امریکہ بمقابلہ چین، نئی سرد جنگ کا آغاز

امریکہ بمقابلہ چین، نئی سرد جنگ کا آغاز

امریکہ بمقابلہ چین، نئی سرد جنگ کا آغاز

نیوز ٹائم

گزشتہ 200 سال سے پوری دنیا میں مغرب کی غیر معمولی ذہانت اور علم کے چرچے ہیں۔ مشرق کے کروڑوں لوگ اہلِ مغرب کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہوں۔ مغربی انسان چاند پر پہنچ گیا اور مریخ پر جانے ہی والا ہے۔ مغربی انسان نے کائنات کے سربستہ رازوں کو جان لیا۔ اس نے ایٹم کو توڑ کر توانائی کا خزانہ دریافت کر لیا۔ مغرب کی ہزاروں ایجادات ہماری زندگی کے معمولات کا حصہ ہیں۔ ان تمام چیزوں کا اربوں انسانوں پر جادوئی نہیں معجزاتی اثر ہے۔ اس اثر کی وجہ سے اربوں لوگ مغرب کے علم اور ذہانت پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ لیکن مغرب کی ذہانت اور علم کے اندازے کا ایک اور زاویہ ہے۔

سرمایہ دار مغرب سوشلسٹ روس اور اس کے فلسفے کا دشمن تھا اور وہ چاہتا تھا کہ سوشلزم اور سوویت یونین زیر ہو جائیں۔ اس نے کمیونزم اور سوویت یونین کو کمزور کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے۔ مگر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لاکھوں دانشوروں، پالیسی سازوں اور انٹیلی جنس اداروں کے ہزاروں اہلکاروں میں سے کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ سوویت یونین ٹوٹنے والا ہے اور سوشلزم تحلیل ہوا چاہتا ہے۔ چنانچہ سوویت یونین ٹوٹا اور سوشلزم تحلیل ہوا تو پورا مغرب بھی اسی طرح حیران ہوا جس طرح خود سوویت یونین اور پوری سوشلسٹ دنیا کے لوگ حیران ہوئے۔

سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے آنجہانی ہونے کے بعد مغرب کے مفکرین اور دانشور گاما پہلوان بن کر سامنے آئے۔ Francis Fukuyama امریکی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ترین دانشور تھے۔ انہوں نے اعلان فرمایا کہ تاریخ کے سفر کا حالیہ مرحلہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کی کشمکش کا حامل تھا۔ مگر چونکہ سوشلزم کو شکست ہو گئی ہے اس لیے تاریخ کا سفر انجام کو پہنچ گیا ہے  اور اب لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ نظام دنیا کی واحد حقیقت ہے، اور باقی دنیا کے پاس اب کرنے کے لیے صرف ایک کام رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ مغرب کی اقدار اور نظام کی پوجا کرے۔ بعض مغربی دانشوروں نے اعلان کیا تھا کہ 19ویں اور 20 ویں صدی مغرب کی صدیاں تھیں اور اب 21 ویں صدی بھی مغرب کی صدی ہو گی۔ ان آوازوں اور لہجوں پر خدائی لہجے کا غلبہ تھا، اور اس لہجے کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔

دنیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یک قطبی یا unipolar ہو چکی تھی۔ اب امریکہ دنیا کا واحد خدا تھا اور پوری دنیا اس خدا کی مخلوق۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے چین اور روس دنیا کی بڑی طاقتیں بن کر ابھر آئے  اور وقت نے مغرب کے دانشوروں، مفکروں، پالیسی سازوں اور انٹیلی جنس اداروں کی معلومات، علم اور تجزیے پر تھوک کر ثابت کر دیا کہ مغرب جس دنیا پر غلبے کا دعویدار ہے اور جس دنیا میں اس کی مرضی کے بنا کچھ نہیں ہوتا وہ اس دنیا کو بالکل نہیں جانتا۔ جانتا ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ چین اور روس عالمی طاقتیں بن کر ابھرنے والے ہیں۔ بلاشبہ مردہ مادے اور زندہ انسانوں کو پہچاننے اور جاننے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پوری مغربی دنیا اور اس کا امام امریکہ، چین کے معاشی ابھار پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے،  مگر امریکہ، یورپ اور چین کے ابھار کو سمجھنے میں بھی پوری طرح ناکام ہوئے۔  امریکہ اور یورپ کا خیال تھا کہ چین سرمایہ دارانہ معیشت کے راستے پر چلے گا تو سرمایہ داری اسے اندر سے بدل دے گی اور چین کے حصے کرنا آسان ہو جائے گا۔ چنانچہ امریکہ اور یورپ نے چین کی معیشت کو پھلنے پھولنے کی آزادی دی،  اس کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات استوار کیے،  امریکہ نے خود چین کو WTO یعنی World Trade Organization کا رکن بنوایا۔ امریکہ اور یورپ 30 سال تک یہ دیکھ کر خوش ہوتے رہے کہ چین لبرل ازم کے بنیادی اصولوں یعنی آزاد تجارت، آزاد منڈی اور ان چیزوں کی عالمگیریت کا بڑا وکیل بن چکا ہے۔  امریکہ اور چین کی تجارت ابتدا ہی سے عدم توازن کا شکار تھی اور دوطرفہ تجارت کا عدم توازن چین کے حق میں تھا۔ یہاں تک کہ چند ماہ پہلے تک امریکہ چین کے ساتھ 350 ارب ڈالر سالانہ کے خسارے کی تجارت کر رہا تھا۔

چین کے حیرت انگیز معاشی ابھار کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ چین کی معاشی قوت ہر 7 سال کے بعد دوگنا ہو جاتی ہے۔ 2006 میں امریکہ کی معیشت چین کی معیشت سے 5 گنا بڑی تھی، مگر صرف 11 سال بعد یعنی 2017ء میں امریکہ کی معیشت چین کی معیشت سے صرف 60 فیصد بڑی رہ گئی تھی۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 3 ہزار 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ کی غربت کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کے 10 سب سے زیادہ زرمبادلہ رکھنے والے ممالک کی فہرست میں بھی موجود نہیں۔ اہلِ مغرب کا خیال تھا کہ وہ چین کو اندر سے لبرل بنا لیں گے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اہلِ مغرب کا خیال تھا کہ وہ چین کو توڑ دیں گے، یہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔ اہلِ مغرب کا خیال تھا کہ وہ چین کے ابھار کو روک لیں گے، یہ خیال بھی حقیقت نہ بن سکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب کے دانشور اور پالیسی ساز دنیا اور قوموں کی تقدیر کے بارے میں الف، ب بھی نہیں جانتے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں، آج سے 70، 80 سال قبل اہلِ مغرب کہا کرتے تھے کہ اسلام بڑا مذہب ضرور ہے مگر اسے دنیا میں جو کچھ کرنا تھا کر چکا، اب اس کے احیا کا کوئی امکان ہے نہ عالمی اسٹیج پر اس کی کوئی حیثیت ہو گی۔ مگر 20 ویں صدی میں اسلام کا احیا بھی ہوا اور اسلام عالمی اسٹیج پر بھی موجود ہے،  حالانکہ کسی بھی مسلم ملک میں اسلام کے حقیقی ترجمان برسر اقتدار نہیں۔ امریکہ نے ویتنام میں مداخلت کی اور فتح کے لیے مداخلت کی،  مگر امریکہ 10 سال میں ویتنام سے ذلیل ہو کر نکلا۔

امریکہ، افغانستان پر حملہ آور ہوا اور فتح کے لیے حملہ آور ہوا، مگر اسے افغانستان میں شکست ہو گئی ہے۔ یہ ہے مغرب کی مشہورِ زمانہ اجتماعی ذہانت، اجتماعی علم اور اجتماعی حکمتِ عملی کی اوقات۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کا دورہ کیا تھا، اور ان کے دورے سے ایسا لگ رہا تھا کہ امریکہ اور چین دنیا کے کیک کو مل بانٹ کر کھانے کا فیصلہ کرنے ہی والے ہیں۔ مگر مغرب کا ذہن مساوات کا قائل ہی نہیں۔ اسے انسانوں کے ساتھ انسان بن کر رہنے کی عادت ہی نہیں۔ وہ غلبے کی نفسیات سے نکل کر ایک لمحہ بھی نہیں سوچ سکتا۔ چنانچہ ٹرمپ نے چین سے امریکہ آتے ہی پلٹا کھایا، چین اور روس کو امریکہ کا حریف قرار دیا۔ چند ماہ میں چین اور روس کے حوالے سے امریکہ کے رویے اور پالیسی کا تغیر بتا رہا ہے کہ امریکہ کے دانشوروں اور پالیسی سازوں کے علم اور ذہانت کی سطح اور چھابڑی والے کے علم اور ذہانت کی سطح میں زیادہ فرق نہیں۔ بڑی قوتیں چار دن میں دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست قرار نہیں دیتیں۔

لیکن آئیے ہم امریکہ اور چین کی کشمکش کی جانب لوٹتے ہیں۔ اب تک مغربی ممالک کے پالیسی ساز اور ذرائع ابلاغ امریکہ اور چین کی کشمکش کے حوالے سے سوال اٹھا رہے تھے کہ کیا دنیا میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہو گئی ہے؟ مگر امریکہ کے نائب صدر (Mike Pence) نے 4 اکتوبر 2018ء  کو خطاب کرتے ہوئے چین کے خلاف نئی سرد جنگ کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر Munir Akram Down کراچی کی 14 اکتوبر 2018ء  کی اشاعت میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں کہا ہے کہ Mike Pence کے اعلان کے بعد امریکہ قدیم یونانی مورخ Thucydides کے جال میں پھنس گیا ہے۔ Thucydides کا نظریہ یا مفروضہ یہ ہے کہ پہلے سے موجود طاقت کا ابھرتی طاقت سے تصادم ہمیشہ ہی ناگزیر ہوتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ امریکہ کے نائب صدر نے نئی سرد جنگ کا اعلان کرتے ہوئے چین کے بارے میں کیا کہا ہے؟ انہوں نے چین پر کئی الزامات لگائے، انہوں نے کہا کہ چین غیر منصفانہ تجارت کا مرتکب ہو رہا ہے،  وہ امریکی ٹیکنالوجی چرا رہا ہے، وہ امریکہ پر محصولات عائد کر رہا ہے، وہ امریکہ کے انتخابی عمل میں مداخلت کر رہا ہے، وہ سائوتھ چائنا سی میں فوجی قوت بڑھا رہا ہے،  وہ امریکہ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، وہ اپنے لوگوں کو جبر کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔  یہاں بھی امریکہ کے علم اور ذہانت کا عالم یہ ہے کہ امریکی نائب صدر Mike Pence نے چین پر 7 الزامات لگائے،  مگر الزامات کے درست ہونے کی ایک شہادت بھی پیش نہ کی۔  چین پر غیر منصفانہ تجارت کا الزام غلط ہے، اس لیے کہ چین، امریکہ کے ساتھ آزادانہ تجارت کر رہا ہے،  اور آزادانہ تجارت اس نے مغرب ہی سے سیکھی ہے۔ چین نے امریکہ کی کون کون سی ٹیکنالوجی چرائی اس کی وضاحت بھی ضروری تھی اور اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت کے ساتھ دو، چار مثالیں بھی درکار تھیں، مگر امریکہ کے نائب صدر یہاں بھی چین پر صرف الزام لگا کر رہ گئے۔ چین، امریکہ پر جوابی محصولات عائد کر رہا ہے، محصولات عائد کرنے کا آغاز امریکہ نے کیا۔ اس کے جواب میں چین بھی محصولات عائد کرنے کی طرف چلا گیا۔

امریکہ کے انتخابی عمل میں چین کی مداخلت کے حوالے سے بھی ثبوت پیش کیا جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بالفرض چین نے امریکہ کے انتخابی عمل میں مداخلت کی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ تو یہ کام 50 سال سے کر رہا ہے۔ وہ 50 سال سے حکومتیں گروا رہا ہے، حکومتیں اقتدار میں لا رہا ہے، مارشل لا لگوا رہا ہے، انتخابی عمل پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ جو کام 50 سال سے کر رہا ہے اگر وہی کام اب چین نے بھی کرنا شروع کیا ہے تو امریکہ کو اس پر اعتراض کرنے کا اخلاقی حق یا سیاسی حق کہاں سے حاصل ہوا؟ جہاں تک South China Sea کا معاملہ ہے تو وہ چین کا علاقہ یا چین کی سمندری حدود ہیں۔ اگر چین وہاں اپنی عسکری طاقت میں اضانے کا حق نہیں رکھتا تو پھر کہاں رکھتا ہے!  خاص طور پر اس صورت میں جب امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور تائیوان کے ساتھ مل کر سازشیں کر رہا ہے۔ چین، امریکہ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے تو اس میں نئی بات کیا ہے! امریکہ 70 سال تک روس کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا۔ امریکہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا اور کر رہا ہے۔  امریکہ اسلامی تحریکوں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، یہاں تک کہ امریکہ اپنے اتحادی سعودی عرب کے Crown Prince Mohammad bin Salman کے خلاف بھی پروپیگنڈا کر رہا ہے۔  جہاں تک چین میں لوگوں پر جبر کا معاملہ ہے تو یہ بلاشبہ سنگین مسئلہ ہے، مگر یہ بہرحال چین کا داخلی معاملہ ہے۔ ویسے اِس وقت تو پوری مغربی دنیا اپنی مسلم اقلیت کو کچل رہی ہے، مغربی حکومتیں مغرب میں آباد مسلمانوں کی وفاداری پر شبہ کر رہی ہیں،  مسلمانوں کی ڈاک اور فونز پر نظر رکھی جا رہی ہے، خواتین کو اسکارف اوڑھنے سے روکا جا رہا ہے،  مساجد کی تعمیر کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، مسجدوں کے مینار بلند کرنے پر اعتراض کیا جا رہا ہے،  سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مسلمان حلال گوشت کیوں کھاتے ہیں؟ مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے، ان کے خلاف Hate Speech کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے نائب صدر پہلے اپنے گھر کی خبر لیں پھر چین پر اعتراض کریں۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات کچھ اور ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ صرف امریکہ کے نائب صدر Mike Pence نے نئی سرد جنگ کی بات نہیں کہی ہے،  بلکہ مغرب کے ذرائع ابلاغ نے بھی اچانک سرد جنگ کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ مغرب کے سب سے موثر علمی و صحافتی رسالے دی اکنامسٹ نے اپنے حالیہ شمارے میں صاف کہا ہے  کہ Mike Pence کی تقریر حقیقی یا عملی سرد جنگ یا اس کی اصطلاح میں Defecto Cold War کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دی اکنامسٹ نے امریکہ، چین محاذ آرائی کے حوالے سے اداریہ تحریر کیا ہے،  اداریے کے مرکزی خیال سے اپنے سرِورق کو آراستہ کیا ہے، اور ایک تین صفحات پر مشتمل مضمون بھی شائع کیا ہے۔ دی اکنامسٹ کے اس مواد کا تجزیہ ہمیں مغرب، اس کے چین سے تعلق، اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ بتا رہا ہے۔ پروپیگنڈا ایک پرانا ہتھیار ہے، مگر مغرب نے اپنے عالمگیر غلبے سے حاصل ہونے والے علم اور تجربے کے ذریعے پروپیگنڈے کو ترقی دے کر آرٹ بلکہ سائنس بنا دیا ہے۔  اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ دی اکنامسٹ نے اپنے 20 اکتوبر سے 26 اکتوبر کے حالیہ شمارے کے سرورق پر جو سرخی شائع کی ہے وہ یہ ہے۔ China V America dangerous rivalry China V America کا ترجمہ چین بمقابلہ امریکہ ہے۔ یہ سرخی اس طرح بھی ہو سکتی تھی، یعنی امریکہ بمقابلہ چین۔ آپ کہیں گے دونوں سرخیوں میں الفاظ کے الٹ پھیر کے سوا کوئی فرق نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔  چین بمقابلہ امریکہ کی سرخی سے تاثر ملتا ہے کہ جارح چین ہے اور امریکہ صرف اپنا دفاع کر رہا ہے۔ یا مقابلہ چین نے شروع کیا اور بے چارہ امریکہ صرف چین کا جواب دے رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی اسے جارحیت کہے یا جنگ، کوئی اسے مقابلہ کہے یا حریفانہ تعلق، کوئی اسے دشمنی کا نام دے یا مسابقت کا اس کا آغاز بہرحال امریکہ نے کیا ہے۔ ممکن ہے کہ چین آنے والے کل میں دنیا کے ساتھ وہی سلوک کرے جو امریکہ 70 سال سے کر رہا ہے،  مگر فی الحال چین، امریکہ سمیت کسی کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ تجارتی جنگ بھی اس نے شروع نہیں کی، اور وہ ابھی تک امریکہ کو مذاکرات کی دعوت دے رہا ہے۔ مگر امریکہ محاذ آرائی کے راستے پر چل پڑا ہے۔

دی اکنامسٹ کے حالیہ شمارے کا ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ اب تک مغربی دنیا چین کو ابھرتی ہوئی طاقت یا Rising China کہہ رہی تھی،  مگر اکنامسٹ نے پہلی بار چین کو سپر پاور کہہ کر مخاطب کیا ہے۔  مغربی ذہن جب بھی اپنے حریف کی طاقت کو بڑھا کر بیان کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے حریف پر ممکنہ حملوں کے لیے جواز تراش رہا ہے اور رائے عامہ ہموار کر رہا ہے۔ دی اکنامسٹ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ امریکہ کے نائب صدر Mike Pence نے چین کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ صرف ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ اس سلسلے میں امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی میں چین کی مذمت کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ پینٹاگون اور سی آئی اے بھی وہی کہہ رہے ہیں جو سیاستدان کہہ رہے ہیں، اور امریکہ اس مسئلے پر ہم آواز ہو چکا ہے کہ چین، امریکہ کا نظریاتی اور تزویراتی حریف ہے۔ دی اکنامسٹ کے اداریہ نویس نے چین کو امریکہ یا مغرب کا نظریاتی حریف قرار دیا ہے تو ایسا بلاسبب نہیں ہے۔ مغرب نے سوویت یونین یا سوشلزم کے خلاف جنگ جیتی تو نظریاتی علم اور نظریاتی جوش اور ولولے کی بنیاد پر۔ مغرب مجبور ہوا تو وہ چین کے خلاف بھی نظریاتی فرق کو آواز دے گا اور اپنے لوگوں میں نظریاتی جوش اور ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، تاکہ اس کے لیے چین کے خلاف ایک موثر جنگ لڑنا ممکن ہو سکے۔

سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو چین سے کس بات کا خوف لاحق ہے؟ اس سوال کا جواب دی اکنامسٹ کے اداریے اور اکنامسٹ میں شائع ہونے والے مضمون میں موجود ہے۔ اکنامسٹ اپنے اداریے میں لکھتا ہے: امریکہ کا خوف یہ ہے کہ وقت چین کے ساتھ ہے۔ چین کی معیشت امریکہ کی معیشت سے دگنی رفتار سے وسعت اختیار کر رہی ہے۔ چین کی حکومت مصنوعی ذہانت، Quantum computing اور بایوٹیک جیسی ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے، امریکہ سمجھتا ہے کہ آج چین کا راستہ South China Sea میں روکا جا سکتا ہے مگر کل یہ کام ناممکن ہو گا۔یہ امریکہ کے خوف کی پوری تفصیل نہیں۔ دی اکنامسٹ نے اپنے زیر بحث شمارے میں چین کے حوالے سے جو مضمون شائع کیا ہے اس میں امریکہ یا مغرب کے خوف کے دو مزید پہلو سامنے آتے ہیں۔ اکنامسٹ لکھتا ہے: چین کی بحریہ کے پاس زمین سے فضا اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے ایسے میزائل ہیں جو امریکہ کے پاس موجود میزائلوں سے زیادہ جدید بھی ہیں اور ان کی تعداد بھی چین کے پاس زیادہ ہے۔ دی اکنامسٹ مزید لکھتا ہے: چین کے فوجی اخراجات زیادہ نہیں مگر ان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) اتنی بڑھ گئی ہے کہ چین زیادہ سے زیادہ ہتھیار خریدنے کی صلاحیت کا حامل ہو چکا ہے۔ تزویراتی مطالعے کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق چین نے 2014 سے اب تک جتنے ٹن کے بحری جنگی جہاز سمندر میں اتارے ہیں وہ ٹنوں یعنی وزن کے اعتبار سے فرانس، جرمنی، بھارت، اٹلی، جنوبی کوریا، اسپین اور تائیوان کی بحریہ کی جانب سے اتارے گئے جنگی جہازوں کے مجموعی وزن سے زیادہ ہیں۔

امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اب تک اس بات کا اطمینان تھا کہ چین کی معاشی طاقت تو بڑھ گئی ہے مگر اس کی عسکری طاقت بہرحال امریکہ سے بہت کم ہے۔ اور یہ ایک درست تجزیہ تھا، مگر اکنامسٹ کے مضمون کے مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جس طرح مغرب، چین کے بارے میں کئی غلط اندازے قائم کرتا رہا ہے اور اپنی ذہانت اور علم کو مذاق بنا چکا ہے، اسی طرح فوجی طاقت کے دائرے میں بھی مغرب کی خام خیالی دور ہونے لگی ہے اور مغرب کو معلوم ہو رہا ہے کہ چین بہت تیزی کے ساتھ فوجی دائرے میں بھی طاقتور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مغرب کے اس خوف نے امریکہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی ترقی کے حوالے سے کیے گئے معاہدے کو مسترد کر دے اور اعلان کرے کہ امریکہ اب جدید ترین ایٹمی ہتھیار بنائے گا۔ مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے گزشتہ 200 سال میں صرف اپنی عسکری طاقت اور سازش کی صلاحیت سے استفادہ کرتے ہوئے درجنوں اقوام کو اپنا غلام بنایا۔ عسکری قوت کے ذریعے ہی امریکہ اور اس کے نام نہاد مغربی اتحادی عالمی نظام چلا رہے ہیں،  اور اب امریکہ سوچ رہا ہے کہ چین کو ڈرانا اور اپنا ماتحت بنانا ہے تو ایسے نئے ہولناک ایٹمی ہتھیار تیار کرو کہ چین، امریکہ کا مقابلہ ہی نہ کر سکے اور اس کے آگے ڈھیر ہو جائے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ایک جانب مغرب مقابلے اور مسابقے کو صنعتی نظام اور جدید معیشت کی بنیاد قرار دیتا ہے مگر دوسری جانب وہ چاہتا ہے کہ چین اس کا مقابلہ نہ کرے۔ اس سلسلے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی منافقت اور شیطانیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ چین نے 2015ء میں Made in China کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ 2025ء  تک چین میں ہر شے مقامی طور پر ساخت کی ہوئی ہو، یعنی Made in China ہو۔ چین کے اس پروگرام کے بارے میں اکنامسٹ لکھتا ہے کہ یہ بات امریکہ کو خوش کرنے والی نہیں ہے اور دنیا کو چین کے اس پروگرام پر تشویش ہے۔  لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیا چین خودانحصاری حاصل نہ کرے؟ کیا وہ ہمیشہ مغرب کا محتاج رہے؟ کیا امریکہ اور یورپ کو کسی نے ہر چیز خود تیار کرنے سے روکا ہے؟ کیا یہی ہے مغرب کا آزادانہ مقابلہ؟ اور آزادانہ مسابقت؟ مغرب کی خباثت کا اندازہ کرنا ہو تو دی اکنامسٹ کے مضمون کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ اکنامسٹ لکھتا ہے:

Well connected scholars and retired officials have shared their concerns with western contacts about a behir a febrile mood with in chinas national security establishment. They detect genuine excitement over the prospect of a great power contest in which china is one of the protagonists. This coincides worryingly with the squeezing of public space for discussion. Scholars are not now supposed to debate foreign policy in the open, and strident nationalists dominate what debit there is Even the idea of an expensive arms race with America Strikes some Chins experts as a fine plan, given their confidence in the long-run potential of their economy. In this dangerous moment, blending grievance and cockiness, it seems astonishing to remember that less than a generation ago Chinese leaders assured the world that they sought only a peaceful rise (The Economist October 20th-26th 2018- page26)

آپ ذرا غور تو فرمائیے اہلِ مغرب چین کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں۔ ایک بات وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ چین کی قومی سلامتی سے متعلق اسٹیبلشمنٹ دو بڑی طاقتوں یعنی امریکہ اور چین کے مقابلے کے حوالے سے بڑی پرجوش ہے کیونکہ چین اس مقابلے کا ایک مرکزی کردار ہے۔ دوسری بات اہلِ مغرب یہ کہہ رہے ہیں کہ چین کی قیادت یا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے مہنگے مقابلے کے لیے تیار ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ چین کی معیشت مضبوط ہے اور وہ ہتھیاروں کی مہنگی دوڑ کا بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتی ہے۔ اہلِ مغرب کو اس بات پر حیرت ہے کہ محض ایک نسل پہلے چینی کہا کرتے تھے چین کا ابھار پرامن ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر چین کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ مقابلے سے خوف زدہ نہیں ہے بلکہ وہ اس مقابلے کے حوالے سے پرجوش ہے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ کیا اس سے چین کی شخصیت کا کوئی شیطانی پہلو سامنے آ رہا ہے؟ اس بات میں اگر کوئی شیطانی پہلو ہے تو یہ کہ اہلِ مغرب چین کو مقابلے کے لیے تیار اور پرجوش دیکھ کر بدمزہ ہو رہے ہیں۔ اصل اہلِ مغرب اس بات کے عادی ہیں کہ وہ کسی کو ڈرائیں گے تو وہ ڈر کر دبک جائے گا۔ مگر چین چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مقابلے سے ڈر نہیں رہا تو اہلِ مغرب اس بات کا ذکر اس طرح کر رہے ہیں جیسے یہ چین کا کوئی بہت بڑا عیب یا بہت بڑا جرم ہو۔ یہ ایسی بات ہے کہ اس پر پوری مغربی دنیا کو شرم سے کہیں ڈوب مرنا چاہیے۔

No comments.

Leave a Reply