دوسری جنگِ عظیم کے دیے زخم آج بھی تازہ

بوڑھے نازی کٹہرے میں، فرانسیسی صدر کے بیان نے ہلچل مچادی۔ فوٹو: فائل

بوڑھے نازی کٹہرے میں، فرانسیسی صدر کے بیان نے ہلچل مچادی۔ فوٹو: فائل

نیوز ٹائم

جنگِ عظیم دوئم کی ہولناک تباہی و بربادی کے شعلے تو کب کے سرد پڑ چکے، نقصانات کی بھی بڑی حد تک تلافی کر لی گئی لیکن روح کے گھائو اب تک نہ بھر سکے۔ انسانی خون سے بجھائے جانے والے ان شعلوں سے راکھ جھڑ جھڑ کر اب بھی انسانی تاریخ کے پنوں کو آلودہ کرتی ہے اور انسانیت جنگِ عظیم کے مرقد کے سامنے بے بس کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں کی یاد اس وقت جرمنی اور فرانس میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے، جہاں ماضی کی طرف ایک بار پھر گردنیں مڑیں اور سوالات جنم لے رہے ہیں۔

فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے گذشتہ ہفتے ایک ایسا بیان دیا کہ پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت کی لہر پھیل گئی اور وہ ہر سطح پر ملامت کا نشانہ بنائے گئے۔ Emmanuel Macron نے دوسری جنگ عظیم میں نازی فوج کے شراکتدار اس وقت کے فرانسیسی صدر Marshal Philippe Pétain کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ درحقیقت پہلی جنگ، عظیم کے بہترین سپاہی اور ہیرو تھے۔ اس بیان پر فرانس میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔

عوام نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں Marshal Philippe Pétain کا نازی افواج کے گھنائونے مقاصد میں شراکتداری ایک ایسا سنگین جرم تھا  جس کو نظرانداز کر کے انہیں پہلی جنگ عظیم کا ہیرو قرار دینا فرانسیسی عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔Marshal Philippe Pétain فرانس کا وہ صدر تھا جس پر دوسری جنگ عظیم کے بعد غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور سزا سنائی دی گئی۔ یہ Marshal Philippe Pétain پہلی جنگ عظیم میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بل پر  ورڈن کا شیر کہلایا گیا۔ اس کی رہنمائی میں جرمنی اور فرانس کی فوجوں کے درمیان پہلی جنگ عظیم کا سب سے بڑا اور طویل معرکہ ہوا، جس کے اختتام پر ایک 162000 فرانسیسی فوجیوں کی لاشوں پر فرانس نے فتح کا تاج اپنے سر سجایا۔ اس جنگ کے بعد Marshal Philippe Pétain کو فرانس میں ہیرو اور نجات دہندہ سمجھا جانے لگا اور 1934ء میں Marshal Philippe Pétain جنگ کا وزیر مقرر کر دیا گیا۔ 1939ء میں اسے اسپین میں سفیر بنا دیا گیا اور 1940 ء میں وہ فرانس کا ڈپٹی وزیر اعظم بن گیا۔

اسی سال اس نے جرمنی سے عارضی صلح کرتے ہوئے مغربی اور شمالی فرانس سمیت کئی علاقے جرمنی کے قبضے میں دے دیے، خود باقی بچے ہوئے فرانس کا چیف آف اسٹیٹ بن گیا اور تمام فرانسیسی ریاستوں کا مشترکہ نام Vichy France رکھ دیا۔ اس کی حکومت نازیوں کی حامی تھی یوں Marshal Philippe Pétain کے دور میں فرانس میں یہودیوں کے خلاف قانون سازی کی گئی اور یہودیوں کے قتلِ عام میں نازیوں کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے یہودیوں کو گھروں سے نکال نکال کر گیس چیمبروں میں جھونک دیا گیا۔

دوسری جنگِ عظیم کی آگ بجھتے ہی Marshal Philippe Pétain پر غداری کا مقدمہ چلا۔ پہلے اس کو سزائے موت سنائی گئی لیکن پھر اس کی بڑھتی ہوئی عمر اور پہلی جنگِ عظیم میں اس کی خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی قید میں وہ 1951ء میں 51 سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اس کا دور حکومت فرانس کا ایک تاریک دور تھا۔ فرانس کا یہ ماضی اس کے باشندوں کے لیے اب بھی ایک دکھتی رگ ہے جس پر ہاتھ رکھ کر Emmanuel Macron نے نہ صرف اپنی ساکھ خطرے میں ڈال لی بلکہ ایک آفت کو بھی دعوت دے ڈالی۔

فرانس میں Hitler اور اس کی افواج کے خلاف اس قدر نفرت موجود ہے کہ 2015 ء میں ایک ہائی اسکول ٹیچر کو اس بات پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا کہ اس نے کلاس میں کئی بار Hitler کا دفاع کیا تھا۔ ٹیچر نے بچوں سے کہا کہ Hitler ایک اچھا آدمی تھا اس نے فرانس میں موٹروے بنوائے اور ترقی کا کافی کام کیا۔ وہ تو لیکچر دے کر فارغ ہو گئی لیکن کلاس میں موجود 20 میں سے 17 طالب علموں نے اس کے خلاف ایک درخواست لکھ کر انتظامیہ کو جمع کروا دی۔ اس درخواست کی ایک کاپی والدین کی تنظیم کو بھی بھیج دی گئی۔ یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ وہ ٹیچر اپنے خیالات سمیت اس نوکری سے پہلے معطل اور پھر فارغ کر دی گئی۔

فرانس میں نازی فوج کے خلاف نفرت کی اس فضا میں Emmanuel Macron کو یہ اندازہ تو بہ خوبی ہو گا کہ Marshal Philippe Pétain کو پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین ان کو بہت منہگا پڑ سکتا ہے لیکن نہ جانے وہ کون سی مصلحت تھی جس نے انہیں Marshal Philippe Pétain کا دفاع کرنے پر مجبور کر دیا، جبکہ کئی بار Emmanuel Macron فرانس کے انتہائی دائیں بازو حلقوں کی طرف سے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور اس ہفتے بھی پولیس نے 6 لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو ان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ بہرحال فرانس کے عوام Emmanuel Macron کے اس بیان پر بے حد مشتعل ہیں کیونکہ ان کے سامنے اس وقت سب سے بڑی مثال جرمنی کی ہے  جہاں اس وقت بھی چند بچے کھچے نازی فوجیوں پر مقدمے چلا کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جرمنی! جی ہاں جرمنی میں یہ وقت ان نازی فوجیوں کے لیے بہت کڑا ثابت ہو رہا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے 70 سال بعد بھی بدقسمتی سے زندہ ہیں۔ جرمن قانون ساز ادارے ان نازی فوجیوں کی رسیدگی کے باوجود انہیں کٹہرے میں کھڑا کر چکے ہیں۔

یہ معاملہ آخر ہے کیا؟ آئیے اس پر تفصیلی نظر ڈالتے ہیں۔

Heinrich Himmler جرمنی میں اپنے وقت کا منجھا ہوا سیاستدان، پولیس ایڈمنسٹریٹر اور ملٹری کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ Hitler کے بعد دوسرا طاقتور ترین آدمی بھی تھا۔ 1929سے 1949ء تک وہ Schutzstaffel یعنی SS کا سربراہ رہا۔ SS ابتدا میں دراصل Hitler کے ذاتی محافظوں پر مشتمل ایک گروپ تھا لیکن نازی تحریک کی مقبولیت اور کامیابی کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار اور اثرورسوخ بھی بڑھتا چلا گیا۔ Heinrich Himmler کی کاوشوں سے یہ 300 محافظوں پر مشتمل گروہ 1933ء تک وسیع ہو کر 50 ہزار تک جا پہنچا۔ چمکتی سیاہ وردیوں والے یہ محافظ 1936ء تک جرمنی کا نہایت طاقتور عنصر بن چکے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی سرگرمیوں اور دائرے کی کوئی حد ہی نہ رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے 250000 لوگ اس تنظیم کا حصہ بن گئے، جن کی تربیت فوجی طرز پر کی جانے لگی اور نسل پرستی کا زہر ان کی رگوں میں اتارا جانے لگا۔ دوسری جنگ عظیم میں SS نے Hitler کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔

نہ صرف تمام سیاسی مخالفین بلکہ جپسیوں، یہودیوں، پولش حکمرانوں اور کمیونسٹوں سمیت تمام مخالفین پر دھاوا بول دیا۔ اس ہولناک جنگ کے خاتمے کے بعد SS کو ایک دہشت گرد اور مجرم تنظیم قرار دے دیا گیا۔ نازی فوجیوں پر مقدمے چلے لیکن 800 سے بھی کم فوجی سزا کے حق دار ٹھہرے۔ ہزاروں فوجیوں نے اپنی شناخت چھپا لی۔ وہ دوسرے ملکوں کی طرف فرار ہو گئے اور وہاں کی شہریت لے کر نئی زندگی شروع کر دی، جبکہ سینکڑوں فوجی جرمنی میں ہی چھپ گئے۔ اب 70 سال بعد چند زندہ فوجیوں کا کھوج لگا کر ان پر مقدمے چلاتے ہوئے جنگ کے اب تک رستے ہوئے زخموں کو بھرنے کی ایک کوشش کی جا رہی ہے۔

1939میں جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو وہاں ڈیتھ کیمپ بنائے جہاں 1945ء تک 1.1 ملین لوگ مار دیے گئے، ان میں 90 فیصد یہودی تھے۔ جنوری 1945ء میں یہاں 10 ہزار SS گارڈز کام کر رہے تھے۔ پولش ریاست کی طرف سے قائم کیے جانے والے ایک ادارے Institute of National Remembrance نے پچھلے سال 200 نازی فوجیوں اور گارڈز کی فہرست مرتب کی جو اس وقت زندہ ہیں۔ اس فوجیوں کے بارے میں مکمل تحقیقات کی گئیں کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے، انہوں نے SS میں کتنی مدت کام کیا اور اس محاذ کے علاوہ مزید کہاں کہاں انہوں نے Hitler کی فوج کے لیے کام کیا۔ ان 200 نازی فوجیوں کے ٹرائل کے لیے اب جرمنی میں چیخ و پکار مچی ہوئی ہے۔ ان سابق زندہ فوجیوں کا تعلق پولینڈ، روس، امریکا، جرمنی اور آسٹریا سے ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر رواں سال جون کے مہینے میں جرمنی اور آسٹریا میں 23 نازی فوجیوں پر مقدمہ چلایا گیا، جن کے بارے میں یہ یقین تھا کہ انہوں نے ڈیتھ کیمپوں میں کام کیا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں یہ ایک بڑا ٹرائل تھا۔

امریکا میں رواں سال اگست میں ایک 95 سالہ نازی فوجی کی شناخت ہو جانے پر اسے امریکی شہریت سے بے دخل کر کے جرمنی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ یہ فوجی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا فرار ہو گیا تھا، جسے 1957ء میں امریکی شہریت مل گئی، یوں اس نے اپنے سیاہ ماضی پر خوش نما پردہ ڈالا اور زندگی سکون سے گزار دی۔ ضمیر کی چیخوں سے بے چین اس فوجی نے عمر کے آخری حصے میں اعتراف کر ڈالا کہ وہ نازی فوج کا گارڈ تھا۔ اس نے بتایا کہ ہٹلر کے خوف سے وہ SS کا حصہ بن تو گیا لیکن قتل عام کا حصہ بننے سے وہ اب بھی انکاری ہے۔ اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے جرمنی کے قانون ساز ادارے تیار نہیں، کیونکہ تحقیقات کے مطابق اس کا تعلق جس ڈیتھ کیمپ سے تھا وہاں 6000 یہودیوں کا قتل ہوا تھا، یوں اس کا قتل عام سے بچ کر رہنا قطعی ناممکن تھا۔

94سالہ نازی فوجی John Rabbgan بھی اس وقت مقدمے کی کارروائی کا سامنا کر رہا ہے۔ جنگ کے وقت اس کی عمر 21 سال تھی، لہذا اس پر مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلایا جا رہا ہے، بہت ممکن ہے کہ اس کو 10 سال قید کی سزا سنا دی جائے۔ John Rabbgan کا تعلق جس ڈیتھ کیمپ سے تھا وہ جگہ اس وقت پولینڈ کا حصہ ہے۔ یہاں نہایت بے دردی سے 60000 نفوس کا قتل عام ہوا تھا۔ قیدیوں کے دل میں پیٹرول کے انجکشن گھونپے جاتے۔ انہیں سخت سردی میں برہنہ کر کے، موسم اور بھوک کے حوالے کر دیا جاتا، اور وہ اذیت ناک حالت میں جان سے جاتے، اس کے باوجود جو مر کے نہ دیتے ان کا آخری ٹھکانا گیس چیمبر بنایا جاتا۔ جرمن عدالت میں John Rabbgan کا ٹرائل ہفتے میں دو دن دو گھنٹے کے لیے ہوتا ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھے بوڑھے John Rabbgan کی نقاہت اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو پاتی۔

پچھلے سال 95 سالہ نازی  Reinhold Hanning فوجی مقدمے کی سماعت کے دوران طبعی موت مر گیا۔ دورانِ کارروائی اس نے اعتراف کیا کہ دوسری جنگِ عظیم کے قتل عام میں وہ سہولت کار کے طور پر کام کر رہا تھا اور اس کی ڈیوٹی جس ڈیتھ کیمپ میں تھی اس میں 175000 لوگوں کی جان لی گئی۔ Reinhold Hanning نے اس مقدمے کی کارروائی کے دوران کئی بار روتے ہوئے اپنے جرم کی معافی مانگی اور کہا کہ وہ بہت شرمندہ ہے، اسے معاف کر دیا جائے، لیکن وہ معافی کا حق دار نہ تھا۔ قریب تھا کہ اسے سزا سنائی جاتی اور وہ قید میں جان دیتا، اس سے قبل ہی اس کی قدرتی موت کا پروانہ آن پہنچا اور وہ دنیاوی عدالت سے بری ہو گیا۔ یہ محافظ جنگ کے وقت 22 برس کا تھا اور ان قیدیوں کی حفاظت پر مامور تھا، جنہیں 1943ء سے 1944ء  کے درمیان ہلاک کیا گیا تھا۔ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ملزم کو وہاں جاری اجتماعی قتل عام کا علم تھا۔ اسے یہ بھی خبر تھی کہ ان افراد کو نسل پرستی کی بنا پر قتل کیا جا رہا تھا۔ Hubert Z ایک اور نازی گارڈ ہے، جسے جرمن عدالت نے قید کی سزا سنا ئی ہے۔ SS میں شمولیت کے وقت اس کی عمر 19 سال تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اگرچہ وہ پولینڈ میں 4 سال قید کی سزا بھگت چکا  لیکن اس پر ایک اور ٹرائل کا مطالبہ جرمنی میں زور پکڑتا گیا، یوں اسے 96 برس کی عمر میں دوبارہ عدالت میں کھینچ لیا گیا۔ان کے علاوہ بھی اس وقت جرمنی کی عدالت میں ایسے کئی مقدمات پر تیزی سے کارروائی جاری ہے۔  امریکا میں موجود یہودیوں کے انسانی حقوق کی تنظیم Simon Wiesenthal Centreنے بھی انتہائی مطلوب 200 نازی فوجیوں اور محافظوں کی فہرست مرتب کر کے جرمن حکومت کو 2016 ء میں فراہم کی تھی، جن میں سے 27 محافظ اب تک طبعی موت مر چکے ہیں۔ بہت کا سراغ لگایا جا چکا ہے اور باقی کی تلاش کا عمل زورشور سے جاری ہے۔ اس عمل سے بے شک اس بڑے نقصان کی تلافی نہیں ہو سکے گی  جو جنگ میں دنیا نے بھگتا لیکن حضرت انسان اب کی بار شائد ان احمقانہ فیصلوں کو رد کرنے لگے جن کا انجام فقط تباہی اور بربادی ہے۔

نومبر کی انہی خنک شاموں میں پہلی جنگ عظیم کے شعلے سرد پڑے تھے اور یہی شامیں دوسری جنگِ عظیم کے بھیانک شعلوں کی گواہ بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگوں کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک ضرور پہنچنا چاہیے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس تاریخی مہینے میں اس تلخ سچائی کا ایک گھونٹ بھر کر یہ اعتراف کر لیا جائے کہ جنگ کا ذمہ دار اصل فلسفہ تو اب تک دنیا کا حاکم بن کر راج کر رہا ہے، جس کو گھول کر پینے والے ایک اور بڑی جنگ کی تیاری کا بگل دھڑلے سے بجا رہے ہیں، ان کا احتساب آخر کب ہو گا؟ کیا ان کے لیے بھی کوئی کٹہرا تیار ہو پائے گا؟ دنیا اس خونی اور قاتل فلسفے کو کب رد کرے گی؟ ساتھ ہی ایک اور اہم سوال یہ کہ دنیا سے مہلک ہتھیاروں کی وہ اسلحہ فیکٹریاں کب بند ہوں گی جن سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دھن میں اس فلسفے کے پیروکار کبھی کہیں جنگ کے سائے بڑھا دیتے ہیں تو کہیں شعلوں کو مزید ہوا دیتے ہیں، گویا خود ہی ڈیمانڈ پیدا کرتے ہیں اور خود ہی سپلائی کرتے ہیں۔ ان کا من پسند یہ آتشیں کھیل آخر کب بند ہو گا؟ دوسری جنگِ عظیم کے سارے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچائیے لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیے کہ اب کبھی انسانی اقدار کی دھجیاں بکھیرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ رہے۔

No comments.

Leave a Reply