پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن اتحاد: کیا ممکن ہے؟

آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی حکومت کے خلاف تحریک اعتماد کے لیے 31 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے

آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی حکومت کے خلاف تحریک اعتماد کے لیے 31 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے

 اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

نواز شریف کا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہ بننے کا امکان، آصف زرداری نے موجودہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملا لیا، جے یو آئی (ف) کے سربراہ کو نواز شریف کو منانے کا ٹاسک بھی دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر مملکت آصف زرداری تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے متحرک ہو گئے ہیں۔

آصف زرداری 2 ماہ کے بعد ہی تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ نہ حکومت چلانا تحریک انصاف کی بس کی بات ہے، نہ ہی ملک۔  آصف زرداری نے کھلے عام عمران خان کی حکومت کے خلاف طبل جنگ بجاتے ہوئے جے یو آئی (ف)  کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے 31 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ آصف زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کیلئے نواز شریف کا منانے کا ٹاسک مولانا فضل الرحمان کو سونپا ہے۔

تاہم اس حوالے سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو ختم کرنے کی کسی تحریک کا حصہ بنیں گے۔ نواز شریف اس وقت خود مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ خود پر بنے کیسز کو ختم کروانے کیلئے نواز شریف پس پردہ معاملات بھی طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے اس وقت قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنے کیلئے نواز شریف، آصف زرداری کا ساتھ نہیں دیں گے۔ تاہم نواز شریف اپنے وقت کا انتظار ضرور کریں گے۔ اگر آنے والے چند ماہ میں حکومت مہنگائی کے طوفان کو قابو میں کرنے اور ملک کے حالات بہتر کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، تو تب ہی نواز شریف موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف باہر نکلیں گے۔ اس سے قبل نواز شریف موجودہ حکومت کو ختم کرنے کی کسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

دوسری جانب قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم کو کیا حاصل ہوا؟ شاید یہ کہنا صحیح ہو گا کہ عوام کے جوش و خروش میں اضافہ ہو گا۔ جن کی بہت بڑی تعداد بدترین حالات میں بھی ان کے پیچھے صف بستہ کھڑی ہے۔ عوام کی عظیم اکثریت میں اطمینان کا کچھ نہ کچھ احساس ضرور جنم لے گا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کے خوف میں اضافہ کر کے اتحاد کے امکان کو کچھ نہ کچھ بڑھا دے گا۔ 31اکتوبر کو جو کل جماعتی کانفرنس میں جمع ہونے والے ہیں۔ اپوزیشن کے ایسے بھرپور اور حقیقی اتحاد کا بظاہر کچھ زیادہ امکان نہیں، جو ایک عوامی تحریک برپا کر کے، حکومت کو اکھاڑ پھینکے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اور کچھ لیڈر اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوششوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وزیر اعظم کے اس دعوے میں صداقت کا کچھ نہ کچھ عنصر ضرور پایا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض بالخصوص آصف علی زرداری اور نواز شریف کسی طرح کی خاموش مفاہمت کے آرزو مند ضرور ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک سینیٹ کے چیئرمین Sadiq  Sanjrani کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی تیاریاں شروع ہو چکی ہوتیں۔ پراسرار طور پہ خاموشی اختیار کرنے کی بجائے  نواز شریف دھاڑ رہے ہوتے۔ تمام دوسرے لوگوں کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر اپوزیشن کو ادراک ہے کہ کوئی بھی نئی حکومت قائم ہونے کے چند ہفتے بعد اسے رخصت کرنے کی کوشش ناکام رہتی ہے۔

14 اگست 2014 ء کو عمران خان نے ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے کا آغاز شریف حکومت تشکیل پانے کے سال بعد کیا تھا۔ ایمپائر کا کردار ادا کرنے کے خواہش مند پسِ پردہ ڈوریاں ہلانے والے کچھ طاقتور لوگوں کی تائید بھی حاصل تھی۔ اس کے باوجود وہ بری طرح ناکام رہے۔ ان کے سوکھے دھانوں پر اس وقت پانی پڑا جب پاناما سکینڈل نے ن لیگ کے اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا۔ سپریم کورٹ اور نیب کو بروئے کار آنے کا موقع ملا اور بالآخر جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف نے بگاڑ پیدا کر لیا۔ اس کے باوجود ن لیگ کی حکومت 5 سال پورے کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے باوجود کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور انہیں جیل جانا پڑا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے باوجود زرداری حکومت نے بھی پانچ سال مکمل کیے تھے   حالانکہ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ رائے عامہ بھی ناراض تھی۔ اس قدر ناخوش کہ 2013 ء کے الیکشن میں اس کی بساط اس طرح لپیٹ دی کہ مستقبل قریب میں اس کے برسرِ اقتدار آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ایسے حالات میں ایک کمزور اپوزیشن کو متحد کر کے نسبتاً مضبوط ہونے کا موقع دینا دانائی بہرحال نہیں۔

وزیر اعظم کا یہ اصرار کس قدر سطحی ہے کہ قوم نے انہیں احتساب کے لیے حکومت بخشی ہے۔ کرپشن کے خاتمے ہی کی نہیں قوم نے انہیں ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے ملازمتیں فراہم کرنے اور ملک کو استحکام عطا کرنے کا مینڈیٹ بھی دیا ہے۔ ان کا نہیں احتساب نیب اور عدالتوں کا کام ہے  جسے وہ بخوبی بلکہ کچھ زیادہ سرگرمی سے انجام دے رہی ہیں۔ حقیقی عدل وہ ہوتا ہے جو ہوتا دکھائی بھی دے۔ نمایاں اپوزیشن لیڈروں کے کرپٹ ہونے میں کوئی شبہ نہیں، لیکن کیا تحریک انصاف کے سب لیڈر بے داغ ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا میں کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا اس کے علاوہ کہ ان کی نہیں، یہ قومی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

وائٹ کالر کرائم کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ حقیقی نتائج اگر حاصل کرنا ہوں تو احتساب کبھی مکمل طور پر موثر بہ ماضی نہیں ہوتا۔ گنتی کے چند بڑے مجرموں کو سزا دے کر حکومت کی رٹ قائم کرنا ہوتی ہے تاکہ خوف پیدا ہو اور آئندہ سے لوٹ مار کا سلسلہ رک جائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ خود حکمران پارٹی کے ان لوگوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے جو قصور وار ہوں۔ شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق کے خلاف الزامات بظاہر درست نظر آتے ہیں۔ اپنے مالی اور باورچی کے نام پر کاروبار کرنے والے جہانگیر ترین کس بل پر پنجاب حکومت کے افسروں کو احکامات جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن میں سے بعض نے مبینہ طور پر تعمیل سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ سے بات کریں۔ وہ وزیر اعلیٰ جو مبینہ طور پر فائلیں دبائے بیٹھا رہتا ہے۔

سیاست کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس رائے سے اتفاق کرے گا کہ احتساب کا غیر ضروری شور شرابہ نہیں، عملاً ہونا چاہئے۔ سرمایہ بہت حساس ہوتا ہے  اس بارے میں بہت زیادہ شور شرابہ  سرمائے کے فرار کا سبب بنتا ہے۔ یہ پہلے ہی ایک سنگین مسئلہ ہے اور جلد جس کے حل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔  وزیر اعظم جانتے ہیں کہ اصل خطرہ معاشی بحران سے ہے۔ 50 لاکھ نہ سہی 10 لاکھ مکان بھی اگر تعمیر کرنا ہیں تو 40 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ سرمائے کے فرار کا سلسلہ اگر جاری رہا تو سیمنٹ اور سریے کیلئے روپیہ کہاں سے آئے گا؟  قومی سرمایہ کار ہی اگر بھاگ گئے تو غیر ملکی اس مارکیٹ کا رخ کیوں کریں گے؟ بدترین حالات میں سعودی عرب کی امداد ایک عظیم کامیابی ہے۔  یہ ایک بہت مشکل فیصلہ تھا کہ کالم نگار Jamal Khashoggi کے قتل نے دورے کو دشوار کر دیا تھا۔ اب متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور چین سے بھی آسان شرائط پہ کچھ قرض مل سکے تو بحران ٹل جائے گا۔ ملک کو درپیش چیلنج تقاضا کرتے ہیں کہ بند پڑے سینکڑوں کارخانے کھل جائیں کسانوں کو غیر سودی قرضے دئیے جائیں۔ برآمد کنندگان اور کاشتکاروں کو خصوصی مراعات ملیں۔ سب سے بڑھ کر امسال کم از کم 4,3 لاکھ مکانوں کی تعمیر کے لیے کام کا آغاز کر دیا جائے۔ غیر ضروری طور پہ اور مسلسل احتساب کا ڈنکا بجانے سے  ان مقاصد کے حصول میں ہرگز کوئی مدد نہ ملے گی۔ اجتماعی زندگی میں کامیابی کا انحصار ترجیحات کا تعین اور سلیقہ مندی سے ان پہ عملدرآمد ہوا کرتا ہے۔ بد قسمتی سے نہ تو وزیر اعظم خود ایک مدبر سیاستدان ہیں اور نہ ہی وہ اچھے مشیر فراہم کر سکے۔

کیا وہ سعودی عرب اور یمن کی مصالحت میں بنیادی کردار ادا کر سکیں گے؟ میرا خیال ہے کہ ابھی یہ سوال ہی قبل از وقت ہے۔ ابھی تو سوال یہ ہے کہ کیا ان مصالحتی مذاکرات کی ابتدا ممکن ہو گی؟ یمن سے زیادہ اہم فریق ایران ہے کہ فعال وہی ہے، اگرچہ وہ دبائو کا شکار ہے اور نومبر میں اس پر نئی پابندیاں عائد ہونے والی ہیں، اگرچہ Jamal Khashoggi کے قتل سے پیدا ہونے والی صورت حال کے علاوہ بھی، دونوں ملک تھکان کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ جنرل باجوہ نے مصالحت کے سلسلے میں تھوڑا سا ابتدائی کام کر رکھا ہے لیکن یہ ایک بہت پیچیدہ چیلنج ہے۔

ایران اور عرب میں سینکڑوں برس سے کشمکش چلی آتی ہے۔ اسرائیل سے خاموش سعودی مفاہمت استوار ہونے اور ایران کے ساتھ امریکی آویزش کے علاوہ، ترکی میں سعودی صحافی Jamal Khashoggi کے قتل نے پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یمن کا المناک قضیہ اگر نمٹ سکے اور اس باب میں پاکستان ایک محدود سا کردار بھی ادا کر سکے تو یہ عمران اور ملک کی خوش بختی ہو گی۔ لیکن فی الحال یہ محض ایک خوش رنگ خواب ہے۔ منزل تک جا پہنچنا تو دور کی بات ہے، آنے والے کل میں اس کا آغاز بھی ایک بڑی کامیابی شمار ہو گی۔  ایسے مشکل مسائل سے ملک دوچار ہے کہ عالمی پیچیدگیوں میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنا آسان نہیں ہو گا۔  یہ طاقت کی دنیا ہے اور اس میں کمزوروں کی کوئی نہیں سنا کرتا۔

مشکل حالات میں، وزیر اعظم کو اظہارِ خیال میں اور بھی زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔ مگر اس کا کیا علاج کہ مسائل حل کرنے کے ہنگام میں وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کئی اعتبار سے حالات ان کے لئے سازگار ہیں۔ آنے والے دنوں میں اور بھی سازگار ہو سکتے ہیں۔ اپوزیشن کی ساکھ خراب ہے۔ مزید خراب ہو سکتی ہے۔ ایک چیز مگر حکمت بھی ہوتی ہے، وزیر اعظم جسے کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک زندگی ایک کرکٹ میچ کی مانند ہے۔ ان کے ذہن پر فتح حاصل کرنے کا خیال غالب رہتا ہے، حکمت عملی کو بعض اوقات اتنی اہمیت بھی وہ نہیں دیتے جتنی ایک کرکٹ میچ میں دی جاتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply