رواں برس اسپین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

اکیس  اکتوبر تک 45145  مہاجرین بحیرہ روم کے راستے اسپین پہنچے

اکیس اکتوبر تک 45145 مہاجرین بحیرہ روم کے راستے اسپین پہنچے

جنیوا ۔۔۔ نیوز ٹائم

عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا ہے کہ رواں برس اب تک بحیرہ روم سے اسپین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد 45 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔  یہ تعداد گزشتہ تین برسوں میں اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی کل تعداد سے زیادہ ہے۔ جنیوا میں قائم مہاجرین کے عالمی ادارے آئی او ایم نے منگل کے روز رپورٹ کیا ہے کہ 21 اکتوبر تک 45145  مہاجرین بحیرہ روم کے راستے اسپین پہنچے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

یہ تعداد ان 940000 مہاجرین کا تقریباً نصف ہے جو اس سال یورپی ممالک کی جانب سے مہاجرت کے عمل کو روکنے کی کاوشیں کے باوجود بحیرہ روم سے یورپ پہنچے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق مجموعی طور پر حالیہ سالوں میں یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران یہ تعداد 147000 تھی جبکہ 2016 ء میں 324000 ریکارڈ کی گئی تھی۔

تاہم رواں برس بھی بحیرہ روم یورپ آنے کا قصد کرنے والے مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ بنا رہا۔ غیر قانونی طور پر سمندر پار کرنے والے پناہ گزینوں کی امسال اب تک 1857 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس نے ستمبر میں کہا تھا کہ 2017 ء میں اسپین کے ساحلوں تک پہنچنے والے 40 فیصد تارکین وطن کا تعلق مراکش اور الجزائر سے تھا۔ اسپین کی وزارت داخلہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ جو ملکی اخبار ایل پائیس نے شائع کی، میں بتایا گیا ہے کہ 2018 ء میں اس رحجان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں برس ستمبر کے وسط تک غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے والے 33،315 تارکین وطن میں سے 6،433 مراکش کے شہری تھے۔ واضح رہے کہ 2015ء سے اب تک یورپی یونین میں داخل ہونے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے، جن میں سے اکثریت شامی اور عراقی مہاجرین کی ہے، تاہم دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے بھی یورپ کا رخ کیا ہے۔ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کے 2016ء میں طے پانے والے معاہدے کے بعد بحیرہ ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے اور پھر دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم شمالی افریقی ممالک خصوصاً لیبیا سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپی یونین کا رخ کر رہی ہے۔

No comments.

Leave a Reply