امریکی کمانڈرز کی طالبان سے ملاقات پر افغان حکومت کا احتجاج

اقوام متحدہ نے افغانستان کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں اس سال تشدد میں 52 فیصد تک اضافہ ہوا ہے

اقوام متحدہ نے افغانستان کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں اس سال تشدد میں 52 فیصد تک اضافہ ہوا ہے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی فوجی کمانڈروں کی بگرام میں افغان طالبان سے ملاقات پر افغان حکومت نے شدید احتجاج کرتے ہوئے امریکی حکام سے اس حوالے سے وضاحت طلب کر لی ہے۔جبکہ طالبان نے امریکیوں سے کسی ملاقات سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ نے افغانستان کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں اس سال تشدد میں 52 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ طالبان حملوں میں روزانہ 25 کے قریب افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے لڑائی جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔

ملنے والی اطلاعات کے مطابق محرم کے پلے ہفتے میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے پر افغان طالبان اور امریکی فوجی کمانڈروں کے درمیان افغانستان سے انخلا کے حوالے سے بات چیت ہوئی، جس میں طالبان کے کئی اہم عسکری کمانڈرز شامل تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کا 12 رکنی وفد جس میں تقریباً 6 اہم کمانڈر شامل تھے، کو امریکی فوجی ہیلی کاپٹر ہلمند سے بگرام لایا تھا، جہاں افغان طالبان اور امریکی فوجی کمانڈروں کے درمیان خفیہ ملاقات ہوئی۔ اس دوران افغانستان سے امریکی فوجی کے انخلا سمیت اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں طالبان کی جانب سے حملے نہ کرنے اور انخلا کی صورت میں خانہ جنگی روکنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی، کہ اگر امریکہ افغانستان سے انخلا کا اعلان کرتا ہے تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں گے یا نہیں اور افغان فوج میں طالبان کی شمولیت کا طریقہ کار کیا ہو گا۔

ذرائع کے مطابق افغان طالبان اور امریکی فوجی کمانڈرز کے درمیان یہ بات چیت 9 سے 10 گھنٹے جاری رہی۔ بعد ازاں امریکی ہیلی کاپٹر کے ذریعے طالبان کے وفد کو ہلمند کے بجائے قندھار میں اتارا گیا، جہاں سے وہ نامعلوم مقام پر چلے گئے۔ تاہم افغان طالبان کے مطابق استفسار پر امریکیوں سیکسی ملاقات کی تصدیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بھی ایسی کسی ملاقات کا امکان نہیں ہے۔ تاہم ذرائع کا اصرار ہے کہ نہ صرف طالبان اور امریکی فوجی کمانڈروں کے درمیان ملاقات ہوئی، بلکہ اس بات چیت میں امریکی سفارت خانے کے حکام بھی شامل تھے، جنہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کے حوالے سے افغان طالبان کو بریفنگ دی۔ ذرائع کے مطابق امریکی کمانڈرز کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ طالبان افغانستان میں خانہ جنگی نہ ہونے کی ضمانت دیں تو تمام طالبان جنگجوئوں کو افغان پولیس اور فوج میں اہم عہدے دیئے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول امریکی حکام نے روس اور ایران کے حوالے سے بھی افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کی کہ انخلا کے بعد روس اور ایران کو افغانستان میں کوئی رول نہیں دیا جائے۔

دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی وفد امریکی ہیلی کاپٹر میں بگرام نہیں گیا۔ بلکہ طالبان کا ایک وفد امارات میں مذاکرات کے بعد قطر پہنچ گیا ہے اور اس نے اس بات پر تفصیلی غور کیا ہے  کہ امریکی فوج کا انخلا بتدریج ہونا چاہیے اور افغانستان میں امریکا کوئی اسلحہ نہیں چھوڑے گا۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کو دبئی میں ہفتے کے روز ہونے والے مذاکرات میں اس منصوبے سے آگاہ کیا گیا ہے کہ امریکہ تین سال کے اندر افغانستان سے انخلا شروع کر دے گا اور ایک سال میں انخلا مکمل ہو گا۔ تاہم اس کی شرائط امریکہ اور طالبان مل کر طے کریں گے تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی کو روکا جا سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ طالبان اس بات پر رضامند ہو گئے ہیں کہ امریکہ تین سال کے اندر انخلا بتدریج شروع کر دے گا۔ پہلے طالبان اس پر رضامند نہیں تھے تاہم اب طالبان کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ امریکی انخلا کے بعد اپنے جائز حق سے محروم نہ رہ جائیں۔

ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے تین سال کے انخلا شروع کرنے کا بنیادی مقصد افغانستان کو خانہ جنگی سے بچانا ہے، کیونکہ اس دوران نیا افغان صدر آ جائے گا  اور افغان پارلیمان وجود میں آ جائے گی اور امریکی انخلا کا مطالبہ کرے گی، جس کے بعد امریکی انخلا کے لیے محفوظ راستہ ہموار کیا جائے گا۔ جس طرح عراق پارلیمان کے ذریعے امریکی انخلا کا راستہ ہموار کیا گیا تھا۔ ہفتے کے روز دبئی میں مذاکرات کے بعد افغان طالبان کا وفد قطر پہنچ گیا ہے، جہاں 29-28 ستمبر کو امریکی انخلا اور افغانستان کی تعمیرنو سمیت دیگر معاملات پر مزید بات چیت ہو گی۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر افغانستان سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر یوناما (یونائیٹڈ نیشن مشن فار افغانستان) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں 2018ء میں طالبان حملوں میں 52 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال کے ابتدائی 6 ماہ میں تشدد مین 52 فیصد اضافہ ہوا اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ افغان وزارت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے حملوں میں زیادہ اموات رواں برس اگست کے مہینے میں ہوئیں، جو 558 تھیں، جبکہ 800 کے قریب سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ اس سال افغان سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں اضافہ سامنے آیا ہے  اور روزانہ 30 کے قریب اہلکار طالبان  کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں، جس کی وجہ سے افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو جنگ جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

No comments.

Leave a Reply