بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد پر متعصبانہ فیصلے کو درست قرار دے دیا

ایودھیا میں 6 دسمبر 1992ء کو ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا

ایودھیا میں 6 دسمبر 1992ء کو ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا

نئی دہلی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد نظرثانی کیس کو مسترد کرتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دے دیا جو 29 اکتوبر کو بابری مسجد کیس کی سماعت کرے گا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں Ismail Faruqui کیس 1994ء پر نظرثانی کے لیے کیس کی سماعت ہوئی۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد متنازعہ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ تین رکنی بینچ میں سے بھارتی چیف جسٹس Dipak Misra اور Justice Ashok Bhushan نے نظرثانی کی درخواست کے خلاف فیصلہ دیا جبکہ Justice S Nazeer نے نظرثانی کی درخواست کے حق میں فیصلہ سنایا۔ تاہم اکثریتی فیصلے کو تسلیم کر لیا گیا۔

بینچ نے بابری مسجد پر 1994ء میں Ismail Faruqui نظرثانی کیس کے لیے لارجز بینچ کی تشکیل کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا اور بابری مسجد کے اصل کیس کی سماعت کے لیے تین اراکین پر مشتمل نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ یہ بینچ بابری مسجد کے مقام پر زمین کے تنازع پر Sunni Waqaf Board ، Nirmohi Akhara اور Ramlala Virajmaan کے درمیان زمین کی ملکیت کا فیصلہ کرے گا۔Justice Ashok Bhushan نے چیف جسٹس کی غیر موجودگی کے باعث نظرثانی کیس کا فیصلہ خود پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ Ismail Faruqui کیس کے فیصلے کے الفاظ  اسلام میں Namaz or prayers کی ادائیگی کے لئے مسجد لازمی جز نہیں بلکہ Namaz or prayers کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے کا مطلب یہ نہیں کہ مساجد کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس لیے  Ayodhya کیس میں Ismail Faruqui کیس کے یہ الفاظ اثر انداز نہیں ہوں گے۔

Ismail Faruqui نے 1994 ء میں بنام بھارت حکومت ایک کیس دائر کیا تھا جس کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ  مسلمانوں کے لیے Namaz or prayers ادائیگی کے لیے مساجد کا ہونا ضروری نہیں، گھر پر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے بابری مسجد کیس میں فریق مسلمان نمائندوں کا خدشہ ہے کہ Ismail Faruqui کیس کے فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے بابری مسجد سے مسلمانوں کا حق چھینا جا سکتا ہے اس لیے 1994 ء کے کیس کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب Ayodhya میں 6 دسمبر 1992ء کو ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ Sunni Waqaf Board کی ملکیت تھی اور تاریخی حیثیت کی حامل عمارت تھی۔ اس مسجد کو 450 سال قبل 1528ء میں مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مسجد کی شہادت کے بعد پورے ہندوستان میں مسلم کش فسادات برپا ہو گئے تھے۔

دوسری جانب ہندو انتہا پسند جماعت نے بہانہ تراشتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ بابری مسجد دراصل Lord Ram کی جائے پیدائش پر قائم ہے۔ مغل بادشاہ بابر نے مندر کو گرا کر اپنے نام سے بابری مسجد تعمیر کی تھی۔ یہ ہندوئوں کے مذہبی مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم انتہا پسند جماعت کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی تھی۔واضح رہے کہ 2010 ء میں Allahabad ہائی کورٹ نے مذکورہ زمین تینوں فریقوں یعنی Ramlala Virajmaan ، Nirmohi Akhara اور Sunni Waqaf Board میں برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا جس پر فریقین نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تین رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا جو 29 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔

No comments.

Leave a Reply