔ گوادر فری زون کی تعمیر بھی شیڈول کے مطابق شروع نہیں ہو سکی ہے۔ اس میں تاخیر کی وجہ یہ ہوئی ہے کہ ابھی تک چینی حکام کو اس کے لیے اراضی منتقل ہی نہیں کی گئی ہے۔ اس وقت یہ پاکستان بحریہ کے کنٹرول میں ہے۔ اراضی کی جلد سے جلد منتقلی کے لیے طریق کار اور قواعد و ضوابط کو طے کرنا ہو گا۔ گوادر میں بہتر سیکیورٹی کی وجہ سے اقتصادی خطرات بھی کم سے کم ہیں۔ یہ روایتی آبنائے ملا کا بحری مواصلاتی لائن سے بھی زیادہ محفوظ ہے۔پاکستان بحریہ کی ٹاسک فورس 88 گوادر کے تحفظ و دفاع کی ذمے دار ہے۔ یہ لڑاکا طیارے، بغیر پائلٹ جاسوس طیاروں اور سریع الحرکت جنگی کشتیوں سے لیس ہے۔ گوادر بندرگاہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی کے بعد بڑے پیمانے پر کام شروع کر دے گی۔ یہ بندرگاہ جب اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق کام کرے گی تو یہاں سالانہ 30 سے 40 کروڑ ٹن تک مال کو جہازوں سے اتارا اور لادا جا سکے گا۔ یہاں اس کی قدرتی گہرائی کی وجہ سے بڑے بحری جہازوں کو بھی لنگرانداز کیا جا سکے گا۔

کراچی، خلیج ایکسپریس:

متحدہ عرب امارات نے اس سال گوادر میں مقامی کمیونٹی کو مختلف سہولتیں مہیا کرنے میں مدد دی ہے۔ اس نے گوادر کے ذریعے سی پیک کے تحت تجارتی جہاز رانی کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ اس نے اس کو کراچی، خلیج ایکسپریس کا نام دیا ہے۔ اس کنٹینر سروس نے ابو ظبی، شارجہ اور جبل علی کو گوادر کی بندرگاہ سے ملا دیا ہے۔ چین کی تیل کی درآمدات کو گوادر سے Xinjiang تک پہنچانے کا ایک اور منصوبہ بھی زیر غور ہے  اور گوادر سے  Xinjiang تک تیل کی ایک نئی پائپ لائن بچھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس کی یومیہ صلاحیت 1000000 بیرل ہو گی۔ ادھر بیلٹ اور روڈ اقدام کے تحت Xinjiang کے شہر Armaci کو ایک بڑے تجارتی مرکز کے طور پر ترقی دی جا رہی ہے۔  اس شہر تک 19 ریلوے لائنیں بچھائی گئی ہیں جو یورپ اور ایشیا کے 17 ممالک کو آپس میں ملاتی ہیں۔

اس اہم تجارتی جنکشن پر آج تقریباً 3600 ٹن وزنی مال کی روزانہ آمدورفت ہو رہی ہے۔ دوسرے خطوں اور ممالک سے Armaci تک پہنچنے کا سب سے قریبی اور آسان راستے گوادر سے ہی ہو کر گذرتا ہے۔ مزید برآں اگر مشرقِ اوسط اور افریقا کے ممالک بھی سی پیک میں شامل ہو جاتے ہیں تو دنیا کے اس حصے میں ان ممالک کے لیے تجارتی رابطے کے ضمن میں یہ ایک کامیاب اور سود مند حل ہو گا۔ درحقیقت گذشتہ سال ہی پاکستان میں متعین سعودی سفیر نے گوادر اور سی پیک کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply