بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان

اب ملک کا ہر بچہ تقریباً 137000 روپے کا مقروض ہو چکا ہے

اب ملک کا ہر بچہ تقریباً 137000 روپے کا مقروض ہو چکا ہے

نیوز ٹائم

پاکستانی معیشت میں چین کی شمولیت  حکومتیں قرض کے لئے آئی ایم ایف سے رابطہ کر چکی ہیں  اور ان سابقہ حکومتوں نے ملکی معاملات چلانے کیلئے قرضوں کے حصول کو ہی اولین ترجیح دی۔ کچھ دنوں پہلے  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کئی روز کی ہچکچاہٹ اور سوچ بچار کے بعد بالآخر قرض کے حصول کے لئے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا جو فیصلہ کیا اس پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے گرما گرم بحث کا سلسلہ جاری ہے حالا نکہ دیکھا جائے تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے  کہ کسی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہو بلکہ 1980ء کی دہائی سے اب تک متعدد حکومتیں قرض کے لئے آئی ایم ایف سے رابطہ کر چکی ہیں  اور ان سابقہ حکومتوں نے ملکی معاملات چلانے کیلئے قرضوں کے حصول کو ہی اولین ترجیح دی۔

ایک اندازے کے مطابق 1999ء میں2800 ارب کا قرضہ تھا جو مشرف دور میں 6000 ارب تک پہنچ گیا، 2008ء سے 2013ء تک یہ قرضہ 6000 ارب سے بڑھ کر 14000 ارب ہو گیا۔ کشکول توڑنے کی دعویدار مسلم لیگ ن کی حکومت جب برسر اقتدار آئی تو اس نے کشکول بھرنے کے ریکارڈ توڑ دیئے  کیونکہ اس دور میں اتنا قرض لیا گیا کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا  اور اب ملک کا ہر بچہ تقریباً 137000 روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت نے گزشتہ 5 سال میں تقریباً30.1 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2013ء  میں غیر ملکی قرضوں کا حجم 60 ارب 90 کروڑ ڈالر تھا جو کہ اب بڑھ کر 91 ارب ڈالر ہو گیا ہے جبکہ 5 سال میں مقامی قرضے 65 کھرب روپے بڑھ گئے۔ سال 2013ء  میں مقامی قرضوں کا حجم 95 کھرب روپے تھا جو کہ اب بڑھ کر 160 کھرب روپے ہو چکا ہے، سابقہ حکومت نے قرض لینے کے لئے یورو بائونڈز، سکوک ہو یا عالمی بینک اور آئی ایم ایف کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا۔ بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان میں قرض معاف کرانے والوں کی بھی ایک طویل فہرست موجود ہے جس کے مطابق گزشتہ 27 برس میں سابقہ حکومتوں نے اپنوں کو نوازنے کیلئے 4 کھرب روپے سے زائد کے قرضے معاف کئے جن میں 988 سے زائد کمپنیاں اور شخصیات شامل ہیں جنہوں نے 4 کھرب 30 ارب 6 کروڑ روپے سے زائد کے قرضے معاف کرائے۔ قرض معانی کے معاملے میں عبداللہ پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا جس نے نواز شریف دور یعنی کہ 2015ء  میں ایک کھرب 54 ارب 84 کروڑ 73 لاکھ، مہران بینک سکینڈل کے مرکزی کردار یونس حبیب نے 1997ء  میں دو ارب 47 کروڑ، ریڈکو ٹیکسٹائل کے مالک اور سابق چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمن نے 2006ء  میں ایک ارب 16 کروڑ 67 لاکھ روپے معاف کرائے۔

ایک طرف پاکستان بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا تھا تو دوسری طرف سابقہ جمہوری ادوار میں جو اندرونی قرضے معاف کئے گئے اس کی ایک طویل داستان ہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے جون میں قرضہ معافی کیس کی سماعت کے دوران 222 افراد کو 3 ماہ میں واجب الادا قرض کا 75 فیصد حصہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے تھے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کئے گئے تو معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کیا جائے گا اور قرض نادہندگان کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی جائیں گی، اب کس نے کس قدر اپنا واجب الادا قرضہ جمع کرایا اس کی تفصیل تاحال سامنے نہیں آ سکی۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستانی حکومت کو قرضوں کے حصول کی وجہ سے ان دنوں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہی معاشی مسائل کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو باضابطہ قرض کیلئے درخواست دی گئی ہے لیکن یہاں امریکہ اور آئی ایم ایف نے نکتہ اعتراض اٹھایا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے قرضہ لینے کی وجہ چینی قرضے ہیں جو پاکستان کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے قرضوں کے بارے میں مکمل اور شفاف معلومات مانگی ہیں بالخصوص چین سے لئے گئے قرضوں کی تفصیلات پر زور دیتے ہوئے پاکستان کو امریکی تحفظات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو چینی قرضے اتارنے کیلئے مزید رقم فراہم نہ کرے۔ آئی ایم ایف نے قرضہ دینے کی کڑی شرائط عائدکر دی ہیں اور ان میں اولین قرضوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس پر حکومت آئی ایم ایف کی اس شرط کو پورا کرنے سے گریزاں ہے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ Christine Lagarde کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مکمل شفافیت کے ساتھ بتانا ہو گا  کہ اس نے چین سمیت کس کس ملک سے کب اور کتنا قرض لیا اور یہ رقم کہاں کہاں خرچ کی۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور امریکہ کا پاکستان میں چینی سرمایہ کاری  یا اس کی معیشت میں چین کی شمولیت پر نکتہ اعتراض سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر بیل آئوٹ پیکج پر بات ہوتی ہے تو اس کا مقصد پاکستان کو اپنی پوری صلاحیت پر پہنچا دے گا۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے، کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور غیر لچکدار کرنسی کی وجہ سے اسے سرمایہ کاری کے بڑے خلا کا سامنا ہے، اگر عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کا مقصد اصلاحات ہو گا جو پاکستان کو مخصوص تفصیلات فراہم کئے بغیر ہی اس کی ملکی صلاحیت کو بہت زیادہ وسیع کر دے گا۔ حکومت نے ساختی اصلاحات نافذ کرنے سے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے جن سے پاکستان کی فنڈز کے ذریعے مالی مدد کی عادت ختم ہو جائے گی۔

پاکستان کو انفراسٹرکچر کی ترقی کی زیادہ ضرورت ہے جس میں چین کی (سی پیک) منصوبے میں سرمایہ کاری پاکستان کے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے اور اسی پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بہت سے تحفظات ہیں۔ آئی ایم ایف کے ماہر معاشیات کے مطابق یہ بہت اہم ہے کہ ان منصوبوں کا ڈیزائن بہت مضبوط ہو جس میں ایسے قرضوں کو جو ادا نہ کئے جا سکیں نظرانداز کیا جانا چاہئے، حال ہی میں وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے سادگی کو نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پروگرام کے بجائے اس کے متبادل کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی وجہ سے تحریک انصاف ان دونوں گرداب میں مکمل طور پر پھنس چکی ہے، موجودہ تناظر میں دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان میں معاشی بدحالی کا یہ تسلسل توڑنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟۔

No comments.

Leave a Reply