پانی کی کمی کے خلاف کالاباغ ڈیم کی ضرورت ہے

پانی کی کمی کے خلاف کالاباغ ڈیم کی ضرورت ہے

پانی کی کمی کے خلاف کالاباغ ڈیم کی ضرورت ہے

نیوز ٹائم

پاکستان میں رہنے والے عوام عجیب سوچ اور جذبے کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ دنیا میں ہماری قوم کے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ ہم انتہاپسند اور جذباتی لوگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی سیاح ہمارے ملک میں بہت کم تعداد میں سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی عوام کو بھی غیر ملکی ویزوں کے حصول میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستانی عوام کی غیر متوازن سوچ ہمیں دنیا میں اجنبی بنا رہے ہیں۔  ایک ہی دن اخبار میں دو ایسی خبریں چھپیں جو ہمارے غیر ہموار کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔

 ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے 5 کروڑ غریب باشندگان بھوک کا شکار ہیں اور ان کو پیٹ بھرنے کیلئے غذا میسر نہیں ہے۔ یہ وہ خاموش بھوک ہی ہے جو معاشرے میں بدامنی پھیلا رہی ہے اور بعض مرتبہ جرائم کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں اور خصوصی طور پر کراچی جیسا گنجان آباد شہر بدامنی اور سٹریٹ کرائم کا خصوصی شکار رہا ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق کراچی ہی میں گداگروں کا ایک تجارتی دھندہ قائم ہے۔ اس طرح ایک مضبوط گداگری تجارت شروع ہو گئی ہے۔ بھکاریوں کے پاس اپنے فلیٹ اور گاڑیاں ہیں۔  ایک بھکاری اوسطاً 2000 روپے بھیک حاصل کر لیتا ہے جبکہ کراچی کے مخیر حضرات روزانہ 400000 روپے گداگروں کے کشکول میں ڈالتے ہیں۔ جو معاشرے کے کسی تعمیری پہلو پر صرف نہیں ہوتے جس ملک کا صرف ایک شہر تقریباً 12 کروڑ روپے کے لگ بھگ رقم صرف ایک ماہ میں سڑکوں پر لگا دیئے اور اپنے ضیاع اور نقصان کا احساس بھی نہ کرے۔ اس قوم کے معصوم بچے تھر کے صحرا میں بھوکے پیاسے اگر نہیں مریں گے تو پھر کیا کریں گے؟ جس قوم کے صدقات،  زکوة  اور خیرات یہ سب مل کر معاشرے کے وجود کو عملی طور پر نہ بدل سکیں  اور غربت معاشرے میں بدستور بڑھتی ہی جائے تو زکوة اور صدقات دینے والوں کو یہ سچ تسلیم کرنا ہو گا کہ ان کے عطیات غلط ہاتھوں میں جا رہے ہیں اور غلط استعمال بھی ہو رہے ہیں۔ جب خیرات معاشرے میں تعمیر کے بجائے تخریب شروع کر دے تو مخیر حضرات اپنے عطیات کو روک کر یہ تفتیش ضرور کریں کہ کارخیر میں دیا ہوا ان کا دھن کہیں کار بد میں تو نہیں لگایا جا رہا؟

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں ایک ایسا شخص گزرا ہے کہ آج بھی لوگوں کے ذہن میں اس کے حق میں شدید محبت ہے یا اس کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔  اس نے بطور وزیر اعظم پاکستان اس وقت جوہری بم بنانا شروع کیا جب بھارت ایٹمی دھماکے کر چکا تھا۔ بھٹو کے ذہن میں یہ خیال بیٹھ چکا تھا کہ پاکستان اپنے حریف بھارت کے مقابلے میں اس وقت تک غیر محفوظ رہے گا جب تک وہ خود ایٹمی چھتری نہ تان لے۔ جب امریکہ اور یورپ کو اس ارادے کا پتہ چلا تو ان کو اسلامی جوہری بم سے بڑا خوف آیا اور بھٹو کو یہ واضح پیغام ملا کہ ایٹم بم بنانے کا ارادہ فوراً ترک کیا جائے لیکن امریکہ اور مغرب کا یہ حکم بھٹو نے نہ مانا۔ اس گستاخی کا یہ جواب آیا کہ مسٹر بھٹو! تم تاریخ کے صفحات میں عبرت کی ایک داستان بن کر باقی رہو گے۔ اس دھمکی کے کچھ عرصہ بعد مسٹر زیڈ اے بھٹو کے خلاف حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں جمع ہو گئیں اور ان کو 9 ستاروں کے نام سے پکارا جانے لگا اور بھٹو کی حکومت کو گرانے کی تحریک شروع ہو گئی۔ امریکی ڈالر دھڑا دھڑ پاکستان میں آنے لگا اور روپیہ اتنا مہنگا ہو گیا کہ لوگ ڈالر فروخت کر کے پاکستانی روپیہ خریدنے لگے۔ جب حکومت اور حزب اختلاف کی لڑائی عروج پر تھی تو پاکستانی اداروں نے ایک بڑی خطیر رقم کا ایک چیک پکڑا جو کسی غیر ملک نے اس سیاسی جماعت کے نام بھیجا تھا  جو حزب اختلاف کی بھٹو مخالف جدوجہد میں شامل تھی۔ یعنی نو ستاروں سے ایک چمکدار ستارہ تھی۔ بھٹو نے وہ چیک دیکھ کر ایک ٹھنڈی سانس کھینچی اور کہا کہ یہی ڈالر تو ہمارے جیسے غریب ممالک کی تقدیریں بناتے ہیں اور بگاڑتے بھی ہیں اور پھر واقعی یہ ہوا کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ کے صفحات میں عبرت کی داستان بنا کر دفن کر دیا گیا۔

پاکستان کے عوام کیلئے یہ سوال ہمیشہ موجود رہا ہے اور رہے گا کہ عوام جو صدقات اور خیرات کرتے ہیں اچھی نیت سے بخشش کی ہوئی وہ دولت برے طریقہ سے بروئے کار لا کر معاشرے کو نقصان تو نہیں پہنچا رہی؟ پاکستان کے عوام ہوں یا حکومت ان دونوں میں ایک عادت ضرور مشترک کہ یہ تقریباً ہر اس نعمت کو ضائع کرتے ہیں جو اللہ نے ہمیں دی اور ساتھ ہی یہ نعرے بھی لگاتے ہیں کہ ہم اچھی نیت سے اچھا کام کر رہے ہیں۔

آپ یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں تیزی سے پانی جیسی انمول نعمت ختم ہو رہی ہے اور ایک پیاسا پاکستان بہت جلد آپ دیکھ لیں گے۔ پاکستان اور بھارت کا Indus Water Treaty جو ہوا تھا اس میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر ایک کلیدی حیثیت رکھتی تھی لیکن اس ڈیم کی تعمیر کو بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے ایک سیاسی معمہ بنا کر آج تک تعمیر نہ ہونے دیا۔ ہم کروڑوں کیوسک تازہ پانی مسلسل بحیرہ عرب میں پھینک رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ واویلا کرتے جا رہے ہیں کہ بھارت نے ہمارا پانی روک دیا ہے۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان میں عموماً مخالف طاقتیں زیادہ طاقتور ہیں اور اقتدار بھی ان کے پاس رہا اور ان حکمرانوں نے اس پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام کیا جو ایجنڈا بھارت نے اور ریاست مخالف دشمنوں نے ان کو دیا۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی رکاوٹ بھی اسی ایجنڈے کی ایک شق ہے۔ ہم میسر پانی کو کس بے درددی سے ضائع کر رہے ہیں اس نظارے کو دیکھنے کیلئے آپ کبھی کسی مسجد کے وضو خانے میں جائیں یا پھر شہروں کے استعمال شدہ پانی کو نہروں اور دریائوں کے صاف پانی میں ملتا دیکھیں۔ ہم پاکستانی اپنا نقصان بھی خود کرتے ہیں اور اس نقصان پر ماتم بھی خود کرتے ہیں۔ ہم کیسے لوگ ہیں؟ اور ہم کس انجام کی طرف جا رہے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply