پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 دن کیسے رہے

پاکستان تحریک انصاف حکومت کے 100 دن مکمل, خارجہ پالیسی محاذ پر نئی حکومت کے لیے یہ خاصا مشکل دور رہا

پاکستان تحریک انصاف حکومت کے 100 دن مکمل, خارجہ پالیسی محاذ پر نئی حکومت کے لیے یہ خاصا مشکل دور رہا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

پاکستان تحریک انصاف حکومت کے 100 دن مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی محاذ پر نئی حکومت کے لیے یہ خاصا مشکل دور رہا۔ امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔ کبھی بھارتی بیانات تو کبھی ٹرمپ کے ٹویٹس، افغانستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا کے دورے اور کبھی چین کے ساتھ محبتیں، پاکستان کا دفتر خارجہ اس تمام صورت حال سے نبردآزما ہے۔

عمران خان کے پہلے 100  دن وزارت خارجہ کے حوالے سے اس لحاظ سے مثبت رہے کہ اس وزارت کو ایک مکمل اور بااختیار وزیر خارجہ ملا ہوا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے انتخابات میں کامیابی پر 26 جولائی کی تقریر میں اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کر دیے تھے جس میں امریکہ کے ساتھ  دوطرفہ مفید متوازن تعلقات کا اعلان کیا، بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کی بات کی، خطے میں انسداد غربت تجارتی حجم بڑھانے کی تجویز دی۔ مسئلہ کشمیر کے حل، اور ایک قدم کے بدلے دو قدم بڑھانے اور دوستی کی پیشکش کی۔

لیکن دفتر خارجہ کی کوششوں کے باوجود بھارت کی جانب سے کوئی قابل ذکر پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر بھرپور تنقید کی جس کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنی پالیسی بنانے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے تعلقات میں فی الحال جمود ہے۔ تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان کے امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات اس دور میں خراب نہیں ہوئے۔  انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں ہی اس بداعتمادی کا آغاز ہو گیا تھا، جس کے بعد اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑ رہے ہیں، لیکن اس کی ذمہ داری پاکستان تحریک انصاف کی 100 دن کی حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

پاکستان نے مشکل اقتصادی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب، امارات اور چین کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سعودی عرب میں کامیابی ملی جبکہ چین اور امارات کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ چین کی طرف سے سی پیک منصوبوں پر تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے خدشات ظاہر کیے جانے کے معاملے پر بھی چین کو تحفظات ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کا چین سے اقتصادی پیکج اب تک حتمہ طور پر طے نہیں ہو سکا۔

افغانستان کے معاملے میں تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اگرچہ اپنا پہلا دورہ افغانستان کا ہی کیا لیکن بداعتمادی کی فضا ابھی تک کم نہیں ہو سکی ہے۔نجم رفیق کہتے ہیں کہ 100 دن کی حکومت میں خارجہ پالیسی کا تعین تو ہو سکتا ہے لیکن عملدرآمد کے لیے یہ وقت بہت کم ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو وقت دینا ہو گا۔ عمران خان حکومت نے خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کر دیا ہے اور امید ہے کہ سفارتی محاذ پر جلد صورت حال بہتر ہو گی لیکن حکومت سے صرف 100 دن کے اندر بین الاقوامی سطح کے مسائل حل ہونے کی توقع کرنا درست نہیں ہو گا۔

پاکستان تحریک انصاف کی 100  دن کی کارکردگی کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت بری طرح سے ناکام رہی ہے اور اس کا کوئی وژن نہیں ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے کہا کہ وزرا کے اترے ہوئے چہرے 100 دن کی حکومت کی کارکردگی بیان کر رہے ہیں۔ عمران حکومت کی نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی سمت۔ جو وزیر اعظم ملک کو مزید قرضوں میں جکڑنے پر خوشیاں منا رہے ہوں ان کے وژن کو کیا نام دیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سی پیک کے خلاف حکومتی بیانات پر بھی شدید ردعمل دیا گیا تھا جس میں مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت چین جیسے دوست کو ناراض کر رہی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے سفارتی محاز پر اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور حال ہی میں بھارت کے سخت رویہ کے باوجود کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ ان پالیسیسز سے پاکستان کو فائدہ ہو گا یا نہیں اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔پاکستان کا عالمی سطح پر سب سے اہم مسئلہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی اصطلاح ہے جس کی وجہ سے عالمی برادری میں اکثر موقوں پر پاکستان کے موقف کو درست نہیں سمجھا جاتا۔

No comments.

Leave a Reply