آصف زرداری پیپلز پارٹی پر بھی بھاری

جعلی اکائونٹ اور منی لانڈرنگ کے الزام نہ صرف زرداری بلکہ ان کی بہن فریال تالپور پر بھی لگایا گیا تھا

جعلی اکائونٹ اور منی لانڈرنگ کے الزام نہ صرف زرداری بلکہ ان کی بہن فریال تالپور پر بھی لگایا گیا تھا

نیوز ٹائم

ستمبر کے پہلے ہفتے میں سابق صدر آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کی تیاری مکمل تھی۔ معاملہ اتنا قریب تھا کہ ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن نے اپنا بیرون ملک کا سرکاری دورہ بھی ملتوی کر دیا۔ ظاہر ہے گرفتاری کا سارا عمل ان کی نگرانی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ جولائی میں ایف آئی اے میں آصف زرداری کے خلاف جعلی اکائونٹس کھولنے اور ان میں غیر قانونی طور پر بھاری رقوم رکھنے کے الزام پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔  الزام نہ صرف زرداری بلکہ ان کی بہن فریال تالپور پر بھی لگایا گیا تھا۔ ایف آئی اے کے پاس ان اکائونٹس کے حوالے سے فریال تالپور کے بارے میں مبینہ ٹھوس ثبوت موجود تھے۔

بظاہر تو سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ مگر اس سارے عمل کے دوران کچھ شخصیات ادھر ادھر فون بھی کر رہی تھیں اور بھاگ دوڑ بھی ہو رہی تھی۔  شک یہ کیا جا رہا تھا کہ آصف علی زرداری صدارتی انتخاب میں عین موقع پر چوہدری اعتزاز احسن کو مولانا فضل الرحمان کے مقابلے سے دستبردار کروا لیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی آصف زرداری کی دوستی پر مان تھا اور نواز شریف بھی مولانا کی حمایت کے لئے سگنل دے چکے تھے۔ جمع تفریق میں یہ بات واضح تھی کہ اگر اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کو میدان میں لایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں صدارتی امیدوار عارف علوی ہار جائیں گے۔

اس ماحول میں اگست کے آخری ہفتے میں آصف علی زرداری کی اسلام آباد میں ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ مگر بات باہر نہ نکلی۔ پھر آصف زرداری نے 2 ستمبر کو کراچی میں اپنے پارٹی رہنمائوں سے خطاب کیا اور واضح کر دیا کہ اعتزاز احسن ہی صدارتی امیدوار ہوں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اعتزاز احسن کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دستبردار ہونے کی تمام قیاس آرائیوں کو رد کر دیا۔ اس خطاب کے ذریعے 5 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کا نتیجہ بھی سامنے آ گیا کہ جیت عارف علوی کی ہی ہو گی۔ مگر کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اگست کے آخری ہفتے کی ملاقات اور اس کی روشنی میں کیے گئے خطاب نے آصف علی زرداری کو ایف آئی اے کیس میں فوری گرفتاری سے بھی بچا لیا۔ ادھر عدالت بھی اس معاملے کو قریب سے دیکھ رہی تھی۔

پانچ ستمبر کو عدالت نے اس معاملے پر شریف خاندان کے خلاف پانامہ کیس کی تحقیقات کی طرز پر جے آئی ٹی بنا دی مگر اس جے آئی ٹی میں دو اہم نکات بڑے مختلف ہیں۔ اول یہ کہ جعلی اکائونٹس کی جے آئی ٹی کو ادارہ جاتی معاونت حاصل نہیں، اسی لئے سندھ حکومت کے بیشتر ادارے اس سے تعاون کرنے سے گریزاں ہیں، دوئم یہ کہ اس جے آئی ٹی کو کام مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی۔ اس کیس کی تحقیقات کے دوران سندھ کے وزیر داخلہ انور سیال نے ایک بار ڈی جی ایف آئی اے سے کراچی میں ان کے گھر ملاقات کی اور کھانے کی میز پر اس کیس کی تفتیش کے متعلق درخواست کی مگر معاملہ نہ بن پایا  بعد میں ایف آئی اے کے سربراہ کے تمام ایسے قریبی عزیزوں کا سراغ لگایا گیا جو سرکاری محکموں میں کام کرتے ہیں اور سب کو ایک، ایک کر کے معطل کر دیا گیا۔ ایف آئی اے کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ادارے کے سندھ میں تعینات دیگر افسران کو بھی نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ طاقتوروں کے خلاف کیس رجسٹر کیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے قائم جے آئی ٹی بھی اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔ نت نئے افراد کے نام پر کھولے گئے جعلی اکائونٹس سامنے آ رہے ہیں۔  فالودے والا ہو، یا گرافک ڈیزائنر، عام کلرک ہو کہ مرا ہوا شخص بھی جعلی اکائونٹ ہولڈر نکلتا ہے۔ تاہم جب ٹیم تفتیش کے لئے ان کے پاس پہنچتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان بیچاروں کو تو اپنے بینک اکائونٹس میں پڑی کروڑوں روپوں کی رقوم کا علم ہی نہیں۔  جعلی اکائونٹس صرف کراچی یا سندھ میں ہی نہیں کھولے گئے بلکہ خیبر پختونخوامیں بھی ایسے ہی جعلی اکائونٹس سامنے آئے ہیں۔  اب تک جے آئی ٹی کم و بیش 100 ارب روپے کا سراغ لگا چکی ہے جو مبینہ طور پر کرپشن کو چھپانے کے لئے ان اکائونٹس میں رکھے گئے۔ کیس کی تفتیش میں زرداری گروپ آف کمپنیز کا نام بھی سامنے آیا ہے گو کہ آصف زرداری سال 2008ء میں صدر بنتے ہی اس گروپ کی سربراہی سے الگ ہو گئے تھے  مگر ان کی بہن فریال تالپور اس کمپنی کے اکائونٹس کی دیکھ بھال کرتی تھیں جبکہ کمپنی کے علامتی سربراہ کے طور پر بلاول بھٹو کو تعینات کیا گیا تھا۔ جوں جوں اس کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، پیپلزپارٹی کے سینئر رہنمائوں کی خاموشی بڑھتی جا رہی ہے۔

آج کل آصف علی زرداری اور فریال تالپور شدید مشکلات میں ہیں۔ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جا چکا ہے مگر شاید وہ باہر بھی نہیں جا سکتے۔ اس سارے کھیل میں اصل نقصان پیپلز پارٹی کا ہو رہا ہے۔ جس کے نظریات زرداری کی مجبوریوں کے آگے دھندلا گئے ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی جو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی، جس کی آبیاری ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے خون سے ہوئی اور اب بلاول بھٹو زرداری اس جماعت کا نیا اور خوشگوار چہرہ ہیں۔ اس جماعت کے نظریات سب پر عیاں ہیں اور انہی نظریات کی بنیاد پر اس نے 18ویں آئینی ترمیم کی تھی۔ اب اسی ترمیم کے بعض بنیادی نکات کی تنسیخ کے ذریعے ہی آصف زرداری کی جان بخشی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔  آصف زرداری ستمبر میں تو بچ گئے مگر کیا وہ آئندہ مارچ تک بھی بچ پائیں گے؟

No comments.

Leave a Reply