مستقبل 2020 میں پاکستان کا نقشہ

مستقبل 2020 میں پاکستان کا نقشہ

مستقبل 2020 میں پاکستان کا نقشہ

نیوز ٹائم

تین باتیں تو واضح ہیں۔ اول یہ کہ نواز شریف آج نہیں تو کل، ایک بار پھر جیل جائیں گے۔ دوئم یہ کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے جیل جانے کے بارے فیصلہ بھی دسمبر میں ہو جائے گا اور سوئم یہ کہ ان لیڈروں کے جیل جانے سے بھی ملکی معیشت پر کوئی مثبت اثر پڑے گا نہ عام آدمی کے حالات بہتر ہوں گے کہ اس کی زندگی میں بھی کوئی اطمینان آ سکے۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نواز شریف محض اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات پر چپ ہیں تو یہ اس کی بھول ہے۔ واضح طور پر نظرآ رہا ہے کہ نواز شریف اپنی بیٹی مریم کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی سودا کر چکے ہیں۔  وہ جیل جائیں گے اور بیٹی خاموش رہے گی یا پھر حکومت سے بیرون ملک جانے کی اجازت لینے کے بعد کچھ عرصے کے لیے مکمل طور پر نظروں سے اوجھل ہو جائے اور وقت آنے پر زبان کھولے۔ کچھ بھی بعید از قیاس نہیں۔

عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی جیل بھیجنے پر بضد ہیں مگر اس کے بعد کیا نوجوان بلاول بھٹو سندھ کو کنٹرول میں رکھ پائے گا؟ چلیے یہ تو سیاسی معاملہ ہے، ان مسائل کی طرف آئیے جو ان سے بھی بڑے ہیں۔ ہمارے رہنما تو پہلے بھی جیل بھیجے جاتے رہے مگر کبھی زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا۔ ہاں اقتدار کے کھیل میں اصل کھلاڑی کبھی سامنے آئے نہ اب ان کے سامنے آنے کی کوئی امید ہے کیونکہ جیل کی ڈیوڑھی اور اقتدار کی راہداریوں کے درمیان بھاگنے والے کسی اصل کردار کا نام لینے کو ابھی تک تیار ہیں نہ متحد۔ ادھر حکومت کے پہلے 100 دن کی کارکردگی معیشت کے محاذ پر ناکامی، خارجہ امور میں جزوی کامیابی جبکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن سے جھگڑوں اور لعن طعن سے عبارت ہے۔ سب کچھ سابق حکمرانوں کا کیا دھرا ہے لیکن  یہ زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں سے ملکی خزانے میں ڈالرز کی مصنوعی دستیابی تو کر دی گئی ہے  مگر کیا آئندہ سال بجٹ تک حکومت معاشی محاذ پر بہتر کارکردگی دکھا پائے گی؟ فی الحال ایسا کچھ نہیں نظر آ رہا۔ اقتدار کے ایوانوں سے سرگوشیاں سننے میں آ رہی ہیں کہ وزیر خزانہ اسد عمر کا سمجھدار متبادل ڈھونڈا جا رہا ہے۔ پتہ نہیں کوئی ملے گا بھی یا نہیں تاہم حکومت کے ایک ذمہ دار نے معیشت کا جن بوتل میں بند کرنے کے لیے چپکے چپکے بیرون ملک مفرور اسحاق ڈار سے بھی رابطہ کر لیا ہے۔ پتہ نہیں پہلے ہی اپنے کیسوں سے جلے کٹے اسحاق ڈار نے کوئی درست مشورہ بھی دیا یا ٹرخانے پر ہی اکتفا کر دیا۔ ملک کے اصل مسائل معیشت سے تو جڑے ہوئے ہیں مگر وہ معیشت سے بھی بڑے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور Financial Action Task Force کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عملدرآمد موثر انداز میں نہیں ہو پا رہا۔ ابھی تک بین الاقوامی طور پر دہشت گردی کے الزامات کی حامل جماعتوں اور افراد کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جا سکی۔

پاکستان اب تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 40 میں سے 33 نکات پر مکمل عملدرآمد نہیں کر سکا۔ گو کہ حکومت کے دعوے مختلف ہیں مگر تمام اشارے بتا رہے ہیں کہ آئندہ سال اکتوبر میں خدانخواستہ ہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں شامل ہو جائیں گے۔ جس سے عالمی سطح پر پاکستان پر تین فوری نتائج برآمد ہوں گے۔ اول یہ کہ ہماری برآمدات کی رفتار انتہائی سست ہو جائے گی۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ جو اشیا ہم 15 دن میں بیرون ممالک بھیج رہے ہیں وہ 6,6 مہینوں تک نگرانی کے عمل سے گزرنے کے بعد اپنی منزل پر پہنچیں گی۔ ظاہر ہے اس سے بیرونی دنیا کے ساتھ پاکستان کے کاروبار پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔ دوئم یہ کہ عالمی مالیاتی اداروں اور بینکنگ نظام کے ساتھ ہمارے معاملات اور بھی ابتر ہو جائیں گے۔ سب سے آخر یہ کہ ہماری اسٹاک مارکیٹ بیٹھ جائے گی اور پاکستانی روپے کی قدر مزید کم ہو گی جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان ہی نہیں بلکہ زلزلہ بھی آ جائے گا۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔

ایسی صورت میں گرفتار کیے گئے لیڈر ہیرو بن جائیں گے اور ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد ولن۔ گو گو اور نو نو کے نعرے عروج اختیار کر لیں گے۔ اس ساری صورتحال کے مرکز، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر الگ الگ اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سب سے بچنے کے لیے ملکی اداروں کے بارے میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کے لیے کسی واضح حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ پشتون بھائی پہلے ہی افغان اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے زخم خوردہ ہیں۔ ہمیں ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہو گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو تو مقدمات کا سامنا ہے مگر پارٹی پر بھی نقب لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سنا ہے کچھ ارکان صوبائی اسمبلی پارٹی آصف زرداری کے جیل جانے کے بعد ممکنہ طور پر سامنے آئیں گے۔ ایم کیو ایم کے پہلے ہی ٹکڑے کر دئیے گئے ہیں۔ مگر کیا اصل ایم کیو ایم ختم ہو گئی؟ جی نہیں وہ آج بھی مقامی آبادی میں پہلے سے زیادہ زوردار طریقے سے موجود ہے۔ صرف قیادت کا فقدان ہے۔ وقت بدلا تواس کا بھی کوئی حل نکل آئے گا۔ مگر پارٹیوں کے ساتھ ایسا سب کچھ مسائل کا خاتمہ نہیں ان میں اضافے کے مترادف ہو گا۔

اس سارے منظر نامے میں ایک حادثہ ساری صورتحال تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مشرف کا اقتدار افتخار چوہدری کی برخاستگی کے حکم نامے سے زوال پذیر ہوا۔ اگر معاشی حالات دگر گوں ہو گئے تو غیر روایتی سیاست کا نعرہ لگانے والوں کو روایتی مشکل آن گھیرے گی۔ لیکن پنجاب میں انتہاپسندی اور سیاسی تقسیم، سندھ میں بڑھتی ہوئی نفرت اور خیبر پختو نخوا میں مرکز مخالف جذبات کہیں ہمیں کسی سنگینی سے ہی دوچار نہ کر دیں۔ بلوچستان میں آبادی کم اور کنٹرول زیادہ ہے لہذا وہاں وہی کچھ ہو گا جو مرکز یا مرکزی طاقت چاہے گی۔ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تحفظات کو سچ ثابت کیا ہے۔ دہشت گردی کا جن سو رہا ہے، مرا نہیں۔ اگر خدانخواستہ منفی عناصر نے پڑوسی ممالک میں بھی کوئی کارروائی کی تو نتیجہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا۔ لہذا دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ذرا سوچئے کہ اس سارے منظر نامے میں بیان کیے گئے تمام مسائل پہلے سے بیمار ریاست پر یکجا ہو کر حملہ آور ہوئے تو سال 2019  کامیابی کا سال ہو گا یا ابتری کا؟

No comments.

Leave a Reply