نئی حکومت کا ایک مہینہ کا جائزہ

ہماری نئی حکومت پر ایک مہینہ گزر چکا ہے اگرچہ ہمارے حکمران نئے نہیں ہیں

ہماری نئی حکومت پر ایک مہینہ گزر چکا ہے اگرچہ ہمارے حکمران نئے نہیں ہیں

نیوز ٹائم

ہماری نئی حکومت پر ایک مہینہ گزر چکا ہے اگرچہ ہمارے حکمران نئے نہیں ہیں اقتدار کے ایک موسم کی فصل ان پر پہلے بھی گزر چکی ہے، وہ ایک 5 سالہ حکومت ایک صوبے میں مکمل کر کے اب سارے ملک کی حکومت سنبھال چکے ہیں۔ اب کی بار ان کے رنگ و ڈھنگ نرالے ہیں اور حکمران اپنے دامن میں عوام کا جو اعتماد لے کر آئے ہیں  وہ اتنا بڑا ہے کہ وہ اس کے سامنے ابھی تک ہوش میں نہیں آئے۔ اسی بے خودی اور سرشاری کے عالم میں عمران خان اور ان کے ساتھی ہر روز عوام کے اعتماد کا ذکر کرتے ہیں اور عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ عوام کے اعتماد پر پورے اتریں گے اور انھیں پورا اترنا بھی چاہیے ورنہ عوام ان کے بعد اب اور کس کے پاس جائیں گے۔خدانخواستہ اگر وہ اس اعتماد پر پورے نہ اترے تو پھر عوام کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہو گا۔

ہمارے اندر اپنے ماضی کا وہ خوف ہے جو ہمارے حکمرانوں نے پیدا کر دیا ہے ان میں سے نہ صرف یہ کہ کوئی بھی عوام کی خواہشات پر پورا نہیں اترا بلکہ ہر ایک نے حتی المقدور عوام کے ساتھ بے وفائی ہی کی۔ دو، چار نیک سرشت حکمران بھی آئے لیکن وہ حالات کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اس لیے ہم دودھ کو گرم کر کے بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صرف ایک مہینہ گزرنے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں اور حکمرانوں کو کبھی ان پر عوام کا بے پناہ اعتماد یاد دلاتے ہیں تو کبھی ان کے وعدے یاد دلاتے ہیں جن کو سیاستدانوں کے روائتی وعدے سمجھ کر فراموش کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

البتہ حکومت کی ایک اپوزیشن پارٹی پیپلز پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ 2 سال کے بعد لیں گے یعنی انھوں نے ہمارے نئی حکومت پر رحم کرتے ہوئے ان کو 2  سال کا وقت دیا ہے کہ وہ اپنی کار کردگی دکھائیں اور داد پائیں یا پھر تنقید کے لیے تیار رہیں۔ عوام کی نظریں تحریک انصاف کی حکومت پر لگی ہوئی ہیں اگر وہ ناکام ہوئی اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تو اس سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہو گا۔ حکومت کے سربراہ عمران خان کو اپنی اس ذمے داری کا احساس ہے، اس ذمے داری کو نبھانے  کے لیے وہ دن، رات ایک کیے ہوئے ہیں، انھوں نے ذمے داری کا یہ بلند مقام اور مرتبہ بڑی محنت کے بعد حاصل کیا ہے۔ لوگ تو ذمے داریوں سے کتراتے اور بھاگتے ہیں لیکن عمران خان نے قوم کی خاطر اسے آگے بڑھ کر گلے لگایا ہے اور اس پر عوام سے مبارکباد بھی وصول کی ہیں یوں یہ ذمے داری ان پر زبردستی نہیں دی گئی بلکہ انھوں نے اسے شوق سے قبول کیا ہے۔ اس لیے اگر وہ صاف دل اور نیک نیتی کے ساتھ عوام کی بات کر رہے ہیں تو ان کی ہمت اور پختہ عزائم کی داد دینی چاہیے۔

سیاستدانوں اور خصوصاً حکمرانوں کے بارے میں عوام کے اندر جو بد اعتمادی پائی جاتی ہے اس کے پیش نظر شروع میں ہی ایسی تحریریں لکھی جا رہی ہیں تاکہ آگے چل کر جب حکومت پختہ ہو گی تو سند رہے اور حکمرانوں کو ان کے الفاظ یاد دلائے جا سکیں۔ یہ تو کم و بیش وہ الفاظ ہیں جو کہ اقتدار کے اپنے منہ سے ادا ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب بھی آگ برابر لگی ہوئی ہے کہ عوام بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اگر عوامی مسائل حل نہ ہوئے تو پھر کوئی سیاستدان عوام کو قبول نہیں ہو گا بلکہ اگلا راستہ انقلاب کو جائے گا۔ ہمارے وزیر اعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم عوام کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور ان کے اعتماد کا حق ادا کریں گے۔ اقتدار کے صرف ایک اور وہ بھی ابتدائی مہینے میں ہی جب کرسی کی صرف گرد ہی جھاڑی جا سکتی ہے یہ کہنا مشکل ہے کہ ہماری یہ حکومت اپنے وعدے پورے کرے گی لیکن آثار اچھے ہیں البتہ اس بات پر تعجب ہے فواد چوہدری کے علاوہ وزرا کہاں ہیں شیخ رشید اپنے مخصوص انداز میں حکومت کی ترجمانی کر رہے ہیں لیکن باقی وزرا شاید وزارت کا جشن منانے میں مصروف ہیں یا پھر وہ اپنی وزارت کی افسر شاہی سے خوفزدہ ہو گئے ہیں اس لیے چپ ہیں کہ ان کے اقدامات کے نتیجہ میں افسر شاہی ناراض نہ ہو جائے وہ کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہیں۔

بہر حال وزرا جیسے بھی ہیں ان کو جلد از جلد حکومت کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی کیونکہ پہلے 100 دن کا ایجنڈا حکومت نے خود اپنے گلے میں ڈالا ہے اور اب اس ڈھول کو خود ہی بجانا ہے اور اس کی آواز یعنی کام ایسے ہونے چاہئیں جو کہ آئندہ مدت کے لئے حکومت کی سمت کا تعین کر سکیں۔ ہماری افسر شاہی کو وزیر اعظم نے خود یہ یقین دلایا ہے کہ ان کے بغیر حکومت نہیں چل سکتی اور وہ ان کو ساتھ لے کر چلیں گے افسر شاہی کو ہی حکومت کے پروگرام پر عملدرآمد کرنا ہے اس کو خوف و ہراس کی فضا سے اب باہر نکل آنا چاہیے۔ ہمارے افسروں کو حکومت کے ساتھ چلنے کا ہنر آتا ہے اور امید یہی ہے کہ حکمران اور افسر شاہی آپس میں سمجھوتہ کر لیں گے۔ حکمران اپنے بقول قوم سے بے وفائی کا جرم کرنے پر تیار نہیں ہیں اس لیے ایک ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لینا ان کے ساتھ زیادتی ہو گی ان کو پیپلز پارٹی کے بقول 2  سال کا وقت دینا ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply