عورتوں پر تشدد ایک عالمگیر مسئلہ

اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1999ء میں یہ فیصلہ کِیا کہ نومبر  کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا دن قرار دیا جائے

اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1999ء میں یہ فیصلہ کِیا کہ نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا دن قرار دیا جائے

نیوز ٹائم

اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1999ء میں یہ فیصلہ کِیا کہ نومبر  کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا دن قرار دیا جائے تاکہ لوگوں کو عورتوں کے حقوق سے واقف کرایا جائے۔ ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بہت سے معاشروں میں عورتوں کو کم تر یا دوسرے درجے کا شہری خیال کِیا جاتا ہے۔ عورتوں کے خلاف اِس تعصب کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عورتوں پر تشدد ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اقوام ِمتحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل Kofi Anan کے مطابق دنیا کے ہر معاشرے اور ثقافت میں عورتوں پر تشدد کِیا جاتا ہے۔ اِس سے ہر عمر، رنگ، نسل اور طبقے کی خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ Radhika Kumaraswamy ، اقوام ِمتحدہ کے عورتوں پر تشدد کے انسانی حقوق کے کمیشن کی سابقہ عہدیدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عورتوں پر تشدد ایک شرمناک حقیقت ہے اور عام طور پر اِسے ایک ایسا مسئلہ خیال کِیا جاتا ہے جس پر بات نہیں کی جانی چاہئے۔  ہالینڈ کی ایک تنظیم کی طرف سے شائع کئے جانے والے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں  کہ جنوبی امریکہ کے ایک ملک میں تقریباً چار میں سے ایک عورت کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اِسی طرح دی کونسل آف یورپ نامی تنظیم کے اندازے کے مطابق یورپ میں چار میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں گھریلو تشدد سے متاثر ہوتی ہے۔

انگلینڈ اور ویلز میں برطانوی وزار ِداخلہ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ہر ہفتے اوسطاً دو خواتین اپنے حالیہ یا سابقہ جیون ساتھی کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ انڈیا ٹوڈے انٹرنیشنل نامی رسالے نے بیان کِیا کہ انڈیا میں زنا بالجبر اتنا عام ہے کہ عورتیں ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہیں۔ انہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ زنا بالجبر کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشل نامی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم بیان کرتی ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد آج کل انسانی حقوق کے مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تشدد ابتدا سے ہی انسانی جبلت کا ایک جزو ہونے کے ناطے معاشرے کا ایک ناخوشگوار پہلو رہا ہے۔ طاقتور کی طرف سے اپنے سے کمزور کے خلاف اپنی بات منوانے کے لئے زور زبردستی، ڈرانا، دھمکانا یا براہِ راست تشدد کا استعمال نیا نہیں  بلکہ قدیم ہی سے دنیا بھر کے معاشروں میں آج تک رائج ہے۔ تشدد ہمارے اردگرد بین الاقوامی سطح پر ممالک کے درمیان جنگوں کی صورت میں، ملکی سطح پر گروہوں کے مابین قتل و غارت گری کی صورت میں،  علاقائی سطح پر دنگے فساد کی شکل میں اور بعض صورتوں میں نجی زندگی میں گھریلو تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

Encyclopedia Britannica کے مطابق گھریلو تشدد کے حوالے سے موجودہ یورپ اور امریکہ کی ماضی قریب کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ زمانہ قبل از مسیح سے 70ویں صدی تک یورپ اور امریکہ میں مرد کا اپنی بیوی پر تشدد کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اور اس حوالے سے بیوی کی حیثیت ایک ذاتی پراپرٹی کی سی تھی۔ لہذا عدالت اور معاشرہ گھریلو تشدد کو جرم تسلیم نہیں کرتا تھا۔ 70ویں صدی میں گھریلو تشدد کے عام ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگلش کامن لا میں چارلس دوئم کے عہد سے پہلے بدنام زمانہ اصول  Under The rule of thumb  (انگوٹھے کا اصول) رائج تھا۔ اس کے مطابق مرد کے انگوٹھے کے حجم کی موٹائی کے برابر کسی بھی شے (چھڑی وغیرہ) سے خواتین پر کیے جانے والے تشدد کو قانونی تحفظ حاصل تھا۔ 18ویں صدی میں انگلش کامن لا نے خاتون کو پہلی دفعہ گھریلو تشدد کی بنا پر علیحدگی کا حق عطا کیا، لیکن اس کے باوجود صرف گھریلو تشدد کی بنا پر ہی طلاق کا حصول ممکن نہ تھا۔ امریکہ میں اس زمانے میں گھریلو تشدد کے جواز کے طور پر بائبل سے حوالے دیے جاتے تھے اور عدالتی سطح پر چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ دیگر نظر نہ آنے والی جگہوں پر تشدد کو جائز تسلیم کیا جاتا تھا۔

یورپ اور امریکہ میں گھریلو تشدد کے حوالے سے اصل شعور 19ویں صدی میں پیدا ہونا شروع ہوا اور اسے برا سمجھا جانے لگا۔ اس کے باوجود 1960ء تک گھریلو تشدد کو جرم تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی پولیس مجرم کو گرفتار کیا کرتی تھی۔ 1960 کی دہائی میں اٹھنے والی خواتین کی تحریکوں کے نتیجے میں 1977ء میں پہلی دفعہ گھریلو تشدد کے خلاف امریکی ریاست مینیسوٹا میں بل پیش کیا گیا اور 1978ء میں اسے باقاعدہ جرم تسلیم کیا گیا۔ بعد ازاں 1979ء میں CEDAW کی شکل میں عالمی برادری نے گھریلو تشدد اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور دنیا بھر میں اس کے بعد سے جو کوششیں شروع کی گئیں وہ آج تک جاری ہیں۔

اسی تناظر میں موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے یورپی یونین، ادارہ برائے بنیادی حقوق (European Union Agency for Fundamental Rights, FRA) کی 2014ء میں شائع کردہ رپورٹ خاصی اہم دستاویز ہے۔ مذکورہ رپورٹ ایک سروے سٹڈی پر مشتمل ہے جو کہ گھریلو تشدد کے حوالے سے یورپ بھر کے 28 ممالک کے 42 ہزار افراد سے انٹرویوز کی صورت میں کیا گیا۔ رپورٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار اور سروے کے نتائج خاصے حیران کن اور تشویشناک ہیں۔  حاصل شدہ نتائج کے مطابق مجموعی طور پر یورپ میں بسنے والی ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی 15 برس کی عمر کے بعد سے کسی نہ کسی انداز میں گھریلو تشدد (بشمول جنسی تشدد) کا شکار رہ چکی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جسمانی تشدد کے علاوہ ہر 10 میں سے ایک خاتون کو جنسی تشدد جبکہ ہر 20 میں سے ایک کو ریپ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سروے کے مطابق خواتین کو سب سے زیادہ تشدد کا شکار خود ان کے اپنے ساتھی مردوں کی طرف سے بنایا گیا  جہاں 22 فیصد خواتین نے اپنے ساتھی مردوں کی طرف سے تشدد کی شکایت کی۔ گھریلو تشدد کے حوالے سے اگر یورپی ممالک کی درجہ بندی کی جائے تو سب سے زیادہ تشدد ڈنمارک میں کیا گیا جہاں 52 فیصد افراد نے گھریلو تشدد کئے جانے کی شکایت کی یعنی ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی انداز میں اس مسئلے سے متاثر نظر آیا۔  فرانس میں 44 فیصد افراد گھریلو تشدد کا شکار ہوئے جبکہ برطانیہ میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے افراد کی شرح 44 فیصد ہی رہی۔ فن لینڈ اور سویڈن میں یہ شرح 40 فیصد سے زائد رہی جبکہ جرمنی میں 35 فیصد افراد گھریلو تشدد کا شکار رہے۔ ان 28 ممالک میں سب سے کم گھریلو تشدد کی شرح جہاں ریکارڈ کی گئی وہ پولینڈ میں 19 فیصد تھی۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار صرف خواتین ہی ہوتی ہیں لیکن برطانوی اخبار دی گارڈین کی مئی 2010ء کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں رپورٹ کردہ کل شکایات میں سے 40 فیصد شکایات مردوں کی جانب سے درج کروائی گئیں، جنہیں ان کی ساتھی خاتون کی طرف سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برطانوی وزیر اعظم  Theresa May نے گھریلو تشدد سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی پالیسی اور محکمہ پولیس کی ناکامی کو تسلیم کیا۔ دی گارڈین ہی میں 27 مارچ 2014ء کو شائع شدہ رپورٹ کے مطابق سال 2012-13ء میں صرف برطانیہ میں 259000 گھریلو تشدد کے کیسز درج ہوئے۔ 77 خواتین قتل ہوئیں جبکہ 10000 سے زائد عورتیں اور بچے ابھی بھی تشدد کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

اب اگر موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا بھر میں شعور پیدا کرنے اور ترقی یافتہ ممالک میں موثر قانون سازی کے باوجود یہ مسئلہ ابھی تک موجود ہے۔ لہذا تیسری دنیا کے ممالک اور مسلم معاشرے تو ایک طرف خود یورپ اور امریکہ میں گھریلو تشدد کے حوالے سے صورت حال سنگین نظر آتی ہے، جو اس بات کی غماز ہے کہ گھریلو تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ صرف ایک معاشرے، خطے، براعظم یا مذہب کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک عالمگیر رجحان اور مسئلے کی صورت نظر آتا ہے۔ لہذا مذکورہ حقائق اور رپورٹس کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ گھریلو تشدد ایک ایسا عالمگیر مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے صرف اور صرف قانون سازی ہی کافی نہیں بلکہ عوامی شعور و احساس بیدار کرنے کے لیے شہریوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کرنا بھی ضروری ہے۔

No comments.

Leave a Reply