امداد سے شروع ہونے والا سلسلہ قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تک کیسے پہنچا؟

امریکہ میں اتحادیوں نے کسی عالمی کسادبازی اور مالی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کا ادارہ تشکیل دیا

امریکہ میں اتحادیوں نے کسی عالمی کسادبازی اور مالی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کا ادارہ تشکیل دیا

نیوز ٹائم

انیس سو آٹھارہ میں جب پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو دنیا میں سیاسی اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے تین بڑی اور نمایاں تبدیلیاں ہو چکی تھیں، ایک تو برطانیہ کی جگہ امریکہ سپر پاور بن چکا تھا، دوسرے نمبر پر روس میں زار بادشاہت ختم ہو چکی تھی اور دنیا نے پہلی مرتبہ Communism advertisement نظام  دیکھا تھا، تیسری تبدیلی یہ تھی کہ ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ خلافت عثمانیہ ختم ہو چکی تھی اور پھر دوسری جنگ عظیم تک ترکی، سعودی عرب اور افغانستان صرف تین اسلامی مملکتیں آزاد اور خودمختار تصور کی جاتی تھیں۔ حقیقت پسند برطانیہ نے یہ جان لیا تھا کہ وہ اب زیادہ دیر دنیا کے 24 فیصد رقبے اور 25 فیصد آبادی پر اس طرح اپنا کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکتا۔

اس وقت دنیا کی آبادی ایک ارب اور تقریباً 30 کروڑ تھی، یوں دنیا بھر میں برطانوی نوآبادیات کی کل آبادی 38 سے 40 کروڑ تھی اور برطانیہ کی اپنی کل آبادی 350 کروڑ تھی اور جب دوسری جنگ عظیم 1939ء میں شروع ہو کر 1945ء میں ختم ہوئی تو دنیا کی آبادی 250 ارب کے قریب تھی اور برطانیہ کی کل آبادی 5 کروڑ 30 لاکھ تھی، اس وقت برطانوی، ہندوستان کی کل آبادی 40 کروڑ اور بشمول ہندوستان پوری برطانوی نوآبادیات کی آبادی 70 سے 80 کروڑ تھی۔ ان نوآبادیات میں آزادی کی تحریکیں زوروں پر تھیں، ڈائنامائٹ، دستی بم، ہلکی مشین گنیں اور اس طرح کے ہتھیار اِن کو میسر تھے۔  یوں پہلی جنگ عظیم ہی میں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ اب سیاسی نوآبادیاتی نظام کو اقتصادی نوآبادیاتی نظام سے بدل دیا جائے  اور اس وقت سپر پاور چونکہ امریکہ بن چکا تھا اس لیے نوآبادیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامی قوتوں نے امریکہ کی سربراہی میں اقتصادی نوآبادیاتی نظام کا عالمی نقشہ بنایا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے League of Nations اقوام متحدہ کا ادارہ بنایا گیا تھا جو اس وقت امریکہ اور دوسری قوتوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا کہ اس وقت نئے اقتصادی نوآبایاتی نظام کی منصوبہ بندی پوری طرح مکمل نہیں ہوئی تھی۔ 1930-32 دنیا میں عظیم عالمی کسادبازای رونما ہوئی جس سے بیک وقت پوری دنیا شدت کے ساتھ متاثر ہوئی یہ عالمی اقتصادی نظام پر جنگ عظیم اول کی تین بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کے وہ اثرات تھے جن کے لیے سرمایہ دارانہ معیشت کے ماہرین پہلے سے پیش بندی اور منصوبہ بندی نہیں کر سکے تھے  اور یہی وہ خلا یا موقع تھا کہ جس کو غنیمت جان کر Hitler نے جرمنی کو اور Stalin نے سابق سوویت یونین کے ساتھ اشتراکی نظام کو مضبوط کر لیا تھا۔ جنگ عظیم اول سے دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک 1913-21ء Woodrow Wilson ، امریکہ کے صدر رہے ان کے بعد 1921-23ء Warren G. Harding 1923-29ء Calvin Coolidge 1929-33ء Herbert Hoover اس کے بعد 1933ء تا 1945ء Franklin D. Roosevelt امریکہ کے صدور رہے، اسی دوران 1916-23ء David Lloyd George 1922-23ء Bonar Law 1923-24ء Stanley Baldwin اور کچھ دن James Ramsay MacDonald برطانیہ کے وزیر اعظم رہے۔ اس کے بعد 1935-37ء پھر Stanley ،  Chamberlain 1937-40ء وزیر اعظم رہے اور پھر Sir Winston Churchill 1940-45ء وزیر اعظم رہے یعنی وزیر اعظم Sir Winston Churchill اور امریکی صدر Franklin D. Roosevelt دوسری جنگ عظیم کو نہیں روک سکے، لیکن یہ ہوا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا سے سیاسی نوآبادیاتی نظام رخصت ہونے لگا، مگر دنیا تباہ ہو چکی تھی، 350 کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

امریکہ پہلی جنگ عظیم کی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی آخر میں داخل ہوا، اس کی سرزمین  پرل ہاربر پر جاپان کی فضائیہ نے ایک حملہ کیا تھا، اس جنگ سے 2 سال قبل ہی امریکہ میں اتحادیوں نے کسی عالمی کسادبازی اور مالی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کا ادارہ تشکیل دیا،  اس وقت پوری دنیا کے سرمایہ دار سرمائے کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے پہلی جنگ عظیم کی طرح سرمایہ امریکہ لے جا چکے تھے۔ یوں آئی ایم ایف کو اب دنیا بھر کے ملکوں کی معیشتوں کو عالمی اقتصادی نظام سے ہم آہنگ اور متوازن رکھنے کے لیے نگرانی کے فرائض سونپے گئے  اور اس میں اس وقت یہ مثبت اصول رکھا گیا کہ اگر کسی رکن ملک کی معیشت بحران کا شکار ہوتی ہے  اور اس پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے سالانہ شرح پیداوار، فی کس سالانہ آمدنی میں کمی آتی ہے، افراط زر کی شرح میں عالمی معیار سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے، تجارت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے  اور ملک دیوالیہ ہونا شروع ہوتا ہے تو آئی ایم ایف کا ادارہ زرِضمانت کے طور پر رعایتی شرح سود پر قرضے دے گا، مگر ساتھ ہی ایسے ملک میں مالیاتی، معاشی اور اقتصادی بے ضابطگیوں، بے اصولیوں اور معاشی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی پر اس طرح نظر رکھے گا یا کنٹرول رکھے گا  کہ جو قرضے دئیے گئے ہیں ان کا استعمال بھی ان کے مطابق درست ہو اور ان قرضوں کی واپسی بھی یقینی ہو۔

اگست 1945ء میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہروں Nagasaki اور Hiroshima پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا،  اس جنگ کے بعد دنیا کو کسی تیسری جنگ عظیم سے محفوظ رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل دیا گیا  جس کے بنیادی خطوط ماہرین نے جنگ کے خاتمے سے 2 برس پہلے ہی طے کر لیے تھے۔ اس کی تشکیل میں ان ماہرین کے سامنے اس سے قبل اقوام عالم لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجوہات کے ساتھ ساتھ سیاسی نوآبادیاتی نظام کی جگہ نئے اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں پرانے سیاسی نوآبادیاتی عالمی نقشے کے مطابق بڑی قوتوں کے اِن ملکوں پر آزادی کے بعد  معاشی اقتصادی تسلط کے لیے 5 قوتوں کو ضمانت دی گئی۔ اقوام متحدہ کا ادارہ جو اپنے چارٹر کے اعتبار سے دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ کے لیے حوصلہ افزائی کا سب سے اہم اور بڑا ادارہ ہے  اور اس کی جنرل اسمبلی میں اس کے تمام 193 آزاد ملکوں کو برابری کے لحاظ سے ووٹ کا حق ہے، وہاں یہی اقوام متحدہ کا ادارہ سب سے غیر جمہوری ہے، جنرل اسمبلی کی اکثریت کے کسی بھی فیصلے کو اس کی سیکیورٹی کونسل کے 5 ممبر بڑے طاقتور ملکوں میں سے کوئی ایک اپنا ویٹو کا حق استعمال کر کے مسترد کر دیتا ہے۔

عالمی ماہرین اسی سکیورٹی کونسل کو یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ اسی کی وجہ سے دنیا گذشتہ 73 برسوں سے اب تک کسی ممکنہ تیسری جنگ عظیم سے محفوظ ہے، منطقی لحاظ سے شائد یہ درست بھی ہے کیونکہ اس سیکیو رٹی کونسل میں پوری دنیا کے ممالک کے متفقہ فیصلے کو ایک طاقتور ملک کا ویٹو کا اختیار مسترد کر دیتا ہے اور اس ویٹو پاور کو سب تسلیم کر لیتے ہیں تاکہ عالمی سطح کی قوتوں میں تنازعہ جنگ کی حد تک نہ پہنچے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد عالمی بنک اور خصوصاً امریکہ کی جانب سے قدرے حقیقت پسندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا مگر اس میں بھی اس کا اپنا مفاد پوشیدہ تھا، جنگ کے بعد جاپان کے فاتح General Douglas MacArthur کی تجاویز پر جاپان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کے بجائے مغربی یورپی ممالک کی طرح اس کی بھی تیز رفتار تعمیرنو کے مراحل شروع ہوئے  اور دوسری جنگ عظیم کے بعد 7,5 برسوں ہی میں آئی ایم ایف، عالمی بنک اور امریکی امداد سے مغربی یورپی ممالک اور جاپان مستحکم ہو گئے۔ یہ اس لیے بھی کیا گیا تھا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اس وقت سابق سوویت یونین کی سرپرستی میں جس تیز رفتاری سے اشتراکی نظام دنیا میں پھیل رہا تھا  اس کے لیے جنگ سے تباہ شدہ مغربی یورپی ممالک اور جاپان کی صورتحال بہت موزوں تھی۔ اب جہاں تک تعلق ان ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا تھا جو نوآبادیاتی قوتوں سے سیاسی طور پر آزادی حاصل کر رہے تھے اِن کے لیے پرانے شکاریوں نے نیا جال بن لیا تھا، یہ اقتصادی نوآبادیاتی نظام کا خوبصورت جال تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے قابض نوآبادیاتی قوتوں کو ان کے شیڈول کے مطابق غلام ملکوں کو آزاد کر دینے کی مدت کا اختیار دیا ہوا تھا اور بعض ملکوں میں تو وہاں کی نوآبادیاتی دور کی مقامی حکومتوں سے معاہدے بھی کئے ہو ئے تھے۔

یوں 1946-47ء سے دنیا میں نوآبادیاتی غلام ملکوں کو مرحلہ وار سیاسی آزادیاں دینے کا آغاز ہوا اور 70ء کی دہائی تک عرب امارت سمیت بہت سے ممالک آزاد ہوئے، جبکہ ہانگ کانگ کو 1990ء کی دہائی میں معاہدے کے مطابق چین کے حوالے کیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ غلام ملکوں کے عوام جدید تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغربی ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے تھے، یوں برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال، اسپین، اٹلی اور پھر بہت سے مقامات پر دوسری جنگ عظیم میں بڑے فاتح کے اعتبار سے امریکہ جب یہاں سے رخصت ہوئے تھے تو انھوں نے یہاں سیاسی نوآبادیاتی نظام کی جگہ چار طریقوں سے ان ملکوں پر اپنا اقتصادی کنٹرول رکھا۔

1 ۔ کسی ملک سے رخصت ہونے سے قبل سرحد کی تقسیم اس طرح کی کہ ہمسائے ممالک سے تنازعات پیدا کر دیئے گئے۔

2 ۔ جاتے وقت ہی ان 9 آزاد ملکوں کو قرضوں میں جکڑ لیا گیا اور بعد میں ان پر مزید قرضے ڈالتے گئے۔

3 ۔ جن ملکوں میں معدنی ذخائر تھے یا ان کی بندرگاہیں اہم تھیں وہاں سرمایہ کاری کے نام پر کمپنیوں نے اپنی اپنی سابق نوآبادیات کے لحاظ سے اجارہ داری قائم رکھی، مثلا مصر کی Suez Canal جس کو بعد میں جرات سے President Gamal Abdel Nasser نے فرانس اور برطانیہ سے جنگ کر کے قومی ملکیت میں لے لیا مگر جہاں تک تعلق تیل کی تلاش، تیل نکالنے اور اس کی تجارت کے معاہدے تھے ان میں سے بیشتر پر اب تک انہی مغربی ملکوں کا تسلط قائم ہے۔

4 ۔ مقامی لیڈر شپ کو کرپٹ کیا اور کرپشن سے حاصل کیے جانے والے لیڈروں کے کالے دھن کو اپنے ملکوں میں تحفظ دیا اور یہ سب سے خطرناک صورت تھی جس نے پوری دنیا کو کسی نہ کسی انداز سے نقصان پہنچایا۔

جہاں تک تعلق پاکستان کا ہے تو یہاں ان چار طریقوں میں سے زیادہ تر تین پر عملدرآمد ہوا۔ سرحدی تناعات: جب 3 جون 1947ء کو Lord Mountbatten نے اعلان آزادیِ ہند کیا  تو اس وقت بنگال اور پنجاب میں مجموعی طور پر اور قدرے اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر بنگال کے مغربی حصے میں ہندو اکثریت میں تھے اور پنجاب میں مشرقی حصے میں سکھ اور ہندو، آزادیِ ہند کا قانون جب برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بنایا گیا تو ان دونوں بڑی آبادی والے صوبوں کی تقسیم کے لیے Red Cliff ایوارڈ تشکیل دیا گیا اور Red Cliff نے مشرقی پنجاب کی مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل Tehsil Gurdaspur ، Frozenpur اور zira کو بھارت کے حوالے کر کے پانی کی تقسیم اور کشمیر کے لیے بھارت کو راستہ فراہم کر دیا، یوں پاکستان اور بھارت کو آزادی کے وقت ہی دو بنیادی مسائل کے تحت ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا گیا اور ان دونوں ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہی آزادی کے ایک سال بعد ہو گئی۔

یہی صورتحال مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان ہوئی۔ باقی دو طریقوں کو بھی اسی وقت استعمال کیا گیا یعنی ملکی معیشت پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ اور لیڈر شپ کی کرپشن، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی لیڈر شپ اکتوبر 1951ء سے پہلے کرپٹ نہیں تھی مگر پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب ملک میں اقتدار پر بیورکریسی نے قبضہ کر لیا تو کرپشن عام ہونے لگی، جہاں تک تعلق قرضوں کا تھا تو اس کے لیے بھارت نے منفی کردار ادا کیا، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ملک کی زمین کی تقسیم کے ساتھ اس کے اثاثوں، فوجی ساز و سامان اور سنٹرل بنک آف انڈیا کے محفوظ سرمائے جس کی مالیت اس وقت 4 ارب روپے تھی اس میں سے ایک ارب روپے پاکستان کا حصہ تھا، مگر بھارت کے پہلے وزیر اعظم Pandit Jawaharlal Nehru نے اس سرمایہ کی منتقلی میں نہ صرف بہت دیر کی بلکہ Gandhiji کی تاکید کو نظرانداز کرتے ہوئے بے ایمانی کی اور صرف 20 کروڑ روپے دئیے اور ساتھ ہی ہندوستان کے واجب الادا قرضوں کا ایک حصہ بھی پاکستان پر ڈال دیا کہتے ہیں کہ اس وقت Quaid-e-Azam کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ امریکہ سے قرض لیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا، لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان کا صرف پہلا قومی بجٹ مالی سال 1948-49ء تھوڑے سے خسارے کا بجٹ تھا، اس کے بعد مسلسل کئی قومی بجٹ خسارے کی بجائے بچت کے بجٹ تھے۔

یوں اگر شروع میں پاکستان کی اس مضبوط مالی پوزیشن کو برقرار رکھا جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ملک اسی وقت سے مالیاتی اور اقتصادی طور پر بھی آزاد اور خودمختار ہوتا۔ مگر جب Liaqat Ali Khan نے اپنی شہادت سے ایک سال قبل امریکہ کا دورہ کیا تو اس وقت سے امریکی امداد کا سلسلہ شروع تھا بہت سے شعبوں میں امداد پہلے 12,10 برسوںمیں مفت تھی جس میں امدادی طور پر دی جانے والی گندم بھی شامل تھی، مگر پھر آسان شرح سود اور واپسی پر قرضے شروع ہو گئے۔ صدر General Ayub Khan کے دور حکومت تک نہ صرف 1952ء  میں بلوچستان میں دریافت ہونے والی قدرتی گیس کے معاہدے ہو چکے تھے بلکہ 1961-62ء میں Indus Waters Treaty کے تحت 6 دریائوں میں سے 3 مشرقی دریائوں کے پانیوں پر بھارت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ورلڈ بنک کی مالی معاونت سے Mangla and Turbella Damsکی تعمیر کے معاہدے بھی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ہوئے تھے، لیکن اس وقت تک بھی کرپشن کی سطح اور حد خطرناک نہیں ہوئی تھی اور اوپر کی سطح پر کرپشن کو قواعد و ضوابط کے بہتر نظام نے کنٹرول میں رکھا تھا۔ اس کی ایک وجہ اخلاقی، تہذیبی اقدار کی سماج میں پاسداری بھی تھی۔

اس دوران 5 مئی 1960ء کو پشاور کے قریب Bud Bair میں امریکی ہوائی اڈے سے پرواز کرنے والے U2 جاسوی طیارے کو روس نے مار گرایا  اور سابق سوویت یونین کے وزیر اعظم Nikita Khrushchev نے شدید برہمی کا اظہار بھی کیا۔ پاکستان اس وقت Setu اور Santo معاہدوں کا رکن بھی تھا اس سے پاکستان پر شدید تنقید تو ہوئی مگر فوری طور پر پاکستان کو اقتصادی اور مالیاتی طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچا۔  پاکستان پر آزادی کے بعد قرضوں کا کوئی قابل ذکر بوجھ نہیں تھا اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 1951ء کی مردم شماری کے مطابق 3 کروڑ 40 لاکھ تھی، ایک امریکی ڈالر کی قیمت 1954ء تک 3 روپے تھی، 1961ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ ہو گئی جس میں مغربی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ تھی، اس دوران پاکستان کے تعلقات امریکہ اور برطانیہ سے بہت اچھے تھے، 1945-53 امریکہ میں Harry S. Truman ، 1953-61ء میں Dwight D. Eisenhower صدر رہے جبکہ برطانیہ میں 1945-51ء Clement Attlee اور 1951-55ء میں دوبارہ Winston Churchill ، 1955-57ء Sir Anthony Eden ، 1957-63ء میں Harold Macmillan وزیر اعظم رہے۔ اکتوبر 1951ء میں Liaqat Ali Khan کی شہادت سے لے کر 1955ء تک 121 ملین ڈالر کے قرضے لیے گئے۔1960 تک یہ رقم 365 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔

اس دوران پاکستان نے سرد جنگ میں سابق سوویت یونین کے خلاف اور امریکہ و برطانیہ کے حق میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دور میں بھارت کے وزیر اعظم Pandit Jawaharlal Nehru نے بطور جمہوری ملک اس وقت عالمی سطح پر شہرت کے ساتھ اہمیت بھی اختیار کر لی۔ جہاں تک پاکستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو اس وقت بھی پاکستان نے کوشش کی کہ سوویت یونین اور چین سے اس کے بھی تعلقات بہتر ہوں مگر ہندوستان نے پہلے ہی سے سیکولر نظریہ کے تحت بھارت کا آئین تشکیل دے کر چین اور روس سے بہتر تعلقات قائم کر لیے تھے اور پاکستان چونکہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس لیے نظریاتی طور پر ان دونوں ملکوں سے تعلقات بھارت کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ بہتر نہیں تھے اور پاکستان کے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ امریکہ سے اس لیے تعلقات قائم کرے کہ اسے بھارت سے خطرات لاحق تھے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ لیاقت علی خان کے بعد ہم امریکی تعلقات کے لحاظ سے سابق سوویت یونین اور چین سے اپنے تعلقات کو متوازن نہ کر سکے لیکن 60ء کی دہائی کے آغاز پر جب پہلے سوویت یونین، چین اور پھر 1962ء میں چین اور بھارت تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان کو علاقے میں بھارت کے مقابلے میں اپنے ہمسائے میں چین جیسے بڑے اور اہم ملک سے تعلقات کو بہتر اور مضبوط کرنے کا مو قع ملا اور خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کے دور میں پاک، چین تعلقات کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر آج سی پیک یعنی پاک، چین راہداری اہم ہے تو اس وقت Karakoram Highway اہم تھی  کہ پاک فوج نے یہاں ہمالیہ کے درے میں دنیا کے بلند مقام پر نہایت دشوار گذار علاقے میں یہ شاہراہ تعمیر کی تھی۔  یہ پاکستان میں بڑے اور اہم منصوبوں کی تعمیر کا تاریخی دور تھا، جب ایک جانب Mangla اور Turbella ڈیمز تعمیر ہو رہے تھے تو دوسری طرف اس عظیم شاہراہ کی تعمیر تھی۔

اس دوران 1965ء کی پاک، بھارت جنگ ایک اہم اور بڑا واقعہ تھا۔ اس جنگ میں اگرچہ پاکستان کو سبقت حاصل رہی مگر پاک، امریکہ تعلقات کو سرکاری سطح پر کم اور عوامی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور بھارت پر ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی عائد کر دی، بھارت تو سوویت یونین سے بھی اسلحہ لیتا تھا جبکہ پاکستان کا سارا دارومدار صرف امریکہ پر تھا اس لئے بھارت کے مقابلے میں امریکی اسلحہ کی بندش کا کہیں زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا اور یہی وجہ تھی کہ President Ayub Khan کو معاہدہ Tashkent کرنا پڑا۔ 1961-63 میں امریکہ میں John F. Kennedy ، 1963-69ء Johnson اور 1969-74ء میں Richard Nixon صدر رہے۔جبکہ برطانیہ میں 1963-64ء میں Sir Alec Douglas-Home ، 1964-70ء میں Harold Wilson وزیر اعظم رہے۔ 1965 سے پاکستان بحران کا شکار ہونے لگا۔ امریکی امداد گرانٹ یعنی ناقابلِ واپسی جو، گندم اور دیگر غذائی اجناس کی صورت میں ملتی تھی اس میں بہت زیادہ کمی آئی، مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا۔ بھٹو کے استعفیٰ کے بعد سیاسی بحران بڑھنے لگا۔ 1969ء میں جب صدر ایوب خان رخصت ہوئے اور General Yahya Khan صدر ہوئے تو پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 2.7 ارب ڈالر ہو گیا۔ 1970 میں ملک میں پہلے عام انتخابات کرائے گئے۔ دسمبر 1971ء میں ملک دولخت ہو گیا۔ اس دوران ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے پر اس کے حصے کا قرض بھی پاکستان پر آن پڑا اور بیرونی قرضے کا حجم 3 ارب ڈالر ہو گیا۔

اس دوران صدر Richard Nixon ، صدر General Yahya Khan اور پاکستانی چینی وزارت خارجہ کی باہمی رضامندی سے امریکی وزیر خارجہ Henry Kissinger نے چین کا خفیہ دور کیا جو سابق سوویت یونین اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے فوراً بعد میں ہوا تھا۔ مگر یہ دورہ خفیہ نہ رہ سکا اس لیے بھارت اور روس میں جنگ 1971ء سے پہلے دفاعی معاہدہ ہو گیا جس کا پاکستان کو دوران جنگ بہت نقصان ہوا۔1972 میں ملک میں مردم شماری ہوئی جس کے مطابق کل آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ ہو گئی جبکہ 1970 ء میں ڈالر کی قیمت 5 روپے اور 1972ء میں 10 روپے ہو گئی مگر یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا  کہ پاکستان کی تجارت پہلے 50ء کی دہائی میں کوریا کی جنگ میں Surplus ہوئی اور پھر 1972 ء میں روپے کی قیمت میں زیادہ کمی کی وجہ سے ہوئی۔ 1972 تا 1977 ء پاکستان میں ترقی کا حقیقی دور رہا اور صدر ایوب خان کے بعد ملک میں اسٹیل ملز سمیت بڑے ترقیاتی اور پیداواری یونٹ لگائے گئے لیکن ان کے ثمرات ابھی شروع ہی ہوئے تھے کہ پہلے ملک میں سیاسی بحران نمودار ہوا اور پھر افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجی جارحیت سے صورتحال علاقائی اور عالمی سطحوں پر بدلنے لگی  اور 1946-47ء سے شروع ہونے والی سرد جنگ شدت اختیار کرتے ہوئے اپنے حتمی انجام کی جانب تیزی سے بڑھنے لگی۔ 1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 6.3 ارب ڈالر ہو گیا تھا، 1981ء میں آبادی 8 کروڑ 37 لاکھ ہو گئی۔ اس کے بعد اگست 1988ء تک صدر General Zia ul Haq کی حکومت رہی جس میں1985ء سے 1988 ء تک وزیر اعظم Mohammad Khan Junejo رہے۔

اس دور میں 1974-77 ء میں Gerald Ford ، 1977-81 ء میں Jimmy Carter اور 1981-89 ء میں Ronald Reagan امریکہ کے صدر رہے جبکہ برطانیہ میں 1970-74ء میں Edward Heath ، 1674-76 ء میں Howard T. “Ted” Welser ، 1976-79 ء میں James Gallagher اور 1979-90 ء میں Margaret Thatcher وزرا اعظم رہے۔ 70ء کی دہائی میں 1973 ء کی عرب، اسرئیل جنگ کے بعد تیل کے عالمی بحران کے ساتھ یورپ اور امریکہ اپنی عالمی سیاسی اقتصادی منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں پر نظرثانی کرتے رہے، بھٹو دور حکومت میں 35 لاکھ پاکستانیوں کے بیرون ملک جانے اور وہاں سے کما کر زرمبادلہ بھیجنے کی وجہ سے پاکستا ن میں نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے بلکہ مستحکم بھی ہوئے جبکہ 1977-88 ء میں ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 12.913 ارب ڈالر ہو گیا۔ 1988 میں ڈالر کی قیمت 20 روپے ہو گئی۔

1988 سے1999ء تک دو، دو مرتبہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں رہیں۔ 1998 میں مردم شماری کرائی گئی اور آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ ہو گئی۔ اس دوران 1989-93ء میں George HW Bush ، 1993 ء تا 2001 ء میں William Jefferson Clinton امریکہ کے صدور رہے اور برطانیہ میں 1990-97ء میں John James ، 1997 ء تا 2007 ء میں Tony Blair وزیر اعظم رہے۔ پاکستان، برطانیہ کی نوآبادی رہا تھا جبکہ افغانستان، روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان حائلی ریاست Buffer state  تھا۔ اس کے Buffer state بننے کے دوران تین Anglo-Afghan Wars 1839-42، اس کے بعد 1878ء اور آخری برطانوی، افغان جنگ 1919ء میں ہوئی۔

1878 کے بعد انگریزوں نے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ریلوے لائنیں بچھائیں جو اس زمانے میں بھی خسارے میں تھیں اور ان کا خسارہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی ریلوے کمپنیاں اپنے نفع کے کچھ حصے سے پورا کرتی تھیں۔ یوں 1945ء میں جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ میں اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں اس محاذ پر امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کو زک پہنچ رہی تھی، اس لیے یہاں افغان مجاہدین کی بھرپور مدد کی گئی اور گرانٹ کی صورت میں پاکستان کے نقصان کے ازالے کی بھی کوشش کی گئی مگر یہ یہاں زیادہ تر رقوم فوجی اسلحہ اور ہتھیاروں پر خرچ ہوئیں جس میں اسٹنگر میزائل جیسے مہنگے ہتھیار بھی شامل تھے، اور جہاں تک پاکستان کے نقصان کے ازالے کی بات ہے تو یہ اس وقت بھی اصل نقصان کے مقابلے میں رقم بہت کم تھی۔ امریکی حکومت نے یہاں اس وقت بھی بہت سی رقوم براہ راست خرچ کیں۔

