یورپی یونین میں اصلاحات کا مطالبہ: جرمن چانسلر انجیلا مرکل

جرمن چانسلر انجیلا مرکل

جرمن چانسلر انجیلا مرکل

 برسلز ۔۔۔ نیوز ٹائم

دنیا کی طاقتور ترین خاتون سمجھی جانے والی جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے،  لیکن وہ ایک ایسے یورپ کی تشکیل چاہتی ہیں، جو طاقتور ہو اور اپنی اقدار کا دفاع بھی کرے۔ جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجئیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے 25 مارچ 1957 ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی (ای ای سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔  تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔ یورپی یونین، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، بیلجئیم، پولینڈ، سپین، ڈنمارک، سویڈن سمیت براعظم یورپ کے 28 ممالک کا اتحاد ہے۔ اس کے قیام کے سیاسی اور اقتصادی مقاصد تھے۔ 28 میں سے 18 رکن ممالک واحد کرنسی یورو استعمال کرتے ہیں۔

انجیلا مرکل سمجھتی ہیں کہ اس وقت یورپی اقدار پر حملے کئے جا رہے ہیں اور یورپی یکجہتی کے اصول کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، تنہا کوئی بھی بات کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے،  اسی وجہ سے اب ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ جرمن چانسلر نے یورپی سیکیورٹی کونسل کی تشکیل کی بھی تجویز دی جو یورپی دفاع کے ساتھ ساتھ سلامتی کی پالیسیوں کو بھی بہتر بنائے گی۔ جرمنی اور فرانس سمیت کئی یورپی ملک امریکا، چین اور روس کے مقابلے میں یورپی فوج بنانا چاہتے ہیں جبکہ ڈالر کے مقابلے میں یورو کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ جرمنی اور فرانس کا موقف ہے کہ جب تک ہم ایک حقیقی یورپی فوج کے حامل نہیں ہوتے اس وقت تک یورپ میں رہنے والوں کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔ یورپی یونین کو بحیثیت تنظیم ہر دور سے زیادہ حالیہ عشروں کے دوران خطرات کا سامنا ہے۔ جرمنی، فرانس سے لے کر فن لینڈ تک پورے یورپ میں قدامت پرست عوامی اور نسل پرست گروہ زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ بالخصوص یورپی یونین میں مہاجرین کی آمد کے بعد یورپی یونین تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر ممکن ہے کہ یورپ ایک بحران سے دوسرے بحران میں مبتلا ہو کر خود یورپی یونین کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔ یورپی یونین کے رکن بعض قوم پرست ممالک اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ عالمگیریت کے اس دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں۔ نیشنلزم نے کبھی مسائل کو حل نہیں کیا ہے بلکہ ہمیشہ نئے نئے مسائل پیدا کئے ہیں۔ جرمن چانسلر کو انتہائی دائیں خیالات رکھنے والے جرمن سیاستدانوں کی طرف سے مہاجرین دوست پالیسی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انجیلا مرکل چاہتی ہیں کہ جرمنی کا مثبت امیج بحال رکھا جائے اور جرمن معاشرے کو قدامت پسندی کی جانب مائل ہونے سے روکا جائے۔ جرمنی، فرانس سمیت دوسرے ممالک بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور قوم پرستی کے حوالے سے یورپی یونین میں اصلاحات چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس رجحان کے خلاف مزاحمت کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور یورپ سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ڈیوٹی عائد کرنے کے فیصلے سے یورپی یونین کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب امریکا جیسے اتحادی ممالک کثیر الجہتی تجارتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق معاہدوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ جرمنی سمیت یورپ کی سوچ یہ ہے کہ یورپ، امریکا کے ساتھ کام تو کرنا چاہتا ہے لیکن وہ امریکا کو کبھی اجازت نہیں دے گا کہ وہ یورپی یونین کو کمزور کرے۔

یورپی یونین سمجھتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ پالیسیوں نے یورپ کی سلامتی کے لئے براہ راست خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ اسی وجہ سے جرمنی سمیت یورپی یونین، امریکا کے ساتھ شراکتداری پر ازسرنو غور کرنا چاہتی ہے تاکہ یورپی یونین کو امریکا کا ہم پلہ بنایا جا سکے۔ یورپی یونین میں اصلاحات کے مطالبے کی ایک اور اہم ترین وجہ برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج بھی ہے، Brexit منظرنامہ یورپی ناخدائوں کے لئے درد سر بنا رہا۔ بالآخر یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان Brexit معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے پر دسمبر 2020 ء تک مکمل طور پر عملدرآمد ممکن بنایا جائے گا۔ دوسری بہت سی شرائط کے علاوہ اس معاہدے کے تحت برطانیہ 2019ء اور 2020 ء میں بھی یورپی یونین کے سالانہ بجٹ میں اپنا حصہ دے گا۔ یورپی یونین اور برطانیہ کے مابین پیسوں کا لین دین 39 بلین پائونڈز تک ہو سکتا ہے۔ مستقبل میں ایسی کسی بھی صورتحال سے بچنے کے لئے بالخصوص جرمنی اور فرانس یورو زون میں اصلاحات اور یورپی یونین کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یورو زون میں جلد اصلاحات نہ کی گئیں تو یورپی یونین کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply