امریکا کا ڈکٹیٹر صدر اور سی این این

یو ایس صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سی این این کے رپورٹر جم اکوسٹا

یو ایس صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سی این این کے رپورٹر جم اکوسٹا

نیوز ٹائم

یہ نیوز کانفرنس پورے امریکا اور کیوبا میں براہِ راست دیکھی جا رہی تھی۔ دونوں ممالک کے سربراہان صحافیوں کے سوالات کا جواب مسکراہٹ سے دے رہے تھے۔  مائیک سی این این کے رپورٹر کی گرفت میں آیا اور ایک انتہائی حساس معاملے پر چبھتا ہوا سوال ہال میں گونجا، جس پر گردنیں گھومیں اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ رپورٹر نے کیوبا کے صدر Raúl Castro سے سوال کیا کہ کیوبا میں سیاسی قیدیوں کی وجہ کیا ہے اور آپ ان کو رہا کیوں نہیں کرتے؟ یہ مارچ 2016ء کی ایک دوپہر تھی۔ امریکی صدر باراک اوباما کیوبا کے تاریخی دورے کے بعد Havana میں Raúl Castro کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ سی این این کے رپورٹر Jim-Acosta کے اس سوال پر ہال میں سناٹا چھا گیا کیونکہ 1950ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا  جب کسی غیر ملکی رپورٹر نے کیوبا کی لیڈر شپ کو براہ راست مخاطب کیا تھا۔ Raúl Castro لمحے بھر کو Jim-Acosta کے سوال پر چونکے، پہلو بدلا اور جواب دیا، مجھے ان تمام سیاسی قیدیوں کے ناموں کی فہرست لا دیجیے میں انہیں فورا رہا کر دوں گا۔ کیوبا کی حکومت آزادی صحافت کے لیے ہمیشہ ہی سے آزار بنی رہی اور زباں بندی کے سارے گر آزماتی رہی ہے۔ اس کے باوجود کسی نے Jim-Acosta کے سوال پر ان کے ہاتھ سے مائیک چھینا، نہ ان کو باہر کا راستہ دکھایا اور نہ کاغذات ضبط کیے۔

دو سال بعد اپنی ہی سرزمین امریکا میں جہاں آزادی صحافت اور احترامِ کا ڈھول بری طرح پیٹا جاتا ہے Jim-Acosta ایک سوال پر وائٹ ہائوس کی چار دیواری میں توہین آمیز سلوک کے حقدار قرار دے دیے گئے، ایسا سلوک ان کے ساتھ کسی غیر ملک میں بھی نہ ہوا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ مڈٹرم انتخابات کے بعد ٹرمپ وائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ پریس کے نمائندوں میں سی این این کے رپورٹر Jim-Acosta بھی شامل تھے۔ Jim-Acosta وائٹ ہائوس میں سی این این کے نمائندہ صحافی ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ امریکا کی سرحد پر موجود مہاجر قافلوں کو آپ حملہ کیوں قرار دیتے ہیں؟ ٹرمپ نے اس سوال پر انہیں جھاڑ دیا اور چلاتے ہوئے کہا ملک مجھے چلانے دو، تم بس سی این این چلا، اگر تم درست سمت میں سی این این چلاتے تو آج اس کی ریٹنگ بہتر ہوتی۔ ٹرمپ اتنا کہہ کر بھی چپ نہ ہوئے اور غصے میں آپے سے باہر ہو گئے، مزید دھتکارتے ہوئے کہا کہ  تم ایک بدتمیز اور خطرناک آدمی ہو۔ Jim-Acosta نے نہایت تحمل سے یہ ٹرمپ کی جھاڑ سنی اور نتائج کی پروا کیے بنا روس کی تحقیقات کے حوالے سے اگلا سوال داغ دیا۔ اب تو ٹرمپ پھٹ ہی پڑے اور کہا بس حد ہو گئی، بہت ہو گیا، مائیک رکھو۔ اس کے بعد Jim-Acosta سے مائیک چھین لیا گیا، پھر ان کا پریس کارڈ بھی ضبط کر لیا گیا جو بعد میں اگرچہ سی این این نے عدالت سے رجوع کر کے بحال کروا لیا، لیکن یہ پورا واقعہ امریکا میں آزادی صحافت کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہوا اور اس سے امریکی جمہوریت ہِل کر رہ گئیں۔

Jim-Acosta جو واشنگٹن میں پلے بڑھے، James Madison University سے گریجویٹ کرنے کے بعد مختلف اداروں میں کام کرتے کرتے 2007 ء میں سی این این کا حصہ بن گئے۔ وہ گذشتہ تین سال سے پریس میں ایک ہائی پروفائل ممبر کے طور پر جانے جاتے ہیں، جن کا باقاعدگی سے وائٹ ہائوس آنا جانا ہے۔ اس دوران وہ متعدد بار ٹرمپ کی سی این این سے نفرت کی بھینٹ چڑھے۔ Jim-Acosta کا رپورٹنگ اسٹائل ABC کے رپورٹر ڈونلڈ سن سے مشابہہ ہے جو Ronald Reagan کے دور میں وائٹ ہائوس میں اے بی سی کا نمائندہ رہا تھا۔ اس نے وائٹ ہائوس سے وابستہ اپنے 16 سالوں پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان Hold on , Mr . President تھا۔ اس میں اس نے بتایا کہ وہ امریکی صدر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتا تھا، کیونکہ چبھتے ہوئے سوالات کی وجہ سے اسے سوال کرنے کا بہت کم موقع دیا جاتا تھا۔ وہ بہت فاصلے پر موجود امریکی صدر سے بھی چیخ چیخ کر سوال کر لیتا، جس کے لیے اسے کسی مائیک کی ضرورت نہ تھی۔ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے تو عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی سے میڈیا سے بیر باندھ لیا تھا۔ پچھلے سال انہوں نے کہا کہ ایک فیک نیوز ٹرافی کا آغاز ہونا چاہیے جو تمام کرپٹ ٹیلی وژن چینلز کو ملنی چاہیے جو امریکی عوام کے پسندیدہ صدر (ان کا اشارہ اپنی طرف تھا) کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اس بار انہوں نے خاص طور پر سی این این کا نام لیا۔  سی این این اور ٹرمپ کی جنگ اس وقت زیادہ بڑھی جب ٹرمپ نے نومبر 2017 ء میں ایک ٹوئیٹ میں لکھا سی این این جعلی خبروں کا بڑا مرکز ہے۔ یہ دنیا میں ہماری قوم کی بری طرح نمائندگی کرتے ہیں، باہر کی دنیا کو ان کی خبروں میں سچائی نہیں ملتی۔ اس کے جواب میں سی این این کی طرف سے ٹوئیٹ آیا کہ امریکا کی دنیا میں نمائندگی کا کام سی این این کا نہیں، یہ آپ کا ہے۔ ہمارا کام صرف خبروں کی رپورٹنگ ہے۔

اس جنگ کا آغاز تو ٹرمپ کی فتح کے انتخابی نتائج کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، جب سی این این کے صدر Jeff Zucker نے صدارت کی افتتاحی تقریب سے پہلے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا سی این این واحد چینل ہے جو بیجنگ، ماسکو، Seoul ، ٹوکیو، Pyongyang ، بغداد، تہران اور دمشق میں دیکھا جاتا ہے۔ لہذا ٹرمپ کا نقطہ نظر دنیا تک پہنچانے کا ایک یہی واحد ذریعہ ہے۔ لہذا سی این این کے ساتھ حکومت کا متضاد رویہ ایک بڑی غلطی ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا یہ تھا کہ سی این این سے بہتر برتائو ٹرمپ کے حق میں زیادہ بہتر ہو گا۔  یہ بیان دراصل سی این این اور ٹرمپ کی جنگ کی ابتدا تھا۔ ٹرمپ نے سی این این کو صرف متضاد رویوں کے ہی قابل گردانا اور ساتھ ساتھ شکوہ کناں بھی رہے کہ باہر کی دنیا میں ان کو صرف بدنام کیا جا رہا ہے۔ جنوری 2017 ء میں ٹرمپ کی صدارتی افتتاحیہ تقریب سے ٹھیک ایک دن قبل Jim-Acosta نے ٹرمپ اور روس کے تعلقات کے حوالے سے سوال کیا تو ٹرمپ نے انہیں بری طرح جھڑک دیا اور کہا تم نہیں بلکہ تمہارا ادارہ خطرناک ہے۔ اس پر Jim-Acosta نے کہا آپ ہم پر مسلسل حملے کر رہے ہیں، کیا سوال کا حق بھی دیا؟ ہمارے ادارے پر حملے کر رہے ہیں کیا ہمیں کوئی موقع بھی دیا گیا؟ اس پر ٹرمپ نے چلاتے ہوئے کہا میں تمہیں سوال کا موقع نہیں دوں گا، تم لوگ جعلی خبریں پھیلاتے ہو۔

2017 میں ہی ورجینیا میں نیو نازی اور سفید فاموں کی ایک ریلیUnite the Right نکالی گئی، جس میں مظاہرین کا نعرہ تھا یہودی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔ اس ریلی کی مخالفت میں بھی ایک ریلی نکل رہی تھی، جس پر گاڑی چڑھ دوڑی اور کئی لوگ زخمی اور ایک عورت جاں بحق ہو گئی۔ ٹرمپ نے اس واقعے پر صحافیوں سے کہا دونوں طرف کچھ برے لوگ بھی تھے لیکن یہ سچ ہے کہ دونوں طرف اچھے لوگ بھی موجود تھے۔ Jim-Acosta نے جھٹ جواب دیا سر! نازیوں میں قطعا اچھے لوگ نہیں تھے۔ اس جواب پر ٹرمپ اکوسٹا کا منہہ تکتے رہ گئے۔ رواں سال جون میں نارتھ کوریا کے لیڈر Kim Jong Un اور ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے ٹرمپ پریس کے سوالات کا جواب دے رہے تھے کہ Jim-Acosta نے اپنے فطری اسٹائل میں ہی کچھ حساس سوالات کر ڈالے۔ یہ سوالات ٹرمپ انتظامیہ کو بہت ناگوار گزرے اور 2020ء کی انتخابی مہم میں صدر ٹرمپ کے معین کردہ کیمپین مینیجر Brad Parscale نے کہا اس رپورٹر کے پریس کاغذات فوری طور پر ضبط کر لینے چاہییں۔ اس دھمکی کا جواب Jim-Acosta نے ٹوئیٹر کے ذریعے دیتے ہوئے کہا ڈیئر Brad Parscale! پریس کارڈ ڈکٹیٹر شپ ضبط کرتی ہے، جمہوریت نہیں۔ اور آج 4 ماہ بعد امریکا میں ایک سوال کی پاداش میں Jim-Acosta کے پریس کارڈ کی منسوخی کا معاملہ سوال کر رہا ہے کہ کیا امریکا میں واقعی ڈکٹیٹر شپ آ چکی ہے؟

No comments.

Leave a Reply