اس تمام تر صورتحال کا سماجی، سیاسی، اقتصادی نقصان بھی پاکستان کو ہوا جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ 1988 میں ڈالر 20 روپے کا تھا جو 1997ء میں 40 روپے کا ہو گیا  اور 2001 ء میں ڈالر کی قیمت 60 روپے ہو گئی۔ اسی طرح بیرونی قرضوں کے مجموعی حجم میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، 1988 میں بیرونی قرضے 12.913 ارب ڈالر تھے جو 1990ء میں بڑھ کر 22.28 ارب ڈالر،  1991ء میں 24.8 ارب ڈالر، 1993ء میں 27.6 ارب ڈالر، 1994ء میں 31.1 ارب ڈالر، 1995ء میں 32.7 ارب ڈالر،  1996ء میں 34.7 ارب ڈالر،  1997ء میں 35.8 ارب ڈالر،  1998ء میں 35.8 ارب ڈالر،  1999ء میں 36.5 ارب ڈالر ہو گئے۔

اِس دوران مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے اور اکتوبر 1999 ء میں General Pervez Musharraf نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کر دیا اور 2 سال تک اقتصادی اصلاحات کی اجازت کے بعد ملک میں عام انتخابات کروائے گئے۔ پرویزمشرف کے آنے کے بعد ایک جانب ابتدائی دنوں میں ان کے وزیر خزانہ شوکت عزیر جو بعد میں وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے 2000 ء تا 2002 ء انہوں نے اخراجات پر کنٹرول کیا۔ اس دوران 9 ستمبر 2001 ء کے واقعہ نے پہلے ہماری معیشت کو دھچکا لگایا  مگر فوراً بعد میں امریکہ کے مفادات کی وجہ سے امریکی امداد اور دہشت گردی کے خلافت معاونت اور پاکستان کی سرزمین کے استعمال کے نقصانات کے ازالے کے لیے سپورٹ فنڈ کی مد میں بھی فنڈز آنے لگے جس کو حالیہ دنوں میں امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالتے ہوئے روک دیا اور اب پھر سے نرمی کا عندیہ دیا ہے۔ یوں پرویز مشرف کے زمانے میں خصوصا عام انتخابات 2002 ء کے بعد سے صدر پرویز مشرف کی رخصتی 2008 ء تک ملک پر بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 40.5 ارب ڈالر تھا، 2008 ء میں ڈالر کی قیمت 80 روپے ہو گئی، 2001 ء سے 2009 ء تک بش سینئر کے بیٹے George W. Bush امریکہ کے صدر ہوئے، جنہوں نے پہلے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیں اتاریں اور بعد میں مشرق وسطیٰ میں بھی کاروائی شروع کر دی۔ ان کے بعد 2009-17 ء میں Barack Obama امریکہ کے صدر رہے اور پھر 2017 ء سے تاحال Donald Trump امریکہ کے صدر ہیں اور برطانیہ میں 2007-10 ء میں Gordon Brown کے بعد David Cameron اور اب 2 سال سے Theresa May وزیر اعظم ہیں۔ 2013 ء میں ہمارے ہاں ڈالر 100 روپے کا تھا۔ 2017 ء میں مردم شماری کرائی گئی جس میں پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ ہو گئی۔ 2017 ء تک ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر 104 روپے رکھا گیا۔  2018 ء جون میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے وزیر خزانہ Ishaq Dar کے برطانیہ میں بظاہر علاج کی وجہ سے Muftah Ismail کو وزیر خزانہ مقرر کیا،  حالانکہ اس وقت اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت مالی سال 2017-18 ء کا بجٹ پیش نہ کرے کہ اخلاقی طور پر اسے اس کا جمہوری حق حاصل نہیں، مگر مسلم لیگ ن کی حکومت کے وزیر اعظم Shahid Khan Abbasi کی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ وہ 3 مہینے کا مختصر بجٹ پیش کرنے کی بجائے آئندہ مالی سالی کا پورا بجٹ پیش کرے گی، یوں ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی منتخب حکومت نے اپنی 5 سالہ حکومت میں 6 بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ قائم کیا، اس بجٹ کے بعد ڈالر کی قیمت 140 تک پہنچی اور اب ڈالر 130 روپے کا ہے۔

27 ستمبر 2018 ء کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 40 دن پورے ہونے پر وفاقی وزیر توانائی Omar Ayub Khan اور وفاقی وزیرِ اطلاعات Fawad Chaudhary نے مشترکہ کانفرنس میں ملک کی اقتصادی مالیاتی صورتحال بیان کی۔ Omar Ayub Khan جو سابق صدر General Ayub Khan کے پوتے اور سابق وزیر خارجہ Gohar Ayub Khan کے بیٹے ہیں اور 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ انہوں نے بجٹ مالی سال 2018-19 ء کے بارے میں انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ سینکڑوں اربوں روپے کے اعداد و شمار کو بجٹ دستاویز میں چھپایا گیا اور ایسے اقدامات کئے گئے جو پی ٹی آئی کی حالیہ حکومت کے لیے ٹائم بم یا بارودی سرنگ ثابت ہو رہے ہیں اور ان کی پوری تفصیلات سے آگاہ کیا،2013 ء کے آخر تک قرضے 66 ارب ڈالر تک پہنچے، ان میں سے پی پی پی حکومت نے کچھ واپسی بھی کی مگر 2013 ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری سال جون 2018 ء تک بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر کی حد کو عبور کر گئے، اور اندرونی، گردشی قرضے، 29 ہزار ارب روپے بتائے جا رہے ہیں۔

یوں پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی شدید معاشی، اقتصادی اور مالیاتی بحران کی زد میں ہے اور یہ صورتحال ملک کو اس وقت لاحق ہے جب پوری دنیا میں سیاسی فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے بڑی قوتیں ایک جانب ترقی پذیر ملکوں پر اقتصادی مالیاتی معاشی دبائو میں اضافہ کر رہی ہیں تو دوسری جانب امریکہ اور چین کے درمیان اب تقریباً 300 ارب ڈالر سے زیادہ تجارتی مال پر ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافہ کر کے ایک تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ روس پر اور اس کے خلاف ہتھیار و اسلحہ کی فروخت خصوصاً روس کے جدید میزائلوں کی فروخت پر بھی امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ ایران اور روس سے تجارت اور کاروباری معاہدوں کی بھی امریکہ مخالفت کر رہا ہے اور اس طرح اب امریکہ کا دبائو بھارت پر بھی پڑنے لگا ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کو نہ صرف اپنے قرضے واپس کرنے ہیں بلکہ تیز رفتاری سے اپنے پیداواری شعبوں کو مستحکم کر کے پیدوار اور روزگار میں اضافہ کرنا ہے، تجارتی توازن کو اپنے حق میں کرنا ہے، یہ تمام امور جتنے اہم ہیں اتنے ہی مشکل بلکہ مشکل ترین ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اصل قرضوں کی واپسی تو اپنی جگہ ان پر واجب الادا سود ہی تقریباً 9 ارب ڈالر تک پہنچ رہا ہے۔ 27 ستمبر ہی کو خاتونِ اول محترمہ Bushra Bibi نے ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ عمران خان کے پاس کوئی جادو نہیں کہ اتنے مسائل چند دنوں میں حل ہو جائیں لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ مسائل وہ اپنے دور حکومت میں حل کر دیں گے۔ ہمیں بھی وزیر اعظم سے یہی امید ہے لیکن حقائق کی روشی میں دیکھیں تو اس کی دو، تین صورتیں ہی نظر آتی ہیں، اچانک ہمارے ملک میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو جائیں یا امریکہ کسی طرح پھر کہیں اس طرح پھنس جائے کہ پاکستان کے قرضوں کی معافی بھی ہو جائے، امریکہ اور مغربی یورپ کی طرف سے ناقابلِ واپسی یعنی اربوں ڈالر اور یورو کے دروازے کھل جائیں اور تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت ملک میں ہر صورت واپس لائی جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ حالیہ قانون کے تحت اس دولت کو واپس لانے میں طویل عرصہ درکار ہے۔ یوں یا تو اس کے لیے نئے اور سخت قوانین فوراً بنائے جا سکتے ہیں مگر وہ اس لیے ممکن نہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے اہم لیڈروں کے خلاف زیادہ تر مقدمات ہیں پی ٹی آئی اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ میں اتنی اکثریت نہیں کہ وہ ان دونوں جماعتوں کی شراکت کے بغیر قانون سازی کر سکیں پھر یہ بھی ہے کہ چند کالی بھیڑیں اِن میں بھی موجود ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ عمران ان کی قربانی پر راضی ہیں، یوں ایک ہلکی سی امید یہ ہو سکتی ہے کہ جہاں تک حالیہ قوانین کا تعلق ہے تو ان کے تحت اس وقت بیرون ملک سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت اس طرح واپس لائی جا سکتی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کا قبلہ مکمل طور پر درست ہو جائے اور وہ ممالک جہاں یہ دولت موجود ہے ان کو تعاون کے لیے آمادہ کر لیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 100 دنوں کی مدت میں عمران خان اس حوالے سے کتنی حوصلہ افزا پیشرفت کرتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply